دستور سازی پر اثرانداز ہونے والا خوں آشام واقعہ


1956 ء کے دستور میں صوبائی خودمختاری کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ ریلوے کا نظام بھی صوبوں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ صدر اسکندر مرزا، جس نے دستور کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا، وہ پارلیمانی نظام کے سخت خلاف تھا۔ اس نے ڈھائی سال میں چار وزرائے اعظم تبدیل کیے اور اکتوبر 1958 ء میں کمانڈر ان چیف کی ملی بھگت سے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خاں نے 27 ؍اکتوبر کی نصف شب صدر اسکندر مرزا کو ایوان صدر سے نکال باہر کیا جو بعد ازاں لندن کے ہوٹل میں ملازمت کرتا رہا۔ مارشل لا کی طاقت سے بنیادی جمہوریتوں اور صدارتی نظام قوم پر مسلط کیے گئے جس پر 1962 ء کا آئین چنا گیا جس نے عملی طور پر مشرقی پاکستان کے عوام کو صوبائی خودمختاری اور حق حکمرانی سے یکسر محروم کر دیا، چنانچہ ان میں سخت بے چینی سرایت کرتی گئی۔

اسی فضا میں شیخ مجیب الرحمٰن کو چھ نکات سامنے لانے اور بنگلہ قومیت کو ہوا دینے کا موقع ملا اور ملک میں آمریت کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو گئیں۔ صدر جنرل ایوب خاں نے عالم وحشت میں اقتدار، آئین کے مطابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اسپیکر قومی اسمبلی جناب عبدالجبار کو منتقل کرنے کے بجائے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خاں کے حوالے کر دیا۔ اس نے 25 مارچ 1969 ء کو ’غاصبانہ‘ مارشل لا نافذ کرنے کے ساتھ ہی 1962 ء کا دستور منسوخ کر ڈالا۔ بدترین سیاسی بے بصیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ون یونٹ توڑ ڈالا اور قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں میں اضافہ کریا حالانکہ دونوں بازوؤں کے نمائندوں کے مابین 1956 ء ہی میں مساوی نمائندگی پر اتفاق ہو گیا تھا۔

اس نازک موقع پر بالغ نظر سیاست دانوں نے ارباب اختیار کو یہ محفوظ راستہ سجھایا کہ نئے آئین کے سخت امتحان سے گزرنے کے بجائے 1956 ء کا دستور بحال کر دیا جائے جو دونوں بازوؤں کے منتخب نمائندوں نے منظور کیا تھا۔ میں نے اس موضوع پر اردو ڈائجسٹ، ہفت روزہ زندگی اور ڈھاکہ کے انگریزی اخبار ’The Observor‘ میں مضامین لکھے۔ انہی دنوں مجھے شیخ مجیب الرحمٰن سے ان کی اقامت گاہ دھان منڈی پر انٹرویو لینے کا موقع مل گیا۔

وہ بڑی ردوکد کے بعد اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ 1956 ء کے دستور کی بحالی کے ساتھ اس میں سادہ اکثریت سے ترمیم کا اختیار دے دیا جائے۔ اتفاق سے جناب حسین شہید سہروردی کی صاحبزادی اختر اور ان کے شوہر سلیمان بھی انٹرویو میں شریک ہو گئے۔ اردو ڈائجسٹ میں شیخ صاحب کا انٹرویو شائع ہوا، تو انہوں نے اخباری بیان جاری کر دیا کہ اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر نے مجھ سے 1956 ء کے دستور کے حوالے سے غلط بات منسوب کر دی ہے۔ بیگم اختر سلیمان نے کراچی سے پریس ریلیز جاری کیا کہ میں اور میرے شوہر سلیمان انٹرویو کے دوران موجود تھے اور شیخ مجیب نے وہی کچھ کہا تھا جو اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا ہے۔ ایک انتہائی سنجیدہ تجویز پر کان نہ دھرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سقوط ڈھاکہ پیش آیا۔

سقوط غرناتا کے بعد سقوط ڈھاکہ امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑا صدمہ تھا۔ میں نے اردو ڈائجسٹ میں ’سقوط ڈھاکہ سے پردہ اٹھتا ہے‘ کے عنوان سے سلسلۂ مضامین شروع کیا۔ مارچ 1972 ء میں تیسری قسط شائع ہوئی، تو اہل اقتدار کا پارہ بہت چڑھ گیا، چنانچہ بھٹو حکومت کے آغاز ہی میں پانچ صحافی مارشل لا کے تحت حوالۂ زنداں کر دیے گئے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، راقم الحروف اور عزیزم مجیب الرحمٰن شامی زیرعتاب آئے۔ دو روز بعد ”پنجاب پنچ“ کے ایڈیٹر حسین نقی اور اس کے پبلشر مظفر قادر منہ زور مخالفت پر دھر لیے گئے۔

ہم پانچوں صحافیوں نے فوجی عدالت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کمرۂ عدالت میں پوری قوت سے مارشل لا مردہ باد کے نعرے لگائے۔ دریں اثنا لاہور ہائی کورٹ میں ہماری طرف سے جناب ایم انور بار ایٹ لا نے رٹ پٹیشن دائر کی کہ قرارداد مقاصد میں یہ عظیم تصور قطعیت کے ساتھ درج ہے کہ اقتدار اور اختیار استعمال کرنے کے مجاز صرف عوام کے منتخب نمائندے ہیں، تو اس بنیادی دستاویز کے برخلاف یہ فوجی عدالتیں ماورائے آئین کیوں کام کر رہی ہیں؟ لاہور ہائی کورٹ نے رٹ پٹیشن منظور کرتے ہوئے ہماری رہائی کا حکم صادر کر دیا اور ایک مفصل فیصلہ قلم بند کیا جس نے ہمارے فلسفۂ قانون اور دستوری اصولوں میں غیرمعمولی وسعت اور معنویت پیدا کر دی۔ اس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔

میں ان معجزہ نما واقعات کا ذکر بھی کروں گا جن کے بطن سے 1973 ء کے متفقہ دستور نے جنم لیا۔ وہ ہماری قومی زندگی کی ایک انتہائی پیچیدہ اور سنگین صورت حال تھی۔ ایک طرف سقوط ڈھاکہ سے قوم بری طرح نڈھال تھی اور دوسری طرف سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اختلاف کی ہر آواز کو طاقت سے کچلنے پر تلے ہوئے تھے۔ 1970 ء کے انتخابات میں بلوچستان اور صوبہ سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام اکثریتی جماعتوں کی حیثیت سے کامیاب ہوئی تھیں اور انہوں نے دو صوبوں میں مخلوط حکومتیں بنا لی تھیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین مسٹر ذوالفقار علی بھٹو وفاق کے علاوہ پنجاب اور سندھ میں برسر اقتدار آ چکے تھے جو بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کے سخت خلاف تھے اور عوامی نیشنل پارٹی کو انتخابی سیاست سے خارج کر دینے کے لیے مختلف حربے آزما رہے تھے۔ انہوں نے فروری 1973 ء میں بلوچستان حکومت برطرف کر دی جس پر صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ مولانا مفتی محمود احتجاجاً مستعفی ہو گئے، چنانچہ ایک ہولناک سیاسی بحران امڈا چلا آ رہا تھا۔

بلوچستان میں فوجی آپریشن نے پورے ملک میں سخت ہیجان برپا کر دیا تھا۔ اسی بحرانی کیفیت میں قومی اسمبلی نے 2 دسمبر 1972 ء کو دستور کی پہلی خواندگی مکمل کر لی۔ اس سیشن کا حزب اختلاف نے اپنی تمام ترامیم مسترد ہو جانے کے بعد بائیکاٹ کر دیا تھا جس کے باعث ایک خوفناک ڈیڈلاک جنم لینے لگا تھا۔ حکومت نے دستور کی آخری منظوری دینے اور اس پر دستخط ثبت کرنے کے لیے 14 ؍اپریل کی تاریخ کا اعلان کر دیا تھا، مگر اس سے قبل ایک خوں آشام واقعے کے رونما ہونے سے متفقہ دستور کی منظوری کے سبھی امکانات اور امیدوں کے سارے چراغ بجھتے چلے گئے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments