’پتہ نہیں تھا کہ زبانی طلاق کافی نہیں، اس لیے پہلے ایک عدت پوری کی اور عدالتی کارروائی کے دوران دوسری‘


طلاق
آج سے تقریباً 17 برس قبل 2005 میں جب لاہور کی رہائشی خدیجہ کی شادی ہوئی تو انھوں نے اپنے شوہرکے ساتھ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا عہد کیا تاہم شادی کے ابتدائی عرصے میں ہی اُن کو اندازہ ہو گیا کہ اُن کےشوہر کے ’غیر ذمہ دارانہ رویے‘ کے باعث ان کے لیے زندگی کا نیا سفر اتنا سہل نہیں ہو گا۔

مگر خدیجہ گزاراہ کرتی رہیں اور شادی کے 15 سال کے عرصے میں اُن کے تین بچے ہوئے جن کو پڑھانے لکھانے کے لیے انھوں نے نہ صرف خود نوکری کی بلکہ دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے انھوں نے گھر پر بھی بچوں کو ٹیوشن پڑھائی اور زندگی کی گاڑی کو جیسے تیسے آگے بڑھاتی رہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’شادی کے وقت لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ شادی کے بعد زندگی ختم ہے بس۔۔۔ شوہر کے گھر ہی گزارا کرنا ہے۔ اس لیے میں نے کئی سال تک گزارا ہی کیا اور گھر والوں کو اس اذیت کی ہوا نہیں لگنے دی جس کا مجھے سامنا تھا۔‘

خدیجہ کے زندگی کے نشیب و فراز کی تفصیل میں جائے بغیر آتے ہیں اس لمحے کی جانب جب انھوں نے بالآخر 2020 میں اپنے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔

خدیجہ کےشوہر نے جب بچوں کی تعلیم اور صحت سے لے کر گھر کے کسی بھی خرچے تک کی ذمہ داری نہیں اٹھائی تو آخر کار تین بچوں کے ساتھ خدیجہ نے اُن سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔

خدیجہ کے شوہر نے اُن کو طلاق دے کر مہر کی ادائیگی کر دی۔ عدت پوری ہونے پر جب خدیجہ اپنا نام تبدیل کروانے نادرا کے دفتر پہنچیں تو انھیں بتایا گیا کہ ان کو اس کے لیے پہلے متعلقہ یونین کونسل سے طلاق کا رجسٹریشن سرٹیفیکٹ لانا ہو گا۔

نادرا کے دفتر میں وہ دوبارہ تمام مطلوبہ کاغذات لے کر پہنچیں تو انھیں بتایا گیا کہ بہتر ہے کہ وہ اپنے کسی بلڈ ریلیشن (جن سے خون کا تعلق ہو جیسا کہ والد، بھائی وغیرہ) کے ساتھ آئیں تاکہ دستاویزات کی تصدیق ہو سکے، بصورت دیگر کسی سرکاری ملازم سے اُن کو دستاویزات کی تصدیق کروانے کا کہا گیا۔

طلاق

خدیجہ اگلی بار اپنے بھائی کے ساتھ نادرا کے دفتر گئیں اور اپنے نام اور ازدواجی حیثیت سے متعلق کوائف کی تبدیلی کروانے کے لیے نادرا کی مقرر کردہ فیس ادا کر کے اس کام کو انجام دیا۔

عارفہ کا کام تو نادرا میں بظاہر باآسانی ہو گیا کیونکہ ان کی متعلقہ یونین کونسل میں قواعد کے مطابق نہ صرف ان کی طلاق کا اندراج تھا بلکہ ان کے پاس ان کے نکاح نامے کی کاپی اور طلاق کا سرٹیفیکیٹ بھی موجود تھا۔

لیکن خدیجہ کے مقابلے میں غزالہ ( فرضی نام) کا تجربہ مختلف رہا۔

غزالہ کا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر ہے۔ ان کے شوہر نے گذشتہ سال ان کو گھر والوں کی موجودگی میں طلاق دی تاہم ان کے درمیان ’بزرگوں‘ نے صلح صفائی کروا دی۔

چھ ماہ بعد ایک بار پھر غزالہ اور ان کے شوہر میں ناچاقی ہوئی اور وہ روٹھ کر اپنے میکے چلی گئیں جہاں دو ہفتے بعد ان کے شوہر نے ان سے ملاقات کی اور بحث بڑھنے پر ان کو پھر زبانی طلاق دے دی اور وہاں سے چلے گئے۔

غزالہ نے گھر والوں کے سمجھانے پر عدت مکمل کی اور اس کے بعد زندگی کو آگے بڑھانے کا سوچا۔

غزالہ کے شناختی کارڈ پر ابھی تک ان کے شوہر کا نام تھا۔ جب وہ اس کو تبدیل کروانے نادرا کے دفتر گئیں تو ان کو بتایا گیا کہ نادرا اپنے ریکارڈ میں ان کا نام تب تک تبدیل نہیں کر سکتا جب تک ان کے پاس اپنی متعلقہ یونین کونسل کا طلاق سرٹیفیکٹ موجود نہ ہو۔

زیادہ پڑھی لکھی نہ ہونے کے باعث غزالہ ان تمام باتوں سے ناواقف تھیں اور ان کے پاس تو اپنے نکاح نامے کا کاپی تک نہیں تھی ۔گھر والوں نے جب ان کے سابقہ شوہر سے رابطہ کیا تو اس نے ان کے ساتھ کسی بھی تعاون سے انکار کیا جس کے بعد غزالہ کے گھر والوں نے کسی جاننے والے کے توسط سے فیملی کورٹ میں ان کی طلاق کا دعوی دائر کروایا اور اس سارے مرحلے کو نمٹانے میں ان کو تقریباً چار ماہ کا وقت لگا۔

کورٹ کے بعد معاملہ پھر یونین کونسل آیا اور وہاں مزید تین ماہ لگے جس دوران ان کے (سابقہ) شوہر کو ثمن بھیجے گئے اور آخر کار غزالہ کو ڈیوورس(طلاق) رجسٹریشن سرٹیفیکٹ ملا جس کے بعد ان کے شناختی کارڈ پر نام اور ازدواجی حیثیت تبدیل ہو سکی۔

’میاں بیوی کے درمیان طلاق یا خلع کی صورت میں یونین کونسل میں رجسٹریشن لازمی ہے‘

طلاق

شادی کےبعد ہمارے ہاں اکثر خواتین کی پریکٹس ہے کہ وہ شناختی کارڈ پر اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھواتی ہیں۔لیکن خدانخواستہ اگر میاں بیوی میں طلاق یا خلع ہو نے سے رشتہ ختم ہو جائے تو شناختی دستاویزات کے ریکارڈ میں درستگی کروانا ضروری ہوتا ہے۔ تاہم اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ ہم نے ماہر قانون اور نادرا کے حکام سے یہی جاننے کی کوشش کی۔

نادرا کے ترجمان سے جب شناختی کارڈ میں ازدواجی حیثیت میں تبدیلی کے طریقہ کار سے متعلق جب ہم نے پوچھا تو انھوں نے بتایا ’چار لائف ایونٹ ایسے ہیں جو نادرا کے براہ راست دائرہ کار میں نہیں آتے بلکہ اس کی رجسٹریشن اور اندراج یونین کونسل میں کیا جاتا ہے۔ان میں پیدائش، موت، شادی اور خلع/طلاق شامل ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

نادرا کا ولدیت کے بغیر بچوں کی شناختی دستاویزات کی اجازت، مگر والد کے خانے میں کس کا نام لکھا جائے گا؟

تاخیر سے شادی کرنے والی خواتین کو کیا کچھ سننا پڑتا ہے؟

پاکستان میں اگر والدین زندہ نہ ہوں تو بچے کا شناختی کارڈ کیسے بنے گا؟

بچے کی پیدائش کے وقت اس کا کمپیوٹرائزڈ برتھ سرٹیفیکیٹ متعلقہ یونین کونسل میں جبکہ کینٹ میں رہنے والے افراد کی پیدائش کے سرٹیفیکیٹ کنٹونمنٹ بورڈ میں بنتے ہیں۔اس برتھ سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر نادرا میں اس بچے کا بے فارم نادرا بنتا ہے جس پر درج نمبر ہی شناختی کارڈ نمبر ہوتا ہے جو اس کو 18 سال کی عمر میں جاری کیا جاتا ہے۔

جب کوئی شخص وفات پا جاتا ہے تو اس کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ یونین کونسل میں بنتا ہے جس کی درخواست اس کے بلڈ ریلیشن نادرا میں کرتے ہیں۔ اس ڈیتھ سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر نادرا وفات پانے والے کا سی این آئی سی کینسل کرتا ہے اور شناختی کارڈ کینسیلیشن سرٹیفیکیٹ کا اجرا کر دیا جاتا ہے۔

شادی کے وقت جب نکاح ہوتا ہے تو اس کا فارم یونین کونسل میں جاتا ہے جہاں شادی شدہ جوڑے کا میرج سرٹیفیکیٹ بنتا ہے، پھر میرج سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر نادرا اپنے ریکارڈ میں ازدواجی حیثیت کو تبدیل کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر لڑکی اگر چاہے تو اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگا سکتی ہے اور اگر اس کی مرضی نہ ہو تو اس کا نام والد کے نام پر ہی رہتا ہے۔

اگر علیحدگی ہو جائےتو ڈیوورس سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر نادرا اپنے ریکارڈ میں ان کی ازدواجی حیثیت تبدیل کرکے انھیں طلاق/ خلع یافتہ کے طور پر درج کرتی ہے۔ پھر مرد کے بیک اینڈ ریکارڈ سے خاتون کا نام ان کا اہلیہ کے طور سے ہٹا دیا جاتا ہے اور خاتون کے کیس میں اگر ان کا نام کے آگے شوہر کا نام ہے تو اس کو ہٹا کر واپس والد کا نام لکھ دیا جاتا ہے۔

طلاق

’ہاتھ سے لکھی طلاق اب قابل قبول نہیں ہوتی‘

نادرا حکام کے مطابق یونین کونسل میں درج ہونے والا تمام ڈیٹا نادرا کے پاس شو ہو رہا ہوتا ہے کیونکہ یہ سافٹ ویئر ان کو نادرا نے ہی دیا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی نادرا شادی شدہ مرد کو ایک علیحدہ خاندان کے طور پر رجسٹر کر کے ایک فیملی نمبر الاٹ کرتا ہے جس میں مرد اس فیملی کا سربراہ ہوتا ہے۔

’الفا فیملی‘ ماں باپ کے ساتھ فیملی ہوتی ہے جبکہ شادی کے بعد ’بِیٹا فیملی‘ بنتی ہے جس میں میاں بیوی اور بچے ہوتے ہیں۔

نادرا کے ترجمان کے مطابق ’موت زندگی شادی اور طلاق کو رجسٹر کرنا یونین کونسل کا نام ہے جبکہ نادرا شناخت دیتی ہے اس کا کام رجسٹریشن نہیں۔ طلاق کے بعد فیملی نمبر سے اس خاتون کو بطور اہلیہ ہٹا دیا جاتا ہے البتہ بچوں کی ماں اور والد کے نام کے طور پر ان کا نام موجود رہے گا۔ ہاتھ سے لکھی طلاق اب قابل قبول نہیں ہوتی۔ ڈیٹا میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے قانون کے مطابق بلڈ ریلیشن کا ساتھ ہونا ضروری ہے تاکہ اس کی تصدیق کی جا سکے۔ بصورت دیگر 17 گریڈ کا افسر اس کی تصدیق کرتا ہے۔

رجسٹریشن کا طریقہ کار کیا ہے؟

ماہر قانون رابعہ ساغرسے ہم نے جانا کہ جب شوہر طلاق دے یا عورت خلع لے تو دونوں صورتوں میں اس کی یونین کونسل میں رجسٹریشن کا طریقہ کار کیا ہے؟

رابعہ کے مطابق ’اسلامک پرسنل لا یا فیملی لاز کے رولز کے مطابق تین طلاقیں اکھٹی نہیں دی جا سکتیں۔ طلاق اول کا نوٹس پہلے مہینے، دوسرا دوسرے مہینے اور تیسرا تیسرے مہینے میں دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس کی ایک کاپی خاتون جہاں رہائش پزیر ہیں اس کی متعلقہ یونین کونسل کے چیئرمین کو دیا جانا ضروری ہے تاکہ یونین کونسل طلاق کا رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ جاری کرے۔‘

ان تین نوٹس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ عدت کا پیریڈ مکمل ہو جائے گا ۔

’ تین نوٹس کے بعد عدت کا پیریڈ مکمل ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کو ڈیوورس(طلاق) کنفرمیشن سرٹیفیکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ اس سرٹیفیکیٹ کو حاصل کرنے کے بعد اس کا پہلے شوہر سے رشتہ ناطہ اور تعلق بطور میاں بیوی کے طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ ‘

رابعہ کے مطابق ’خلع عورت کا حق ہے خواتین سمجھتی ہیں کہ جس طرح مرد ایک طلاق کی ایک ڈیڈ (معاہدہ) بناتا ہے خواتین کو بھی ایسی ہی ایک نوٹس بنائے گی اور وہ مرد کو دے گی اور یہ عمل شروع ہو جائے گا مگر یہ درست نہیں۔‘

’قوانین کے مطابق خاتون کے پاس نکاح نامہ، شناختی کارڈ ہونا چاہیے اور پھر اس کو فیملی کورٹ میں جانا ہو گا۔

فیملی کورٹ میں دعوی دائر ہونے کے بعد شوہر کو خلع کا ثمن بھیجا جاتا ہے۔ تین ثمن پر وہ نہ آئے تو اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے۔اگر جب بھی وہ نہ آئے تو خاتون کے بیان پر کورٹ کے حکم پر خلع ڈگری ہو جاتی ہے۔‘

رابعہ نے بتایا ’ اگر شوہر عدالت میں پیش ہو جائے اور وہ مصالحت کی جانب جانا چاہے تو وہ عورت کی شرائط مان کر اس کو دوبارہ گھر لے جاتا ہے اور دوبارہ وہ خاتون اپنے گھر میں بس جاتی ہےلیکن اگر خاتون کا اصرار خلع کے لیے ہو تو پھر عورت کے بیان پر عدالت خلع کی ڈگری جاری کرتی ہے۔ ‘

ان کے مطابق ’خلع ملنے کے بعد خاتون اپنی یونین کونسل میں اس خلع کا آرڈر ، نکاح نامہ اور شناختی کارڈ کی کاپی لگا کر ایک سادہ کاغذ پر درخواست لکھ کر دے گی۔ وہاں بھی تین مہینے کا پروسیجر ہے اس میں بھی شوہر کو ثمن بھیجا جاتا ہے اور یہ وہاں بھی ممکن ہے کہ ان میں مصالحت ہو جائے۔ ‘

اور پھر تین ماہ میں اس کو مکمل کر کے طلاق کنفرمیشن سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے جس کے بعد ان دونوں کا میاں بیوی کی حیثیت سے رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments