امی ابو کی بولی یا زبان


آج میں مادری زبانوں کی تاریخ پر بات نہیں کروں گا، آج میں مادری زبانوں کی دستاویزاتی بحث کا سہارا نہیں لوں گا، آج میں کسی جلسے جلوس کا ذکر نہیں کروں گا، آج میں کسی گولیوں کے چلنے کی بات کو نہیں دہراؤں گا، آج میں گزشتہ قربانیوں کا لفاظی خراج تحسین کا حصہ بقدر جثہ نہیں بنوں گا۔ آج میں صرف اور صرف مادری زبان کی تعریف توصیف اور اس کی مہا اہمیت اور قدر و منزلت پر تکرار در تکرار کا حصہ بقدر جثہ ضرور بنوں گا تاکہ اس سے یہ ثابت کرنے کی سعی کر سکوں کہ میں تاریخی حوالے سے مادری زبانوں، جلسے جلوسوں کے ذکر و اذکار، قربانی دینے والوں کی اور گولیاں کھانے والوں کا کتنا قدر داں ہوں کہ آج اس یادگار دن پر کچھ کہنے کے لائق بن چکا ہوں۔

مادری زبان جسے ہم حرف عام میں ماں بولی کہتے ہیں یہ کسی شخص کے چہیتوں، ہیروز، اکابرین، مشاہیر، اساتذہ، یاروں، دوستوں، ہمجولیوں اور بہن بھائیوں کی زبان ہوتی ہے۔

مثلاً میرا تعلق پشتو ادب سے ہے اور پشتو ادب میں خوشحال خان خٹک سے بڑا ادیب اور شاعر نہ آیا ہے اور نہ آئے گا اور وہ میری آئیڈیل شخصیت ہے تو میں پشتو زبان پر کیوں فخر نہیں کروں گا جو خوشحال خان خٹک جیسے نابغہ روزگار شخص نے بولی اور لکھی ہے اور جو یہ دعویٰ بھی کرتے ہوں کہ

نہ اول پکے سہ خط وہ نہ کتاب وہ
دادے ما پکے تصنیف کڑل سو کتابھ
نہ تو پہلے اس میں کوئی خط تھا اور نہ کتاب
یہ میں ہوں کہ جس نے اس میں کتابیں تصنیف کی ہیں۔

پھر کہتے ہیں کہ
کہ نظم کہ د نثر کی د خط دے
پہ پشتو جبہ مے حق دے بے حسابہ
وہ نظم ہو نثر ہو یا خط ہو
پشتو زبان پر میرا بے حساب حق ہے

جنہوں نے پشتو زبان میں شاعری کی ہو، جنہوں نے پشتو زبان میں دستار نامہ جیسی رموز حکومت اور سلطنت پر کتاب لکھی ہوں، جنھوں نے پشتو زبان میں آج سے پانچ سو سال پہلے زنجیری کے نام سے شارٹ ہینڈ ایجاد کی ہوں۔ جنھوں نے حکمت کی زبان کو شاعری کی زبان دی ہو، جنھوں نے باز نامہ میں باز اور شکار کے گر شاعری میں بیان کیے ہوں، جنہوں نے حسینہ عالم کے انتخاب کا وتیرہ شاعری میں بیان کیا ہو، جنھوں نے پشتو ادب کو جدید نظم دی ہو، جدید غزل کو مقامی رنگ دیا ہو، جنھوں نے پشتو کا پہلا سفر نامہ منظوم لکھا ہو، جنھوں نے اپنے دور کی تاریخ منظوم مرتب کی ہو، جنھوں نے اپنا شجرہ منظوم منظر عام پر لایا ہو۔

جنھوں نے پشتوں محل وقوع اور جغرافیہ کا نقشہ پہلی بار منظوم کھینچا ہو۔ جنھوں نے پہلی بار اپنے اشعار میں پشتو ہندی کے ملاپ سے اشعار کہے ہوں، جنھوں نے جنگ اور امن کے زمانوں کی تخصیص بہ زبان شعر لوگوں تک پہنچائی ہوں۔ جنہوں نے رباعیات اور قطعات کے ادبی سلیقے سکھائے ہوں، جنہوں نے نوحے اور مرثیے پشتو ادب کو ودیت کیے ہوں، جنہوں نے فقہ کو فضل نامہ کی صورت میں منظوم کیا ہو۔ جنہوں نے بچوں کی پرورش کے سلیقے منظوم بیان کیے ہوں، جنہوں پہلی بار جنس کو منظوم موضوع بحث بنایا ہو۔

جنہوں نے صنف نازک کے بزبان پہلی بار شاعری میں تجربہ کیا ہو۔ جنہوں نے پہلی بار ابجد کو شاعری کا موضوع بنایا ہو۔ جنہوں نے علاج بذریعہ جڑی بوٹی منظوم بتایا ہو۔ جنہوں نے عقل مند اور بے وقوف انسان کی پہچان کے طریقے بتائے ہوں۔ جنہوں نے صحت کے اصول نظم کیے ہوں۔ جنہوں نے اپنی اولاد کی تعریف بھی کی ہو اور دھتکارا بھی ہو، جو اتنا صاف گو ہو کہ خود کو بھی معاف نہ کیا ہو بھلا ایسی شخصیت جب پشتو زبان کو مادری زبان کی حیثیت سے اپناتی ہو تو میرے جیسے ان پر مر مٹنے والا اور فدا شخص بھلا کیسے پشتو زبان سے روگردانی کر سکتا ہے۔

میرے اس تمام بحث سے ہر گز یہ مطلب نہیں کہ خدا نخواستہ میں دیگر زبانوں سے جیلس ہوں یا ان زبانوں کی قدر نہیں کرتا سب مادری زبانیں میرے لئے اتنی ہی پیاری ہیں جتنا کہ اپنی مادری زبان لیکن بقول شاعر

اول خپلہ جبہ پستہ نوری جبے
بے بنیادی عمارت خو سمون نہ کہ
پہلے اپنی زبان بعد میں دوسری زبانیں
بے بنیاد تو عمارت بھی کھڑی نہیں ہو سکتی

یا یہ کہ
بلہ جبہ زدہ کول کہ لوئے کمال دے
خپلہ جبہ ہیرول بے جمالی دا
دوسری زبان سیکھنا اگر کمال کی بات ہے
تو اپنی زبان کو بھولنا بے کمالی ہے۔

اب رحمان بابا کی طرف آتے ہیں جنھوں نے نہ صرف پشتو بولی ہو بلکہ پالی بھی ہو۔ اپنی زمین اور وطن کو شاعری کا موضوع بنایا ہو۔ لوگوں کے دلوں میں بس رہے ہوں۔

پیر روشان جیسے اپنے وقت کے روشن فکر لوگ اس میں نثر کی ابتدا کر رہے ہوں۔ حاجی ترنگزو اور خوشحال کاکا جیسی شخصیات اس زبان کے باسی ہوں۔ باچا خان نے اس زبان کو نہ صرف بولا ہو بلکہ اس زبان کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہو۔ کاکا جی صنوبر حسین اس زبان کے شاعر ادیب اور سیاسی مبارز ہوں۔ قلندر مومند، عقاب خٹک، حمزہ شنواری، دوست محمد کامل، سمندر خان سمندر، تقویم الحق کاکا خیل، غنی خان، اجمل خٹک، سیف الرحمان سلیم، شمس القمر اندیش سعید گوہر درویش درانی اور سائل جیسی شخصیات اس زبان کے شاعر اور ادیب رہے ہوں۔

خواتین میں الف جانہ خٹکہ، س ب ب سیدہ بشری بیگم، زیتون بانو، پروین ملال جیسی۔ لکھاری رہے ہوں۔

سیاست معیشت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں پشتو بولنے اور لکھنے والے موجود ہوں اور اپنے مخصوص لہجے سے نہ صرف خود کو بلکہ اپنی زبان کو بھی زندہ و تابندہ رکھا ہوا ہو تو پھر ایسی کون سی قباحت رکاوٹ یا دشواری ہے کہ مجھ جیسے طفل مکتب پشتو زبان و ادب کو اپنے لکھنے اور بولنے کا میڈیم بنانے سے کتراتے ہوں گے۔ اور مزید یہ کہ جو زبان مجھے میری ماں نے لوری میں سنائی یو مجھے گھٹی میں دی ہو، میری ماں کی گود کی اولین مدرسے کی زبان ہو اور میرے ابو جان کی انگلی پکڑ پکڑ کر چلنے پھرنے اور زندگی میں آگے بڑھنے کی تسلیوں اور حوالہ دینے کی زبان ہو، جس سے میری نسل کی پہچان ہے تو پھر کیوں نہ میں اس پر فخر یا افتخار نہ کروں جس سے میری زیست اور میری نسل جڑی ہو، جس سے میری پہچان ہے اگر میں اس میں نہیں لکھتا تو آج مجھے کوئی بھی نہیں جانتا۔

اور آخر میں یہ کہتا ہوا چلوں کہ زبانیں سب پیاری ہوتی ہیں کیونکہ یہ ہر کسی کی امی ابو کی زبان ہوتی ہے، ان کے چہیتوں، مشاہیر اور اسلاف کی زبان ہوتی ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی والدین، چہیتوں، مشاہیر اور اسلاف کا احترام زبان کے ساتھ ساتھ دل سے بھی کرنا چاہیے تاکہ ہمارا ظاہر اور باطن کا تعلق یکساں ہوں اور اس میں کسی دوغلے پن یا سطحی سوچ اور اپروچ کا شائبہ نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments