رب کا بلاوا


میرے ابا کہا کرتے تھے پتر اللہ کے گھر کا بلاوا ہوتا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے کن فرماتا ہے اور ہوجاتا ہے۔ لیکن میں نے ہمیشہ ضد ہی کی ہے۔ میرے ابا کہتے تھے پتر اللہ سے مانگا کرو ہم اپنے رب کے بڑے لاڈلے ہوتے ہیں۔

وہ جیٹھ کا مہینہ تھا جب ابو دفتر سے واپسی پر ایک سکون دہ مسکراہٹ کے ساتھ گھر داخل ہوئے۔ میں نے دروازے سے ان کے ہاتھ سے تمام دفتری سامان پکڑا اور ان کا ہاتھ تھام کر اندر لے آئی۔ اس شام شدید گرمی تھی لیکن ابا کی مسکراہٹ دیکھ کر میں شدید ٹھنڈک محسوس کر رہی تھی۔

”خوش بخت بانو کہاں ہو؟ ،“
ابا ماں کو پکار رہے تھے۔

میں نے ماں کو ہمیشہ ابا کی خدمت کرتے دیکھا۔ ماں کبھی زبان پر انکار نہیں لائی۔ ابا کی ایک زبان پر ماں دوڑی چلی آتی۔ میں اکثر ماں سے پوچھتی۔

” ماں ، ابا کی بہت مانتی ہو۔“
ماں ہمیشہ کہتی

پتر شوہر خدا کے سوا سب کچھ ہوتا ہے۔ رب نے اپنی ساری صفات مرد میں ڈالی ہیں۔ عورت کو مرد کی عزت اور محبت کے لیے بنایا ہے۔ شوہر سر کا سائیں ہوتا ہے۔ پتر جے رب نوں راضی کرنا تے رب دے بندیا نوں راضی کرو۔ ”

”عمرے کی تیاری کرو رب کا بلاوا آ گیا ہے بانو۔“
ابا ماں کو بتا رہے تھے۔ مجھے ایک سیکنڈ کے لئے ایسا محسوس ہوا جیسے خواب ہو۔ ماں کی آنکھیں بھر آئیں۔

ساتھ ہی ماں نے انکار بھی کر دیا۔ ماں کہتی تھی ساری اولاد کا فرض ادا ہو جائے پھر میں اللہ کے گھر جاؤں گی۔ مجھے بہت برا لگا بھلا رب اپنے گھر بلائے تو ایسے انکار کون کرتا ہے۔

ماں بڑی خوشی سے روز بروز ابا کی تیاریاں کرتی۔ ایک دن میں نے ماں سے پوچھا
” تیرا اللہ کے گھر جانے کا دل نہیں کرتا۔“
ماں کہتی، ”پتر کس وقت دل نہیں کرتا۔ یہ تو بلاوا ہوتا ہے۔ جب اس رب نے بلانا ہے تو کون روکے“ ۔
شام کا وقت تھا ہم چائے کی پیالی تھامے پورے دن کی تھکن اتار رہے تھے۔ ابا کہنے لگے،

بانو نے مجھے زندگی کے پچیس سال دیے ہیں ہر اچھی بری گھڑی میں میرے ساتھ رہی میں کہتا ہوں میرے ساتھ ہی یہ سفر کرو آگے نا جانے زندگی موقع دے یا نہیں ”۔

ابا بول رہے تھے اور ماں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میرا بھی بہت دل کرتا تھا اماں اور ابا اکٹھے جائیں میں نے ماں کو ہر لمحے ابا کی خدمت کرتے دیکھا۔ بہت کم دن باقی تھے میں نے ابا اور اماں کی تیاری کروائی۔ اور بالآخر مقررہ دن پر ان کی روانگی ہو گئی۔

کافی عرصہ بیت گیا۔ میں نے ممتاز مفتی کا لبیک بھی پڑھ لیا۔ قرآن پاک کی تلاوت بھی بمعہ ترجمہ کی۔ میں نے پانچ وقت کی نمازیں بھی پڑھنی شروع کر دیں اور اللہ کی راہ میں ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی جس سے میرا رب مجھے اپنے گھر کا بلاوا بھیجے۔

ہر بات سے ضد لگاتے لگاتے میں نے رب سے بھی ضد کی کہ یہ تو صرف پیسوں کا معاملہ ہے میں نے پیسے بھی جمع کر لیے پھر ایک دن احساس ہوا پیسوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میں نے ضد کرتے کرتے ہار مان لی۔

اور اپنے ابا کے گلے سے جا لگی۔
”ابا آپ ٹھیک کہتے ہیں یہ بلاوے کی بات ہے۔
میں ہار گئی ابا۔
میں ہار گئی۔ ”۔

”پتر جب بندہ دنیا سے ہار جاتا ہے رب کے آگے جیت جاتا ہے۔ دنیا کی ہار کی رب کی محبت ہے۔ رب اسے ہر وہ شے نواز دیتا جس کی وہ ضد لگاتا۔ رب اپنے پیاروں کو آزماتا ہے۔ “

میں یعنی زلیخا اپنے ماں باپ کی پانچویں بیٹی تھی۔ میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے اور سامنے خانہ کعبہ۔ اور زبان پر ورد تھا

”لبیک! اے اللہ میں حاضر ہوں۔“

خدا کے گھر پہنچ کر اس کو اپنی ہر کوشش اور ماں باپ کا سفر مکہ یاد آ رہا تھا اور وہ بھیگتی آنکھوں سے مسکرا رہی تھی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments