کینیڈا کی عورت دوست انجمن مالٹن وومنز کونسل اور ذہنی صحت کا سیمینار
پچھلے مہینے کی ایک سہ پہر مجھے مالٹن وومنز کونسل کی ایگزیکٹیو ڈائرکٹر عظمیٰ عزیز کا فون آیا اور انہوں نے مجھے ذہنی صحت اور مہاجروں کے نفسیاتی مسائل پر FRIDAY FEB 24TH, 2023 کو ایک سیمینار دینے کی دعوت دی جو میں نے بخوشی قبول کر لی۔
اگر آپ کا اس انجمن سے پہلے تعارف نہیں ہے تو عرض ہے کہ مالٹن وومنز کونسل کینیڈا کی ایک ایسی عورت دوست انجمن ہے جو 2009 میں معرض وجود میں آئی۔ وہ انجمن پاکستان اور ہندوستان کی مہاجر خواتین کو کینیڈا میں ایک کامیاب ’خوشحال اور صحتمند زندگی گزارنے میں مدد کرتی ہے۔ یہ انجمن عورتوں کی آزادی و خود مختاری کو بہت عزیز رکھتی ہے۔ اس انجمن کی مدد سے ان گنت خواتین نے گھر بیٹھ کر کمانے کے ذرائع دریافت کیے ہیں اور سماج میں ایک باعزت مقام بنایا ہے۔ جب کسی مہاجر خاتون کو اس کا کمایا ہوا پانچ سو ڈالر کا پہلا چیک ملتا ہے تو اس کی عزت نفس میں بڑھاوا آتا ہے اور وہ سر اٹھا کر گھر سے باہر نکلتی ہے اور بڑے فخر سے محفلوں میں شریک ہوتی ہے۔
مالٹن وومنز کونسل سے میرا تعارف میرے محسن سانجھ کے پبلشر امجد سلیم کی چھوٹی بہن حفصہ تقدیس کے حوالے سے ہوا جنہوں نے مجھے گرین زون کے فلسفے پر سیمینار دینے کی دعوت دی۔ اس سیمینار میں پاکستان اور ہندوستان کی تیس خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے میری تقریر کو غور سے سنا اور ذہین اور دلچسپ سوال پوچھے۔ مجھے عورتوں کے اس گروہ نے اس لیے بھی متاثر کیا کہ ان سب نے ایک دوسرے کو رنگ ’نسل‘ زبان اور مذہب سے بالاتر ہو کر گلے لگایا تھا اور وہ ایک دوسرے کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھتی تھیں۔
اس دعوت کے بعد مالٹن وومنز کونسل کی طرف سے دعوتوں کا سلسلہ دراز ہو گیا۔
جب مجھے ذہنی صحت اور مہاجروں کے مسائل کے حوالے سے دعوت آئی تو میں نے ان سے کہا کہ یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس پر سات سیمینار دیے جا سکتے ہیں۔ میں نے اس سیمینار کی جو تیاری کی ہے اس کے چیدہ چیدہ نکات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
بابائے تحلیل نفسی سگمنڈ فرائڈ سے کسی نفسیات کے طالب علم نے پوچھا کہ ذہنی طور پر صحتمند انسان کی کیا نشانیاں ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ نے مختصر جواب دیا کہ وہ انسان صحتمند ہے، جو محنت سے کام کر سکتا ہے اور جو محبت کر سکتا ہے
MENTALLY HEALTHY PERSON CAN WORK AND ALSO LOVE
جہاں تک نفسیاتی مسائل اور ذہنی بیماریوں کا تعلق ہے ہم انہیں تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں
پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جو اینزائٹی کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک مثال پینک ڈس آرڈر ہے
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو پرسنیلیٹی ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔ ایسے لوگوں کی شخصیت میں کجی ہوتی ہے۔ وہ خود بھی پریشان رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان رکھتے ہیں۔
تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو سائیکوٹک ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔ ایسے لوگ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں اور انہیں ذہنی بیماریوں کے ہسپتال داخل کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مریض سکزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہوتے ہیں۔
ذہنی بیماریوں اور نفسیاتی مسائل تین وجوہات سے معرض وجود میں آتے ہیں۔ ہم اس ماڈل کو بایو سائیکو سوشل موڈل کہتے ہیں
حیاتیاتی عوامل میں موروثی اور کیمیائی عوامل شامل ہیں
نفسیاتی عوامل میں شخصیت کی کجی شامل ہے
سماجی عوامل میں خاندان اور سماج کے عوامل شامل ہیں
جب ذہنی بیماری یا نفسیاتی مسئلے کی تشخیص ہو جاتی ہے تو اس کا علاج بھی تین پہلوؤں سے ہوتا ہے
حیاتیاتی عوامل کے لیے ادویہ استعمال ہوتی ہیں
نفسیاتی عوامل کے لیے انفرادی تھراپی تجویز کی جاتی ہے
سماجی عوامل کے لیے فیمیلی اور گروپ تھراپی کا مشورہ دیا جاتا ہے
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے جدید نفسیاتی علاج کی موجودگی میں بھی بعض لوگ ماہر نفسیات سے مشورہ کرنے کی بجائے پیروں فقیروں کے پاس جا کر گنڈا تعویز سے علاج کرواتے ہیں اور پھر پریشان ہوتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اور بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو بالکل علاج ہی نہیں کرواتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ذہنی بیماری کا عذاب ان کے گناہوں کی سزا ہے یا ان کی قسمت میں لکھا ہے اور کوئی بھی ڈاکٹر یا نرس یا ماہر نفسیات قسمت کا لکھا نہیں بدل سکتا۔
جہاں تک مہاجروں کے نفسیاتی مسائل کا تعلق ہے تو اس کا انحصار اس پر ہے کہ مہاجر کن حالات میں مشرق سے مغرب میں آئے ہیں۔
جو مہاجر جنگ کے مصائب سے گھبرا کر اور رفیوجی بن کر آتے ہیں ان کی حالت کافی ناگفتہ بہ ہوتی ہے
جو مہاجر مغرب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور ایک بہتر مستقبل کے لیے آتے ہیں وہ کافی خوشحال ہوتے ہیں۔
مہاجروں کی نئی زندگی کے لیے یہ بھی اہم ہے کہ وہ ہجرت کے بعد کسی بڑے شہر میں آ بسے ہیں جہاں ان کی زبان اور کلچر کے بہت سے لوگ ہیں یا کسی ایسے دیہات میں جا بسے ہیں جہاں ان کی زبان بولنے والا کوئی نہیں۔
ایک ادیب ہونے کے ناتے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بیسویں صدی میں تخلیق ہونے والا ادب عالیہ بہت سے مہاجر ادیبوں کا مرہون منت ہے کیونکہ انہوں نے محنت شاقہ سے شہ پارے تخلیق کیے ہیں۔
میری نگاہ میں جب ایک شاعر اور ادیب ’فنکار اور دانشور دو زبانوں‘ دو مذاہب اور دو ثقافتوں میں زندگی گزارتا ہے تو اس کے اندر کی تیسری آنکھ بیدار ہو جاتی ہے اور وہ اپنی بصیرتوں کو اپنی تخلیقات میں پیش کرتا ہے۔
خوش قسمتی سے مالٹن وومنز کونسل تواتر سے ایسے پروگرام ترتیب دیتی ہے جس میں مہاجر ادیب اور شاعر ’موسیقار اور دانشور اپنی تخلیقات اور فن پارے پیش کرتے ہیں اور حاضرین کو محظوظ و مسحور کرتے ہیں۔ ان محفلوں کی وجہ سے دیار غیر میں بسی خواتین کو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔
مالٹن وومنز کونسل نہ صرف مہاجر خواتین کو نئے خواب دیتی ہیں بلکہ ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مدد بھی کرتی ہے۔ دھیرے دھیرے مالٹن وومنز کونسل کا محبت بھرا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور اب ان کی زوم کی محفلوں میں ساری دنیا کی خواتین ہی نہیں عورت دوست مرد بھی شرکت کرتے ہیں۔
مالٹن وومنز کونسل کا موٹو ہے
EMPOWERING WOMEN EMPOWERING COMMUNITIES
یہ میری خوش بختی کہ مالٹن وومنز کونسل مجھے اپنی محفلوں میں سیمینار دینے کی دعوت دیتی ہے۔
نوٹ۔ اگر کوئی قاری ذہنی صحت کے اس سیمینار میں شرکت کرنا چاہے تو وہ عظمیٰ عزیز سے uzma@mwc۔community پر رابطہ قائم کر کے زوم کا لنک حاصل کر سکتا ہے
- لیو ٹالسٹائی کے نظریاتی، سماجی اور ازدواجی تضادات کی کہانی - 26/03/2023
- شاعر اور سرکاری افسر مصطفیٰ زیدی نے خود کشی کیوں کی؟ - 18/03/2023
- کیا آپ ایک شادی شدہ گے مرد ہیں؟ - 08/03/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).