کون رخصت ہوا ماگھ میں؟ ہم سب کا امجد۔


باغ باغیچوں میں گیندے اور گلاب دونوں ہی کھلے پڑے تھے۔ شہر بھی میلوں ٹھیلوں سے سجنا شروع ہو گیا تھا۔ اور وہ جو جان تھا ان میلوں کی چپکے سے چل دیا۔ ارے اسے تو ان میں سے ہر ایک کا اہم حصہ بننا تھا۔

6فروری کو ثروت محی الدین کے گھر کھانا تھا۔ امجد اس میں شریک تھے۔ سب کا کہنا تھا کہ وہ بہت خاموش تھے۔ ایک آدھ جملے کے سوا انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ حالانکہ وہ تو بڑی بذلہ سنج شخصیت تھی۔ خاموشی کا ان سے کیا لین دین۔ کیا انہیں احساس تھا یا ان کی چھٹی حس انہیں بتا رہی تھی کہ وہ دنیا کے اس میلے سے اب رخصت ہونے والے ہیں۔

امجد چلے گئے۔ رات کے جانے کس پہر انہوں نے اپنے رب کو یہ کہا ہو گا۔ اے نورازل، اے حسن ابد، رہیں روشن تیرے شمس و قمر۔ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔

بیٹے علی نے عمرے پر جانے کی بات کی تو کچھ پس و پیش کا اظہار کیا۔ سعادت مند بیٹے نے کہا۔ ”نہیں پاپا میں آپ کو ویل چئیر پر عمرہ کرواؤں گا۔ بس چلنا ہے آپ نے۔“ عمرے سے واپسی پر زکام، کھانسی کا ہونا معمولی بات ہے۔ دوائیاں دونوں میاں بیوی نے کھائیں۔ رات دو بجے علی نے انہیں کف سیرپ دیا۔ وہ سو بھی گئے۔ مگر ساتھی کو پتہ بھی نہ چلا کہ نہ پانی مانگا، نہ کسی کو آواز دی۔

صبح سب کام معمول کے مطابق ہی تھے۔ پوتے اسکول گئے۔ دس بجے فردوس جاگی تو آواز دی کہ آپ ابھی تک سو رہے ہیں؟ جواب دینے والا بہت دور جا چکا تھا۔

اگر میں یاد کروں تو میری زندگی کے دو انتہائی اہم واقعات اس عظیم انسان کے احسان مند ہیں۔ پہلے واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

ہم کزنز بچپن ایک گھر میں گزارنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے خصوصی محبت رکھتی ہیں۔ عمرے پر مل کر جانے کا پروگرام بھی ہماری ایسی ہی محبتوں کا نتیجہ تھا۔ جب پروگرام بنا وہ جی جان سے اس کی تیاریوں میں مصروف ہو گئیں۔ مجھے بھی مناسک عمرہ و حج پر مبنی ایک کتاب لادی۔

وہ طواف کی لمبی لمبی دعائیں بہتے پانی کی سی روانی کی طرح پڑھتی تھیں۔ میں نے بھی بہتری کوشش کی پر میرے بھس بھرے بھیجے میں کچھ سمایا ہی نہیں۔

زچ ہو کر کتاب میز پر رکھ دی اور شہاب نامہ میں درج قدرت اللہ شہاب کے اس واقعے کو مشعل راہ بنایا کہ جب فیلڈ مارشل ایوب خان عمرہ کے لئے جا رہے تھے۔ شہاب صاحب نے ان سے مخصوص دعاؤں کو یاد کرنے بابت پوچھا۔ انہوں نے جواباً کہا۔

”میں نے سوچ لیا ہے۔ مجھے خدا سے بس یہ کہنا ہے پروردگار میں تیرے حضور حاضر ہو گیا ہوں۔ جیسا بھی ہوں۔ قبول کر۔“

بس تو یہی کلیہ بہترین ہے۔ سوچا بات تو صرف منظوری کی ہے۔ نظر عنایت اور مہربانی کی۔
بس تو میں سارے جھنجھٹوں سے آزاد ہو گئی تھی۔

مگر ہوا کیا کہ طواف میں جب میری بہنوں نے لمبی لمبی دعائیں پڑھنی شروع کیں۔ مجھے محسوس ہوا میں تو خالی ہوں۔ نہ کوئی جذب کی کیفیت، نہ کوئی تلاطم بھرے جذبات، سوکھی بنجر زمین کی طرح سڑتی بلتی چند چکر کاٹنے کے بعد باہر نکل آئی۔ دل گرفتہ سی سیدھی جاکر برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ کالے کوٹھے کو تکتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی۔ ”میں خالی کیوں ہوں؟ میری آنکھیں گیلی کیوں نہیں؟ اتنا پینڈا مارکر میں کس لیے آئی ہوں؟ صبح سے ظہر تک کا وقت بیت گیا۔ نماز بھی پڑھی ہے مگر تہی دامن ہی ہوں۔ سامنے گھر کو تکتی ہوں مگر کوئی تحریک کیوں نہیں ہو رہی ہے؟“

پتہ نہیں پھر کیا ہوا؟ جیسے برق سی کوند جائے والا معاملہ ہی تھا۔ کبھی کی پڑھی ہوئی امجد اسلام امجد کی یہ نظم جو کہیں خواتین ڈائجسٹ میں چھپی نظروں سے گزری تھی اور جو اتنی اچھی لگی تھی کہ بہت بار پڑھنے کے بعد زبانی یاد ہو گئی تھی۔ ذہن کے کینوس پر ابھری۔

اے رب ملائک جن و بشر میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں
خدمت میں تیری شرمندہ نظر میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں
جو تیری ثنا کے لائق ہو، اک لفظ بھی ایسا پاس نہیں
کیا تاب سخن، کیا عرض ہنر، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں
قطرے کی نگاہ حیران پر، دریا کی حقیقت کیسے کھلے
میں جانتی ہوں یہ بات مگر میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں
میرے چار طرف ہیں دروازے میرا سرمایہ کچھ اندازے
مجھ بے خبر کو بخش خبر میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں
یہ ارض و سما کی پہنائی یہ میری ادھوری بینائی
ہے شوق سفر ہی زاد سفر میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں
میرے کان تیری آہٹ سے بجیں میرے سانس تیری خوشبو میں بسیں
میری آنکھیں اپنے خواب سے بھر میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں
اے نور ازل، اے حسن ابد سبحان االلہ، سبحان اللہ
رہیں روشن تیرے شمس و قمر میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں

آنسو یوں نکلے جیسے بنجر زمین سے چشمہ پھوٹ پڑے۔ چھلانگ مار کر اسے پڑھتے ہوئے میں طواف میں شامل ہو گئی تھی۔

اپنی ایک ملاقات میں جب میں نے انہیں اپنے اس تجربے بابت بتایا تو انہوں نے جس عاجزانہ انداز میں سر جھکایا وہ یہ بتا رہا تھا کہ وہ اپنے رب کے سامنے شکرگزاری کی کیفیت سے سرشار ہیں۔

دوسرا واقعہ مصری سفارت خانے میں میرے سفر نامے ”مصر میرا خواب“ کی رونمائی کا تھا۔ جب میں نے ان سے تقریب کی صدارت اور ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ بغیر کسی نخرے کے انہوں نے فوراً حامی بھری اور اسلام آباد کا سفر میرے ساتھ کیا۔

ہم چار دوستوں نیلم احمد بشیر، سیما پیروز، رخشندہ نوید کے ساتھ یہ سفر بہت پرلطف گزرا۔ صاحب کردار انسان جس کی آنکھ اور جس کا دل رشتوں کے تقدس کا احترام کرنا جانتا تھا۔

جانا تو سب کو ہے۔ مگر جانے والا اگر اپنے پیچھے محبتیں، انسان دوستی کے تحفے اور علم و ادب کے خزینے چھوڑ جائے تو اس کا بہت بڑا احسان ہے۔ امجد اسلام امجد بھی ایسی ہی شخصیت تھے۔

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments