چین کا سیاسی نظام


چین اپنی تاریخ اور موجودہ زمانہ کے اعتبار سے بھی ایک دلچسپ ملک ہے۔ اس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور سماجی ارتقا اور حوادث زمانہ کے ساتھ ساتھ آنے والے انقلابات سے متاثر بھی ہے۔ موجودہ دنیا میں چین ایک پچھڑا ہوا پسماندہ ملک نہیں ہے بلکہ ایک مسلمہ فوجی، معاشی و سیاسی طاقت ہے اور ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلانا یا اس سے قطع تعلقی اختیار کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔

سامراجی طاقتوں کے مفادات کے تابع مغربی میڈیا کی پروپیگنڈا مہم کے تحت اور دنیا پر واحد سپر پاور کی بالادستی کو قائم رکھنے اور مدمقابل قوتوں (روس و چین) کو اس لسٹ سے باہر رکھنے پر مصر طاقتوں نے مشترکہ طور پر چین کو ایک معمہ بنانے اور اس سے متعلق حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے کا ایک پلان ترتیب دے رکھا ہے۔ جس کے مطابق چین ایک سامراجی ملک ہے اور وہ دیوار کے پیچھے چھپے یاجوج و ماجوج ہیں جو دنیا کو ہڑپ کرنے کے درپے ہیں، یہ کہ چین دنیا پر قبضے کا ارادہ رکھتا ہے، یہ کہ چین پر کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ ہے اور چینی قوم و حکومت اور کمیونسٹ پارٹی جمہوریت اور اس کے تقاضوں سے نابلد ہے، یہ کہ چین دنیا کی منڈیوں پر قبضے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، یہ کہ چین کا سیاسی نظام ڈکٹیٹر شپ کی بدترین شکل ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کا میڈیا اور زیادہ تر بائیں بازو کا طبقہ بھی اس پروپیگنڈے میں پیش پیش ہے جس میں نامی گرامی ماہرین معیشت اور سکالرز بھی شامل ہیں۔ یہ سب مل کر چین کو ایک سرمایہ دار ملک ثابت کرنے پر تلے ہوئی ہیں۔ ذیل میں چین کے سیاسی نظام پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ وہ بالآخر کیسے کام کرتا ہے۔ کیا چین کا سیاسی نظام واقعی آمریت کے میں بدترین مثال ہے یا پھر جمہوریت کی ایک منفرد لیکن بہترین مثال ہے۔

چین کا سیاسی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

چین میں ایک منفرد ملٹی پارٹی کوآپریشن سسٹم ہے۔ یہ نظام مغرب کے جمہوری ڈھانچے کے ملٹی پارٹی سٹرکچر سے بھی مختلف ہے اور جہاں کہیں بھی ون پارٹی سسٹم ہے اس سے بھی مختلف ہے۔ کمیونسٹ پارٹی چین میں آٹھ مختلف جماعتوں کے تعاون سے حکومت چلاتی ہے جو ریاستی امور کو چلانے اور مشاورت دینے کا کام کرتی ہیں۔

یہ آٹھ جماعتیں درج ذیل ہیں۔
1۔ ریوولوشنری کمیٹی آف دا چائنیز کومنتانگ
2۔ چائنہ ڈیموکریٹک لیگ
3۔ چائنہ ڈیموکریٹک نیشنل کنسٹرکشن ایسوسی ایشن
4۔ چائنہ ایسوسی ایشن فار پروموٹنگ ڈیموکریسی
5۔ چائنیز پیزنز اینڈ ورکرز ڈیموکریٹک پارٹی
6۔ یوژان سوسائٹی
7۔ چائنہ ژی گوانگ پارٹی
8۔ تائیوان ڈیموکریٹک سیلف گورنمنٹ لیگ

کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں ”چائنیز پیپلز پولیٹیکل کنسلٹیٹوو کانفرنس“ (CPPCC) ملٹی پارٹی کوآپریشن کو چلاتی ہے اور سیاسی مشاورت دیتی ہے۔ یہ کانفرنس تمام جماعتوں کے نمائندوں کی مدد سے اہم امور کو زیر بحث لاتی ہے جس میں جی۔ ڈی۔ پی، ڈپلومیسی، میڈیکل ٹریٹمنٹ، ایمپلائمنٹ اور ضروری سیاسی، معاشی و ثقافتی مسائل کو زیر بحث لاتی ہے۔ ہر سال کانفرنس دوران اجلاس ہزاروں کی تعداد میں ممبران سے پالیسی سفارشات موصول کرتی ہے۔

اس سال (رپورٹ شائع ہونے کے سال) سال 5,769 سفارشات موصول ہوئیں۔ 4,279 ریکارڈ میں درج ہوئیں اور ان میں سے 42 اہم مسائل سے متعلق پروپوزل تصور ہوئے۔ یہ سب (پیپلز کانگریسز، ریجنل ایتھنک اٹانومی اور سیلف گورنمنٹس) جو گاؤں کی سطح پر بنتی ہیں، کے ساتھ مل کر چین کا بنیادی سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں۔ اور یہ چین کی سوشلسٹ جمہوریت کی لازم بنیادیں ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کمیونسٹ پارٹی پورے ملک کا سسٹم کنٹرول کرتی ہے اسے کون کنٹرول کرتا ہے۔ یا

چین کی کمیونسٹ پارٹی کیسے کام کرتی ہے؟

ہر پانچ سال بعد کمیونسٹ پارٹی، پارٹی کانگریس منعقد کرتی ہے جب وہ اپنے آپ کو ترقی دینے کا کام کرتی ہے۔ یہ چین کی سینئیر قیادت (دا پولٹ بیورو اسٹینڈنگ کمیٹی) تشکیل کرتی ہے۔ یہ کانگریس آخری بار 2022 میں منعقد ہوئی۔

بہت سارے سیاسی نظاموں کے مقابلے میں چین کا سیاسی نظام پسندیدگی و ناپسندیدگی سے ہٹ کر میرٹ پر کام کرتا ہے اور پارٹی میں ترقی کا معیار بھی میرٹ ہے۔ پارٹی اور ریاستی نظام میں داخل ہونے کے لیے چین کا سول سروس کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ سماجی رتبہ کسی بھی اعتبار سے اس کورس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ ہر ممبر کو یہ امتحان لازمی پاس کرنا ہوتا ہے۔ امتحان کے کورس کا دورانیہ پانچ گھنٹے کا ہوتا ہے جس میں ریاضی، منطق، وربل سٹرکچر اور ورلڈ نالج کے مضامین شامل ہوتے ہیں۔

اس امتحان کو پاس کرنے والے افراد کی ترقی (ٹین۔ ٹیئر رینکنگ سسٹم) کے ذریعے ہوتی ہے جس کے مطابق کسی بھی ممبر کو 10 سے 30 سال کا عرصہ KE or FU KE (entry level) سے GUO or FU GUO (state level) سطح کا لیڈر بننے میں لگتے ہیں۔ جہاں وہ اعلیٰ قیادت کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ پارٹی کا سب سے بڑا عہدہ جنرل سیکریٹری آف کمیونسٹ پارٹی ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کانگریس کے کسی بھی الیکشن میں آج تک ٹرن اوور کا تناسب 10 فیصد رہا ہے۔ ایک ممبر کانگریس John dingel (مشی گن سے ) 30 بار ممبر کانگریس منتخب ہوئے اور 60 سال ہاؤس میں گزارے۔ جبکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا ٹرن اوور کا تناسب ہر پانچ سال میں ہر ممبر کا تقریباً 62 فیصد ہوتا ہے جو دنیا کی بہت ساری جمہوریتوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

ٹرن اوور کے تناسب سے قطع نظر چین کی کمیونسٹ پارٹی نئی قیادت کو متعارف کرواتی ہے جس کا معیار خالصتاً کارکردگی ہے۔

مذکورہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے آپ فیصلہ کریں کہ کیا چین ایک منفرد اور دلچسپ جمہوری ملک ہے یا آمر؟

اگر جمہوریت کا معیار کھلے میدان میں سرمایہ داروں کو مزدوروں کی نوچنے کے لیے کھلا چھوڑ دینے کا نام ہے تو چین ایک آمر ملک ہے۔

اگر جمہوریت ملک میں الیکشن کے نام پر مذہب کے نام پر سادہ لوح عوام کو بار بار جھانسے دینے کا نام ہے تو پھر چین ایک آمر ملک ہے۔

چین میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کیا کہانی ہے اس پر اگلے کالم میں لکھوں گا۔
یہ متذکرہ حقائق درج ذیل سورس سے حاصل کیے گئے ہیں۔
Report by Wang Guan, correspondent CGTN.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments