ملاوی کے صدر بنگو متھاریکا کی موت کیسے واقع ہوئی؟


 

سیاست اور صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ سیاست، میسر ذرائع کے اندر رہتے ہوئے عوام کے لئے بہترین فیصلے کرنے کا نام ہے۔ ملکی سطح پر یہ فیصلے حکمران کرتے ہیں۔ صحت اور زندگی کے فیصلے بجا طور پر اولیت رکھتے ہیں لیکن ارباب اقتدار دیگر معاملات کو زیادہ اہم جان کر عوما عوام کی صحت اور زندگی کی بابت پالیسیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ عدم توجہی بہت سے افراد کی صحت کو برباد کرتے اور عام لوگوں کی جان کو نقصان پہنچاتے پہنچاتے، خود حکمرانوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔

جب تک ایسا ہو نہیں جاتا، یہ ممکن بھی نہیں لگتا۔ اور ممکن ہو جانے کے بعد واپسی کی گنجائش نہیں رہتی۔ حادثہ جب ہو چکتا ہے، موت جب آ جاتی ہے، تو جتنی مرضی دولت خرچ کر لیں، جتنا چاہے اپنے اقتدار و اختیار سے کام لے لیں۔ پھر آئی کو کوئی ٹال نہیں سکتا، اور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

یہ 5 اپریل سن 2012 کی بات ہے۔ صبح نو بجے صدر مملکت نے معمول کے مطابق، اپنے فوڈ ایڈوائزر کے چکھنے اور تسلی کرانے پر کہ زہر نہیں ملا ہوا، ناشتہ کیا۔ کچھ دیر بعد ایوان صدر میں ہی انہیں دل کا دورہ پڑ گیا۔ ابتدائی طبی امداد وہیں پر دی گئی مگر طبیعت نہ سنبھلنے پر ایمبولینس میں قریبی ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہسپتال جاتے ہوئے 11 بجکر پچیس منٹ پر صدر کی موت واقع ہو گئی لیکن ہسپتال پہنچنے کے بعد بھی تمام دن سانس بحال کرنے کی کوشش کی جاتی رہی تاکہ ہسپتال سے باہر کی دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ صدر ابھی زندہ ہیں۔ یہ واقعہ ملاوی کے آنجہانی صدر بنگو متھاریکا کا ہے، جو دوران اقتدار غربت اور بیماری کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے لئے کچھ کرنے کی بجائے ملک کے ذرائع کو اپنے محل کی تعمیر اور پر آسائش جہازوں کی خرید پر صرف کرتے رہے۔

متھاریکا کی میت ہسپتال میں تھی اور ادھر ان کی کابینہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ ان کے بعد اقتدار کون سنبھالے گا۔ فیصلہ ہونے تک یہ اعلان کرنا کہ صدر کی موت واقع ہو چکی، مشکل تھا۔ اس سے بڑی مشکل یہ تھی کہ جس ہسپتال میں صدر کی میت تھی، وہاں کے سرد خانے میں بجلی نہیں تھی۔ فیصلہ ہوا کہ متھاریکا کی میت کو کسی ہمسایہ ملک میں منتقل کر دیا جائے، یہ بتائے بغیر کہ اصل میں صدر کی موت واقع ہو چکی ہے، جنوبی افریقہ سے بات کی گئی متھاریکا کا اپنا جہاز ایک میت کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی اہلیت نہ رکھتا تھا لہٰذا جنوبی افریقہ سے ہی ائر ایمبولینس کا بندوبست کیا گیا۔

شام ڈھلے جب ائر ایمبولینس پہنچی تو اس کے عملے نے یہ دیکھ کر کہ مریض نہیں بلکہ میت ہے، لے جا نے سے انکار کر دیا۔ بالآخر حکام بالا کی مداخلت پر اور مردہ متھاریکا کے منہ میں ایک ٹیوب ڈال کر، کہ وہ دیکھنے میں بیمار لیکن زندہ لگے، صدر کو جنوبی افریقہ کے ایک شہر پری ٹوریا کے ایک ملٹری ہسپتال لے جایا گیا جہاں پندرہ منٹ کے اندر ہی مردہ قرار دے کر مردہ خانے منتقل کر دیا گیا۔

ایک دن مزید گزر گیا، متھاریکا کے بھائی جو قانوناً صدر نہیں بن سکتے تھے، ان کو صدر بنانے کی کوششیں جاری رہیں۔ متھاریکا کی موت کا اعلان بھی روک کر رکھا گیا۔ ادھر مرنے والے کا جسم گلنے لگا تو جنوبی افریقہ کی حکومت نے اصرار کیا کہ ملاوی کی حکومت از خود موت کا اعلان کرے ورنہ ہم کر دیں گے۔ اس دباؤ میں آ کر موت کے اڑتالیس گھنٹے بعد ملاوی کی حکومت نے صدر کی موت اور میت کی واپسی کا اعلان کیا۔ مردہ جسم کی سانس بحال کرنے کی مسلسل کوششوں سے ہونے والے چہرے کے بگاڑ اور گرمی میں جسم کے گل جانے کو چھپانے کے لئے میت کا میک اپ کرنا پڑا۔ تابوت پر تاریخ وفات بھی اپنے اصلی دن یعنی 5 اپریل سے تبدیل کر کے پہلے 7 اپریل یعنی جس دن سرکاری اعلان ہوا، اور پھر 6 اپریل یعنی جس دن دنیا کے سامنے تسلیم کیا، کرنی پڑی۔

انکوائری کمیشن نے ان تمام واقعات کی چھان بین کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا : ”صدر متھاریکا کی موت چھپانے کی کوشش میں ان کی میت کی جس طرح سے بے حرمتی کی گئی، وہ ایک انسان جو ایک مملکت کا سربراہ بھی ہو، اس کے لئے انتہائی نامناسب تھا۔“

بنگو متھاریکا سن 2004 سے 2012 تک ملاوی کے صدر رہے۔ ان کے اقتدار کے ابتدائی سالوں میں ملاوی نے ترقی بھی کی، لیکن پھر بنگو کا دماغ الٹ گیا۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگے اور اپنے سے اختلاف کو کفر۔ اقتدار کی دوسری میعاد ختم ہونے کے قریب تھی کہ تیسری دفعہ صدر بننے کا سودا سر میں سما گیا۔ قانون میں تبدیلی کی کوشش کرنے لگے کہ ان کے خیال میں کوئی اور اس قابل ہی نہیں تھا کہ حکمران بن سکے۔ یہ فرعونی خیال تاریخ کے کسی بھی دھارے پر کسی بھی حکمران کے سر میں سما جائے، انجام اچھا نہیں نکلتا۔ متھاریکا کو بھی اندرون و بیرون ملک سے نیک صلاح دی گئی لیکن ایسا کہنے والے ان کے دشمن ٹھہرے۔

متھاریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے غیر ملکی امداد جو ملکی معیشت کو چالیس فیصد تک سنبھالا دیتی تھی، رک گئی۔ زندگی کا پہیہ بھی رکنے لگا۔ نہ بجلی رہی نہ روز گار۔ ملک میں کرنسی، پٹرول اور دوائیوں کی شدید قلت ہو گئی۔ لوگ پٹرول پمپ پر قطاروں میں کھڑے رہتے اور پٹرول نہ ملتا۔ علاج معالجے کی سہولتیں کمیاب ہو گئیں۔ حالت یہ تھی کہ جن دنوں ایسی خبریں عام تھیں کہ کوئی ماں زچگی کے لئے ہسپتال جانے کی ضرورت مند تھی لیکن اس وجہ سے نہ پہنچ سکی اور اللہ کو پیاری ہو گئی کہ گاڑی یا ایمبولینس میں ڈالنے کے لئے پٹرول نہ تھا۔ ایسے ہی دنوں میں صدر متھاریکا نے تیرہ کروڑ ڈالر کی خطیر رقم سے ذاتی استعمال کے لئے جیٹ طیارہ خریدا، ایک عالیشان محل تعمیر کروایا، اور اپنی بیوی کی بھاری تنخواہ سرکاری خزانے سے مقرر کی۔

حقیقت یہ ہے کہ حکمران جنہیں اقتدار اصل میں تو عوام کے لئے اچھے فیصلے کرنے اور ان کی زندگیاں آسان بنانے کے لئے ملتا ہے، جب دوسرے انسانوں کی زندگی اور موت سے لاتعلق ہو جاتے ہیں، تو اپنے لئے بھی زندگی کے راستے مسدود کر لیتے ہیں۔ جب ان پر بھی عام انسان والا وقت آتا ہے تو صدارتی جیٹ نہیں، ایمبولینس کام آتی ہے۔ ہیلی کاپٹر نہیں، ڈی فبریلیٹر (Defibrillator ) کام آتا ہے۔ ان چیزوں کو چلانے والا انسان اور اس کی مہارت کام آتی ہے۔ لیکن اس وقت ایمبولینس، ڈی فبریلیٹر اور انسانی مہارت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا لمحہ گزر چکا ہوتا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ سیاسی معاملات کے بارے میں فیصلے کرتے ہوئے صحت کو اولیت دینا، سیاستدان اور اس کو ووٹ دینے والے، دونوں کے لئے ضروری ہے۔

ڈاکٹر زعیم الحق ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اپنے شعبہ کے تکنیکی امور کے ساتھ ان انفرادی و اجتماعی عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں جو ہماری صحت یا بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

ڈاکٹر زعیم الحق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر زعیم الحق

ڈاکٹر زعیم الحق ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اپنے شعبہ کے تکنیکی امور کے ساتھ ان انفرادی و اجتماعی عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں جو ہماری صحت یا بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

dr-zaeem-ul-haq has 15 posts and counting.See all posts by dr-zaeem-ul-haq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments