جاتے ہوئے تم!


تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے
تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا
(بشیر بدر)
پیارے تم!

کچھ دنوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ تم یہاں ہو کر بھی یہاں نہیں۔ تمہاری موجودگی ہمیشہ ہی غیر موجودگی کا سا تاثر دیتی تھی اور تم ہم سب کے درمیاں ہو کر بھی مانو ہم سے کترائے کترائے سے تھے۔ کافی کے ہر سپ کے ساتھ میں خود کو منواتی کہ تم ہو میرے ساتھ۔ لبھی زبردستی ہی کوئی دبیز شال لے لی تو کبھی کوئی جیبوں والی ہوڈی پہن لی کہ تمہیں اسپیشل فیل کروایا جائے۔ خشک میوہ جات، تازہ حلوے اور گرما گرم سوپ سے تمہاری ضیافت کی گئی لیکن تم تو کسی اکڑو داماد کی طرح دوسری طرف ہی منہ گھما کر بیٹھے رہتے۔

میں پھر بھی ”سب اچھا ہے“ کی مالا جپ کر تمہارے ساتھ خوش تھی

اور آج لگا کہ تم اب ہمارے درمیاں نہیں رہے۔ میں نے تمہیں ہر جگہ ڈھونڈا لیکن تم کہیں نہیں ملے۔ ٹیرس تمہارے بنا ویران ہے۔ صبح سویرے جو تمہارے ہونے کی ہلکی سی رمق ملتی تھی وہ بھی ندارد ہے۔

دل بوجھل سا ہو گیا ہے۔

بیڈ پر دھری نرم گرم شالیں جیسے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھ رہی کہ بس ایک سے دو دفعہ ہی تو اوڑھا تھا انہیں۔

ہوڈی کی جیبوں سے آج مونگ پھلی کے چھلکے بھی نکال لیے تو وہ بھی گٹھری بنی روٹھی روٹھی سی ہے کہ لہرا باجی ابھی میں نے دنیا میں دیکھا ہی کیا تھا کہ پھر سے الماری میں بند ہو جاؤں؟

کافی کی بوتل نے تو جیسے اجنبیت کی چادر اوڑھ لی ہے اور کافی کی خوشبو بھی مزاج پر گراں گزرنے لگی ہے۔

تم تھے تو سب اچھا تھا۔ تمہارے ساتھ سب کچھ اچھا لگتا تھا۔ تم سورج کی گرم شعاؤں کی موجودگی میں بھی جیسے خود سے لگائے رکھتے تھے اور میں سن گلاسز لگا کر اس دھوپ کو بھی صرف ایک تمہارے ہونے سے سہ جایا کرتی تھی۔

اب اس سورج کی گرمی کا سامنا میں کیسے کروں گی؟ اس نے تو لو کے تھپیڑے چلانے ہیں اور میں! میں تمہاری ٹھنڈک کی عادی ہونے لگی تھی۔

واپس آ جاؤ کہ دل تمہارے بنا بہت اداس ہے
کیا تمہیں نہیں پتہ کہ فرزین لہرا تم پر مرتی ہے اور تمہارا ساتھ ہر وقت چاہتی ہے؟

سنو یہ دل کوئی لاجک نہیں مانتا کہ ہر ایک کے آنے جانے کا وقت متعین ہے۔ مجھے بس تم چاہیے ہو اور ہر وقت چاہیے ہو۔

کاش میں ان شہروں کی طرف ہجرت کر سکتی جہاں تمہارا بسیرا ہے لیکن گھر والے میری ایک نہیں سنتے۔ وہ مجھے یہیں اسی شہر میں رکھتے ہیں جہاں تم بس پل بھر کے لیے آتے ہو اگلے سال تک نہ آنے کے لیے۔

کافی کس کے ساتھ پیوں گی؟
ٹیرس میں واک کیسے ہوگی؟
پارک کے حبس سے کون بچائے گا؟
عبایہ اور نقاب کیا پھر سے پسینے سے تر ہو جائے گا؟
پسینہ!
اور اس لفظ پسینے کو تو مانو جیسے بھول چلی تھی
جو نہایا دھویا سب برابر کر دیتا ہے
سمندر کے ساتھ جو یہ شہر آباد ہے
اس کی ہوا بڑی گرم ہے
یہ جھلساتی ہے اور پسینے سے چڑاتی ہے
تمہاری یاد
اور بھی شدت سے آنے لگتی ہے

سنو پیارے جاڑے! مانا تم بنا بتائے ایسے اچانک جا چکے ہو لیکن میں اب بھی تمہاری یادوں کے حصار میں ہوں۔ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم اچانک آ کر مجھے محبت بھرا سرپرائز دو گے اور کہو گے کہ لہرا باجی ابھی ہوں کچھ دن تمہارے ساتھ اور خدا کے واسطے اپنا فرزین نامہ بند کردو۔

بس امید کے اس چراغ کے ساتھ تمہاری یادوں میں کھوئی ہوئی
فرزین لہرا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments