آخری سواریاں۔ ایک مطالعہ


سید محمد اشرف اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ڈار سے بچھڑے (1994) اور باد صبا کا انتظار (2002) جب کہ دو ناول نمبردار کا نیلا (1999) اور آخری سواریاں (2016) شائع ہوچکے ہیں۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے سید محمد اشرف کے افسانوں کے متعلق قرۃ العین حیدر نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا تھا کہ جب بھی اس نئی دنیا کی پنج تنتر لکھی جائے گی، سید محمد اشرف کی چند کہانیاں اس میں ضرور جگہ پائیں گی۔

زیر تبصرہ ناول سٹی بک پریس کراچی سے 2016 میں چھپا۔ 187 صفحات کے اس ناول میں مصنف نے گہرے تہذیبی موضوع کو پیش کیا ہے۔ ناول راوی کے بچپن کے خوشگوار لمحوں کی یادداشتوں، چند تاریخی حقائق اور ایک سفرنامے پر مشتمل ہے۔ انہی تاریخی واقعات اور حقائق کی روشنی میں ہمیں ہمارے شاندار ماضی جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور پھر ماضی سے جوڑتے ہوئے عصر حاضر میں ہماری سیاسی، سماجی، معاشی، ادبی، لسانی، تہذیبی، ثقافتی صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے اور مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کا عکس ماضی کے آئینے میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔

بغور دیکھا جائے تو یہ ناول ایک ایسا نگار خانہ محسوس ہوتا ہے جس میں آویزاں یہ مختلف تصاویر مل کر ہمارے ماضی کی نقش گری کرتی ہیں۔ انہی تصاویر کے آئینے میں ہمیں اپنا حال بھی دکھائی دیتا ہے اور ایک احساس زیاں کا احساس ہوتا ہے۔ ناول کو اگرچہ بیانیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے لیکن اس میں تاریخی شعور کے ساتھ ساتھ علامتی پہلو بھی در آ یا ہے اس کا عنوان آخری سواریاں بہت معنی خیز ہے۔ یہ آخری سواریاں مشترکہ گنگا جمنی تہذیب اور اس کے مظاہر بھی ہیں جس کی بہت خوبصورت جھلکیاں ناول میں نظر آتی ہیں مثال کے طور پر

نانی امی کے گھر اور پنڈت ماما کے مکان کی دیوار مشترک تھی۔ دیوار کے دونوں طرف دونوں گھروں کے صحن تھے اور دیوار کے نیچے وہ ساجھے کا کنواں تھا جو آدھے چاند کی شکل میں دونوں صحنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ (ص13)

جس دن ہم رخصت ہوئے پڑوس کی گوری مامی شاردا اور گومتی کو لے کر آئیں۔ بہت دیر تک اماں سے دیدی دیدی کہہ کر باتیں کرتی رہیں۔ وہ میرے لئے شکر کے رنگین کھلونے بھی لائیں تھیں کہ یہ دیدی کے سسرال میں نہیں ملتے۔ یہاں صرف دیوالی پر بنتے ہیں لیکن ہم نے خاص طور پر راکچھسس کے لئے بنوائے ہیں۔ (ص23)

اس تہذیب کی خوبصورتی، رواداری اور احترام باہمی کی یہ قدریں تھیں جن کی بنا پر ذات پات، مذہب و ملت اور رنگ و نسل کے امتیاز سے پرے ایک پرامن معاشرہ قائم تھا جہاں لوگ وسیع القلب اور وسیع المشرب تھے جو ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل ہونا انسانیت کا بنیادی تقاضا سمجھتے۔ شادی بیاہ کی رسمیں، بچپنے کا معصومیت بھرا لگاؤ، نماز استسقا کے لئے سب کا اکٹھا ہونا، جنم اشٹمی کا میلہ، پہلوانوں کے دنگل، کشتی کا مقابلہ اور اس مقابلے کی آمدنی سے غریب لڑکیوں کی شادی کا انتظام کرنا، اس میلہ کی مذہبی رسوم کے بقا کے لیے مسلمانوں کا فکر مند ہونا اور بارش کے لیے نماز استسقا قائم کرنا جیسے واقعات ہمارے گنگ و جمنی تہذیب و ثقافت اور مشترکہ کلچر کی بہترین مثالیں ہیں جو پہلے آہستہ آہستہ اور اب بڑی تیزی سے آخری سواریوں پر سوار ہو کر ہم سے رخصت ہو رہے ہیں۔

آخری سواریاں بہادر شاہ ظفر اور ان کے اہل خانہ کی گرفتاری اور سزا کے بعد رنگون رخصتی والی بھی ہیں جنہیں راوی کے پر دادا نے چھپ کر دیکھا اور اس کا احوال اپنے روزنامچے میں درج کیا۔ فرنگی گھڑسوار اور پیدل فوجی دستے کے بعد گزرنے والی سواری آخری تیموری حکمران کی تھی۔ ان کے پیچھے۔ اف۔ ان کے پیچھے ایک بیل گاڑی نما سواری تھی۔ دو بیل جتے تھے اور ایک بڑے سے چوبی تخت میں لکڑی کے پہیے لگے تھے جسے وہ کھینچ رہے تھے۔ اس تخت پر ایک بوڑھا شخص، لمبوتری سفید دڑھی، ملگجا انگرکھا نما جامہ پہنے، سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اس کے سر پر تاج نہیں ایک مسلی ہوئی میلی کلاہ تھی۔ (ص144) کتنا المناک منظر ہے

اس طرح ہندوستان میں صدیوں سے قائم اس سلطنت کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا جس کی بنیاد بہادر شاہ ظفر کے اباؤ اجداد نے رکھی تھی اور مسلمانوں کے جاہ و جلال کے دن بھی تمام ہوئے۔ غلامی کی تاریک رات طویل عرصے کے لئے مسلط ہو گئی۔ مصنف نے صرف ان تاریخی واقعات کو پیش نہیں کیا بلکہ ان کے پیچھے کارفرما عوامل کی کھوج لگانے کی سعی بھی کی ہے۔ مثال کے طور پر جہاں ناول کے آخری حصے میں احوال سفر سمرقند میں امیر تیمور کی روح سے تخیلاتی طور پر ملاقات کا احوال بیان کیا ہے امیر کی فتوحات سفاکی اور دیگر امور پر بات کی ہے وہیں یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس کی زندگی سادگی اور جہد مسلسل کا نمونہ تھی لیکن آخری مغل حکمرانوں کی زندگی عیش کوشی سے عبارت تھی جبکہ اقبال نے کہا ہے

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاوس و رباب آخر

اپنے وقت میں مغل سلطنت سب سے موثر سلطنت تھی۔ گنگا جمنی تہذیب کی ماں۔ اس تہذیب نے برسوں اس سلطنت کی چھاتیوں سے لگ کر دودھ پیا۔ کیسے کیسے لباس ایجاد ہوئے، کیسے کیسے کھانے، کیسے کیسے مشروب۔ کیسا قوس قزح جیسا ادب اور کیسی شیریں، معنی آفریں ص، سجل اور طاقت ور زبان اور موسیقی اور مروت اور وضع داریاں۔ (ص175)

یہاں محض اس سلطنت کا انہدام نہیں ہوا وہ تہذیب بھی بے آسرا ہو گئی جسے اس سلطنت نے پروان چڑھایا تھا۔ اس تہذیب کی مظہر وہ سجل اور توانا زبان بھی فنا کے خطرے سے دوچار ہے۔ صرف اردو ہی نہیں اس تہذیب کے دیگر مظاہر بھی عالمگریت کے اس دور میں تیزی آنکھوں سے اوجھل ہو رہے ہیں۔ آخری سواریوں کا منظر ذرا ملاحظہ ہو

سواریاں بہت تیزی سے گزر رہی ہیں۔ ایک ایک چیز نہ مجھے نظر آ رہی ہیں نہ میں بیان کر پاؤں گا۔ آپ بھی تو کوشش کریں۔ دیکھیے! وہ دیکھیے سامنے والی سواری میں ٹوٹی ہوئی محرابیں اور کنگورے لدے ہیں۔ ان کے پیچھے والی سواری میں کٹاؤ دار در اور نقشین دریچے ہیں۔ منار اور گنبدوں کی سواری پیچھے آ رہی ہے۔ اور یہ جو سامنے سے سواری گزر رہی ہے، اس میں سنگھار دان، سرمہ دانی، خاص دان، پان دان اور عطر دانوں کا انبار ہے۔

اس کے ٹھیک پیچھے والی سواری میں عماموں، کلف دار ٹوپیوں، خرقوں، جبوں اور عباؤں کے گٹھر لدے ہیں۔ ان کے پیچھے طوطوں اور میناؤں کے پنجروں کی سواریاں ہیں۔ وہ جو ایک سجی ہوئی سواری ہے اس میں عطر کی شیشیاں بھری ہوئی ہیں۔ اس کے پیچھے جو سواری ہے اس میں منھ سے پھونکنے والے اور ہاتھ سے بجانے والے موسیقی کے آلات ہیں۔ اور۔ اف! دیکھو یہ جو بالکل ہمارے پاس سے سواری گزری، اس میں مثنویوں، قصیدوں، مرثیوں، رباعیوں، بارہ ماسوں، قصوں، کتھاؤں اور داستانوں کے دفتر کے دفتر کتنے پھوہڑ انداز میں لاد رکھے ہیں۔ خطاطی کے بیش قیمت نمونے قدم قدم پر زمیں پہ گرتے جا رہے ہیں۔ ” (ص182)

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سے موجودہ عہد تک مغربی تہذیب و ثقافت ہماری زندگی کے ہر شعبے کو جس طرح متاثر کر رہی ہے۔ اور جس طرح ہماری بنیادی اقدار اور ثقافت کو روندتی جا رہی ہے۔ اور مغرب جتنی تیزی سے اپنی زبان و ثقافت اور تہذیب و تمدن کے ذریعہ ہم پر مسلط ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے نتائج کی صورت میں آج ہماری ادبی، لسانی، ثقافتی اور تہذیبی قدریں زوال پذیر ہیں اور کبھی نہ لوٹ کر آنے والی سواریوں پر سوار ہو کر ہماری نظروں کے سامنے سے رخصت ہو رہی ہیں۔

اس نازک صورت حال پر ناول نگار اپنے کرب اور بے چینی کا اظہار اپنی ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کی صورت میں اس قدر فنکارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں کہ قاری بلکہ کوئی بھی ذی شعور انسان اپنے آپ کو اس سے الگ نہیں سمجھ سکتا ہے۔ سید محمد اشرف کے ہاں صرف ماضی پرستی نہیں ہے بلکہ وہ ماضی کی تاریخ کے ذریعے حال کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ”آخری سواریاں“ اگرچہ گنگا جمنی ہندو مسلم تہذیب کے گم ہوتے جانے کا استعارہ ہے مگر اس میں انسان کے وجودی نہاں خانوں پر جو ایک ناقابل یقین قسم کی روشنی پڑتی ہے۔ ایک بڑے ناول کی یہ خوبی بقول میلان کنڈیرا ناول اگر انسان کی پوشیدہ وجودی جہات کی دریافت نہیں کرتا تو اسے نہیں لکھا جانا چاہیے

بہرحال آخری سواریاں ایک عمدہ ناول ہے جس کا عمدہ اسلوب قاری کو اول تا آخر اپنے سحر میں جکڑے رکھتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments