صحافی اور کلاس سٹینڈ


بچپن میں سکول میں میرے جیسے بچوں کے لئے مشقت طلب کاموں میں سے ایک کام استاد صاحب کی آمد پر کلاس کے مانیٹر (آج کی زبان میں سی آر) کی جانب سے لگائے جانے والی آواز ”کلاس سٹینڈ“ پر کھڑا ہونا ہوتا تھا۔ اساتذہ کے عزت و احترام کے طور پر کی جانے والی یہ پریکٹس دراصل کئی بچوں کے لئے سستی اور تکان والا عمل ہوتا تھا۔ یوں کئی بچے یا تو جلدی کھڑے ہو جاتے اور بیچ میں میرے جیسے کئی یا تو تاخیر سے کھڑے ہوتے یا پھر ٹیڑھے میڑھے ہو کر کھڑے ہوتے تھے۔

اکثر تو یوں ہوتا تھا کہ اس عمل کو شغل کے طور پر لے کر سات آٹھ لڑکے ساری کلاس کے یا تو بیٹھنے کے بعد بھی کھڑے رہتے تھے یا پھر ساری کلاس کے کھڑے ہونے کے باوجود بیٹھے رہتے تھے۔ یا پھر یہ ہوتا تھا کہ کسی ایک نے مذاق میں اچانک سے کلاس سٹینڈ کی آواز لگا دینی ہوتی تھی اور پوری کلاس کھڑی ہوجاتی تھی، مگر جب استاد صاحب آتے تھے تو پچھلی فیک کال کے ستائے کھڑے ہی نہیں ہوتے تھے۔

قارئین کرام بچپن کی ان معصوم شرارتوں اور نافرمانیوں کا بڑے ہو کر خمیازہ بھگتنے کا تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ مگر پچھلے دنوں کچھ یوں ہوا کہ ایک افسر تشریف لائے اور ساتھ کولیگز بلاتفریق عہدہ، عمر ایک ہی وقت میں ”کلاس سٹینڈ“ ہو گئے۔ یقین مانیں بچپن کے سکول والے کلاس سٹینڈ کے متضاد یہ والے کلاس سٹینڈ میں نہ صرف چستی تھی بلکہ تیزی اور ہم آہنگی تھی۔ آسان اور آج کل کی زبان میں بتایا جائے تو یوں لگتا تھا کہ کلاس سٹینڈ کی کوریو گرافی کی گئی ہے۔

اب اس اچانک والے عمل کو ہضم نہ کر پاتے ہوئے حیرانی و پریشانی میں دوسروں کی دیکھا دیکھی کلاس سٹینڈ تو ہو گیا مگر ساتھ ہی دل میں یہ سوچ آئی پانچ سو کلومیٹر دور رہنے والے اہلخانہ اور دوست کیسے فخر سے کہتے ہیں کہ ’ساڈا منڈا صحافی لگیا اے ”وہ اگر دیکھ لیں کہ یہاں کلاس سٹینڈیاں ہو رہی ہیں تو سارا بھرم ٹوٹ جانا ہے۔

ویسے عام قارئین کو تو یہ لگتا ہے کہ صحافی کوئی توپ چیز ہوتے ہیں اور ان سے ابلیس سمیت تمام ادارے والے ڈرتے ہیں اور خوف کھاتے ہیں تو اس عمل سے پہلے میں بھی اپنے آپ کو توپ چیز ہی سمجھتا تھا کہ جس نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ایک ادارے میں رہتے ہوئے اس ادارے کے نام سمیت کالم لکھ مارا، نہ صرف کالم لکھا بلکہ شائع شدہ کالم جاکر مالکان میں سے کسی کو وٹس کر کے جاکر بتایا بھی کہ یہ کارنامہ سرانجام دے چکا۔ مگر یہ اس ادارے اور اس کے مالکان کا بڑا پن ہے کہ میری اس گستاخی پر کوئی تادیبی کارروائی یا جسے کہتے انتقامی عمل کا آغاز نہیں کیا گیا۔ اس عمل کے بعد اگلا کالم میں نے میڈیا، نیوز رومز کے حالات، افسران کے رویوں پر بھی لکھ مارا اور شومئی قسمت کہ اس پر بھی جاں بچ گئی اور کسی نے پوچھ تاچھ یا گلہ شکوہ نہیں کیا، سوائے چند ایک اختلافی آوازوں کے (اب پتہ نہیں اس تحریر کے بعد کیا ہوتا ہے )

بہرحال اس ”کلاس سٹینڈی“ کے عمل سے پہلے پہل تو میں دلبرداشتہ ہوا مگر وہ کہتے ہیں کہ روزگار کے لئے تو کچھ بھی کرنا پڑتا ہے اور ایسے روزگار کہ جس میں وقت پر مزدوری بھی مل جائے تو ایسی روزی روٹی کے لئے کلاس سٹینڈی بھی کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہوتی ہے۔ اب اس ڈر کے مارے کہ کہیں اس کلاس سٹینڈی کے عمل کے بارے میں کسی سے پوچھنے پر اس امر کو بغاوت نہ تصور کیا جائے تو دفتر میں کسی سے پوچھنے کی ہمت ہی نہیں کی۔ اب تو بس روبوٹ کی طرح دروازہ کے قریب کسی بھی بھاری قدم کی چاپ پر پورا جسم ہی کلاس سٹینڈ ہوجاتا ہے۔

قارئین کرام جیسا کہ ہماری عدالتیں ادارے حتی کہ مقننہ بھی کئی معاملات پر روایات کی پیروی کرتے ہوئے کچھ اعمال یا افعال پر عمل کرتے آرہے ہیں تو شاید یہ عمل بھی اسی ہی کسی روایت کا حصہ ہو کیونکہ کوئی بھی افسر تو یہ نہ چاہے گا نہ کہے گا۔ یا پھر جیسے بھیڑوں، بکریوں میں جو اتحاد، نظم پایا جاتا ہے اسی نظم کو اپناتے ہوئے ہمارے ہاں بھی کسی ایک فرد کے عمل کی دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی اسی عمل کو سرانجام دیتے ہوں گے (پہلی دفعہ کے بعد میں تو بہرحال اس نیک عمل کی تقلید کرتا ہوں ) سکول جاتے ہوئے بچوں کو اس نصیحت کے ساتھ کہ اپنے اساتذہ اور والدین کی نافرمانی نہ کریں ورنہ ہماری طرح آپ کو بڑے ہو کر اس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے تحریر کا اختتام کر رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments