دس لاکھ سال پہلے کی راکیل ویلچ


1968 کے ابتدائی مہینوں کا ذکر ہے ہمارے والد صاحب ہم سب بہن بھائیوں کو کراچی میں نمائش پذیر ہونے والی انگریزی فلم ”ون ملین ایرز بی سی“ (اس فلم کا اردو ترجمہ ”دس لاکھ سال پہلے“ تھا) دکھانے لے گئے۔ ہم نے زندگی میں پہلی دفعہ ایسی فلم دیکھی جس میں نہ صرف ڈائناساز دکھائے گئے تھے بلکہ انسانوں سے ان کی لڑائی بھی دکھائی گئی تھی۔ فلم کی ابتداء میں ایک کمنٹری سنائی گئی تھی جو کچھ یوں تھی۔ ”یہ ایک بہت طویل، بہت قدیم اس وقت کی کہانی ہے جب دنیا کی ابھی ابتداء ہوئی تھی۔

یہ دنیا کی صبح کا زمانہ تھا مشکلوں سے بھری ایک غیر دوستانہ دنیا۔ جہاں خطرناک مخلوقات اپنے شکار کے انتظار میں بیٹھی رہتی تھیں۔ انسان جسمانی طور پر ان مخلوقات کے مقابلے میں بے حد کمزور تھا لیکن عقل اور ذہانت کے اعتبار سے ان سے برتر تھا۔ اس دنیا کا قانون بہت ہی سادہ تھا کہ جو طاقت ور ہے ہو سب کچھ لے جاسکتا ہے۔“

ہمارے والد بچپن سے ہم کو انگریزی فلمیں ہی دکھاتے تھے اور کہتے تھے کہ اردو فلمیں بچوں کے لیے بے مقصد ہوتی ہیں اور ان کے کچے ذہنوں کو خراب کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ کیو نکہ ان میں عام طور پر ایک عشقیہ داستان ہی ہوتی ہے۔ میں نے جب یہ ”دس لاکھ سال پہلے“ دیکھی تو میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ فلم دیکھنے کے بعد میں نے اسکول کے دوستوں کو بتایا تو میرے کچھ دوست حیرت زدہ رہ گئے ”یار تمہارے پاپا عجیب ہیں ہمارے ابو تو کہہ رہے تھے کہ یہ بچوں کے دیکھنے کی فلم نہیں ہے“

یہ بات اس وقت میری سمجھ میں نہیں آئی پچھلے دنوں 15 فروری 2023 کو اس فلم کی ہیروئن راکیل ویلچ بیاسی سال کی عمر میں انتقال کر گئیں تو مجھے یہ فلم بھی یاد آ گئی اس کے مناظر بھی ذہن میں گھومنے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی کہ پرانے زمانے کے والدین انگریزی فلموں کو مجرب اخلاق کیوں سمجھتے تھے لیکن آج ٹیکنالوجی کی بے انتہا ترقی کے زمانے میں ہر چھوٹے بڑے کے ہاتھ میں سیل فون موجود ہے اور وہ پوری دنیا میں انٹر نیٹ پر گردش کرتا ہوا ہر قسم کا مواد خواہ وہ کسی زبان میں ہو نہ صرف مواد کی اوریجنل زبان میں اور اگر چاہے تو اپنی مادری زبان میں، چشم زدن میں ترجمہ کر کے صرف ایک کلک کی مدد سے دیکھ سکتا ہے۔ تو آج ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت اور ان کو پڑھائے جانے والے نصاب کی تر تیب ان خطوط پر کی جائے کہ ان کے ذہنوں کے پختہ ہونے کا عمل تیز تر ہو سکے۔

آج کا ہر بچہ ڈائیناسارز سے واقف ہے ہمارے بچپن میں ڈائیناسارز کا اتنا ذکر نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے دیو ہیکل ڈائینا سارز کو سینما اسکرین پر دیکھنا ایک انوکھا تجربہ تھا ٹیلی ویژن اس وقت تک پاکستان میں عام نہیں ہوا تھا۔ ہمارے گھر میں اس زمانے میں ہر طرح کے انگریزی، اردو اخبارات، رسالے، میگزین اور ڈائجسٹ آتے تھے جس میں مشہور زمانہ امریکی میگزین لائف ٹائمز، نیوز ویک اور ریڈرز ڈائجسٹ بھی شامل تھے۔ ہم ساتویں کلاس میں ہوتے ہوئے بھی ان رسالوں کی ورق گردانی کر لیتے تھے۔

اس فلم کی ریلیز کے بعد ان میں سے کچھ رسالوں میں سائنسی بنیادوں پر یہ تنقید ہونے لگی کہ فلم میں دس لاکھ سال پہلے کا زمانہ دکھایا گیا ہے جبکہ جیالوجک ٹائم اسکیل (Geologic Time Scale) کے مطابق آخری ڈائینا سار 66 لاکھ سال پہلے دنیا سے معدوم ہو گیا تھا اور انسان (Homo Sapiens) زمین پر 30 لاکھ سال پہلے تک موجود نہیں تھے۔ تو اس فلم کے پروڈیوسر نے بڑا دلچسپ جواب دیا کہ میں نے یہ فلم سائنسی تحقیقاتی اداروں اور پروفیسروں کے لیے نہیں بنائی اور مجھے یقین ہے کo پروفیسر حضرات اس قسم کی فلم نہیں دیکھتے۔ اس فلم میں راکیل ویلچ کے صرف تین ہی مکالمے تھے لیکن اس فلم کا پوسٹر جس میں راکیل ویلچ کی تصویر سب سے زیادہ نمایاں تھی اور اس نے ہرن کی کھال سے بنا ہوا انتہائی مختصر لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والا پوسٹر بن گیا اور راکیل ویلچ بین الاقوامی فلمی دنیا میں Sex Symbol کے طور پر متعارف ہو گئیں اور اس نے اپنا یہ اعزاز نصف صدی تک برقرار رکھا۔

اس نے اپنی زندگی میں 37 فلموں اور 36 ٹیلی ویژن پروگراموں میں کام کیا۔ اس کے علاوہ اسٹیج ڈراموں میں بھی کام کرتی رہی۔ 1975 میں راکیل ویلچ کو امریکہ کے سب سے قیمتی فلمی ایوارڈ ”گولڈن گلوب“ سے نوازا گیا۔ راکیل ویلچ 5 ستمبر 1940 کو امریکی شہر شکاگو میں پیدا ہوئی۔ اس کے والد جنوبی امریکہ کے ملک بولیویا سے ہجرت کر کے امریکہ آئے تھے اور ان کے آبا و اجداد ہسپانوی تھے۔ راکیل ویلچ کی ایک کزن 70 کی دہائی کے آخر میں بولیویا کی پہلی خاتون صدر منتخب ہو گئی تھی۔

راکیل ویلچ نے زندگی میں چار شادیاں کیں اور دو کتابیں بھی لکھیں۔ اس نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ”جب آپ اس خیال اور وسوسے سے نجات پا لیتے ہیں کہ آپ کو اپنے آپ کو خوش رکھنے سے پہلے دوسرے لوگوں کو خوش رکھنا ہے تو آپ غیر ضروری ذہنی دباؤ سے باہر نکل آئیں گے اور بے انتہا پرسکون ہوجائیں گے۔ پھر آپ کی کامیابی کا سفر شروع ہو جائے گا تو پہلے اپنے آپ کو خوش رکھنا سیکھیے۔“ راکیل ویلچ کا انتقال 15 فروری 2023 کو امریکی شہر لاس اینجلس میں ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments