طاقت میں ”لاشریک“ کہلائے جانے کا کھیل اور بھوک سے مرتے عوام


جب پرائمری لیول کے اسٹوڈنٹ تھے تو اس وقت اسلامیات کی کتاب میں پڑھا کرتے تھے کہ
”خدا ازل سے ایک ہی ہے اگر کئی خدا ہوتے تو کائنات کا نظام انتشار کی نذر ہو جاتا، کیونکہ ہر خدا اپنی مرضی چاہتا، ایک سورج کو مشرق سے نکالنا چاہتا تو دوسرا مغرب سے نکالنے کی تمنا کرتا، اس طرح سے کائنات کا نظام نہ چل پاتا“

اس وقت تو خیر چھوٹے تھے یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں جو استاد بتا دیا کرتے تھے ازبر کرلیتے تھے مگر اگر اس تمثیل کو آج کے ملکی منظرنامہ کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں تو بہت کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے، وطن عزیز کی زبوں حالی میں طاقت کی چھینا چھپٹی کا بہت زیادہ کردار رہا ہے اور اس لڑائی کا اختتام ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہا ہے بلکہ حصے دار بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ مافیاز سے کارٹیلز کی طرف بڑھتا ہوا یہ سفر ناخداؤں کا تو کچھ بھی بیکا نہیں کر پائے گا مگر تل تل مرتی عوام کا کچھ نہیں بچے گا جن کی رگوں میں سے تھوڑا تھوڑا خون نچوڑ کے یہ سب ڈان بن جاتے ہیں۔

منظم قسم کی منصوبہ بندی کے تحت ہر اس ”یونین“ کا خاتمہ کیا گیا جس میں عوام کو یکجا ہو کر ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملتا تھا، مکالمہ یا لیڈر شپ کی آماجگاہ کالج و یونیورسٹی میں طلباء تنظیموں کا قلع قمع کیا گیا۔ مکالمہ و ڈائیلاگ کے کلچر کا قتل عام کر کے ”یکسانیت یا مخصوص ذہنیت“ کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی اور بقول وجاہت مسعود نوجوانوں کو ذہنی طور پر یرغمال بنانے کے بعد ان کے ذہنوں میں مخصوص قسم کے ”نو گو ایریاز“ قائم کیے گئے اور ان کے دھانوں پر کرائے کے دانشور بٹھائے گئے جو ایک عرصہ تک مخصوص مواد ان ایریاز میں فیڈ کرتے رہے جس کا نتیجہ ہم آج انارکی یا فسطائیت کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

اور یہ مخصوص قسم کے جذباتی چوہے دوسرا کچھ بھی سننا نہیں چاہتے، جس بندوبست کو ”انتہائی نگہداشت“ میں رکھنے کے بعد عوام کے سامنے انتہائی ناگزیر بنا کر پیش کیا گیا تھا وہ اب اژدہا بن چکا ہے اور یہ بے قابو اژدہا اپنی پھنکار کا زہر انہی مراکز کی طرف پھینک رہا ہے جو اسے اوتار کے روپ میں سامنے لائے تھے۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ پہلے والوں پر تو کسی نہ کسی طرح سے قابو پا لیا گیا تھا مگر انتہائی نگہداشت والا بے قابو ہو چکا ہے اور ابھی تک زیر کرنے کے تمام کلیے، حربے یا تریاق ناکام ثابت ہوئے ہیں، ظاہر ہے اناؤں کی مرہم پٹی کے لئے ایک پوری کی پوری سوشل میڈیا ایمپائر کھڑی کی گئی، جذباتی مبلغیں جن میں ہر طبقہ کے وہ افراد شامل تھے جو جذباتی ایندھن کو یکجا کرنا جانتے تھے کے ذریعے سے ایک منفرد شاہکار کو لانچ کیا گیا۔

اب مثالی ایمیج بلڈنگ کا کچھ تو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اس سے آگے کیا ہے؟ کیا یہ تجربات یونہی چلتے رہیں گے؟ یا ان سے کوئی سبق بھی سیکھا جائے گا؟ یاد رکھیں کہ عوامی رائے کے اوپر کوئی بھی جبر مسلط کرنے کا نتیجہ کل بھی یہی نکلے گا، شعور کو جبر کے پنجرے میں وقتی طور پر قید تو ضرور کیا جا سکتا ہے مگر ختم نہیں، آج کا سعودی عرب اور ایران ہمارے سامنے ہے جہاں کسی کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں تھی مگر شعور کے آگے بے بس نظر آرہے ہیں۔

ایران میں مہسا امینی کی دردناک موت کے نتیجہ میں حجاب اتارو مہم کا آغاز اور سعودی عرب میں شہزادہ سلمان کا ویژن 2030 اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شعور آزاد فضا کا پرندہ ہوتا ہے جسے زیرعتاب تو ضرور لایا جا سکتا ہے مگر مستقل قیدی نہیں بنایا جا سکتا۔ اب بھی وقت ہے ذرا ٹھہر کے سوچ لیا جائے اور عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے عوامی اکھاڑے یعنی پارلیمنٹ کو سپیریئر تسلیم کر لیا جائے اور اس کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی اناؤں کا قلع قمع کر دینے میں ہی ملک و قوم کی سلامتی اور بقا ہے۔

جب تک طاقت کا مرکز عوام اور انہی کے منتخب کردہ نمائندے کو جسے وزیراعظم کہا جاتا ہے نہیں سمجھا جائے گا تو یہی کچھ ہوتا رہے گا جو آج ہو رہا ہے۔ اتنے سارے زمینی خداؤں کے جھگڑوں میں ملک کہیں بہت پیچھے رہ جائے گا ویسے رہ بھی گیا ہے شاید آپ کو ادراک نہیں ہے۔ اناؤں کے اس کھیل میں عوام کا چولہا بجھ چکا ہے، بہت سے والدین سکول، کالج اور یونیورسٹی کی فیس افورڈ نہ کر سکنے کی وجہ سے اپنے بچوں کی تعلیم سے ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی بھی ملکی اشرافیہ کو بچانے کے لئے ظالمانہ ٹیکسوں کی صورت میں غریب عوام کو مزید نچوڑنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں اور خداوندان نظام اس وجہ سے سینگ پھنسائے ہوئے ہیں کہ کون بنے گا بلا شرکت غیرے طاقتور؟ البتہ زمان پارک میں بیٹھا ستر سالہ نوجوان بڑے مزے سے طاقتوروں کا منہ چڑا رہا ہے اور روز کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑ کے پورے ملک کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments