’ریٹنگز چینل کا ایندھن ہے‘: کیا پاکستان ڈرامے زندگی کے قریب ہو رہے ہیں؟


پاکستان کے تفریحی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے نئےڈراموں میں قابِل شناخت ترقی پسند کہانیاں اور کردار نظر آرہے ہیں، جن میں واضح طور پر دقیانوسی صنفی تصورات کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس خوش آئند تبدیلی کو ناقدین اور ناظرین یکساں طور پر سراہ رہے ہیں۔

مختلف چینلز پر نشر ہونے والے اِن ڈراموں میں سرِفہرست سرِراہ، کچھ ان کہی، پیاری مونا، اگر اور ’ہم دونوں‘ شامل ہیں جبکہ پچھلے سیزن سے جاری ڈرامہ سیریل ’پنجرہ‘ کی کہانی بھی کافی مختلف ہے۔ اِن کہانیوں میں عورتوں کو بااختیار بنانے، باڈی شیمنگ اور ذہنی صحت کے مسائل سے لے کر تفریح کا سامان بھی موجود ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ سٹریمنگ سروسز کی وجہ سے لوگوں کی رسائی دنیا بھر کے مواد تک ہے جس نے پاکستان میں بھی ڈرامہ بنانے والوں کو اپنا انداز تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے البتہ انڈسٹری سے جڑے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ پہلے بھی ایسی کہانیاں دِکھاتے رہے ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔

‘تنوع کا فقدان تو موت ہوا کرتا ہے، چینج تو لازمی ہے’

بیشتر ڈراموں کی کہانیوں کا ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہونا اور اُن کے بارے میں سوشل میڈیا پہ کُھل کر بات چیت اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہو نا ہو ہماری ٹی وی سکرین پہ کوئی تبدیلی ضرور آئی ہے۔

پاکستانی اداکار احسن خان اپنے منفرد کرداروں کی وجہ سے مقبول ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘جب ایک کام آپ بہت زیادہ بار کرلیتے ہیں تو خود بھی آپ اُس سے عاجز آجاتے ہیں اور دیکھنے والے بھی تنگ آجاتے ہیں۔ قدرتی طور پر کچھ عرصہ کے بعد ایک شفٹ آتا ہے۔ تنوع کا فقدان تو موت ہوا کرتا ہے، چینج تو لازمی ہے۔’

اے آر وائے ڈیجیٹل کے ہیڈ آف کانٹینٹ علی عمران کہتے ہیں کہ ‘ایسا نہیں ہے کہ یہ ٹرینڈ ابھی شروع ہوا ہے۔ ہمیشہ سے اس طرح کی کہانیاں موجود تھیں اور تقریبا تمام چینلز اپنے تئیں کوشش کیا کرتے تھے کہ ایک آدھ کوارٹر میں اس طرح کی کہانی چلائیں لیکن وہ قبول نہیں کی جاتی تھی۔‘

اُن کے بقول ماضی میں چلنے والی اِکا دُکا کہانیوں کی وجہ سے اب اُن کی آڈیئنس بن گئی ہے۔’ اب ہم نے وہ ایک آڈیئنس بنا لی ہے۔ اُن کہانیوں کو بھی قبول کیا جانے لگا ہے۔ جیسے انڈیا میں آرٹ، آف بیٹ یا پیرالل سنیما ساتھ ساتھ چلتا رہا اور اب مجھے لگتا ہے کہ اُس نے انڈین سنیما کو ٹیک اوور کرلیا ہے۔’

احسن خان حالیہ تبدیلی کو گلوبل ٹرینڈ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ’دنیا بھر میں کہانی بتانے کا انداز اور موضوعات جن کے بارے میں کسی نے کبھی سوچا نہیں تھا، اب اُن پر چیزیں بن رہی ہیں۔ اور اب ہماری دوسرے پلیٹ فارمز تک رسائی بہت زیادہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے قدرتی طور پر ہمارے لوگوں پر ایک دباؤ ہے کہ کچھ نیا اور الگ کریں۔’

آمنہ حیدر عیسانی اپنے یوٹیوب چینل سمتھنگ ہاٹ پر ہر ہفتے نشر ہونے والے ڈراموں کی مختلف اقساط کا تجزیہ کرتی ہیں۔ بغور جائزہ لیا جائے تو دو ہزار آٹھ سے جاری اس چینل نے ایک واچ ڈاگ کاکام کیا ہے۔

آمنہ حیدر عیسانی، اداکار احسن خان کی بات سے متفق نظر آئیں کہ ناظرین کا ’اکسپوژر‘ بڑھا ہے۔ ساتھ ساتھ ان کا خیال ہے کہ مواد میں تبدیلی لانے میں ایک بڑا ہاتھ ڈراموں کے ناقدین کا بھی ہے۔

‘اب ہر سین پر ایک بہت کڑی نظر رکھی جارہی ہے اور تنقید کی جارہی ہے کہ کہاں پہ غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور اسی طرح اُس کو کنٹرول بھی کیا جا رہا ہے۔’

انھوں نے حالیہ تبدیلی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئِے رمضان میں نشر ہونے والے مقبول ڈراموں جیسے کہ ‘سنو چندا’، ‘عشق جلیبی’ اور ‘چوہدری اینڈ سنز’ وغیرہ کو کریڈٹ دیا اور کہا کہ ‘یہ ڈرامے اس تبدیلی کی بنیاد بنے۔ اُن میں مزاح بھی تھا، فیملی ڈرامہ بھی تھا جیسے کہ ’سنو چندا‘ جو بے حد مقبول ہوا۔ عوام رمضان کے ڈرامے پسند کرتی ہے اور اُن میں کوئی منفی چیز نہیں ہوتی۔’

’ریٹنگز چینل کا ایندھن ہے‘

سوال یہ ہے کہ وہ عام فارمولا کہانیاں اور گھسے پٹے موضوعات اور سستی پروڈکشن والے ڈرامے بھی ریٹنگ کیسے لے آتے ہیں۔ علی عمران نے سادہ الفاظ میں بتایا کہ ‘ہمارے ہاں جو عام سطحی کہانیاں ہیں وہ لوگوں میں اس لیے مقبول ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ آپ کے گھروں کا حصہ ہیں۔’

ٹی وی کی ٹارگٹ آڈیئنس کے بارے میں آمنہ حیدر عیسانی بتاتی ہیں کہ ‘ہم نہیں کہتے بلکہ پروڈیوسرز خود کہتے ہیں کہ وہ ورکنگ کلاس ہے۔ میں مڈل ورکنگ کلاس کی بات نہیں کر رہی بلکہ آپ کی ڈومیسٹک ہیلپ، تندور پہ بیٹھنے والے لوگ۔۔یہ بھی کہا گیا کہ جی جو تندور پہ بیٹھنے والے ہیں وہ بھی یہ ڈرامے دیکھتے ہیں اور وہ ساس بہو کی اِن کہانیوں سے جُڑ پاتے ہیں۔’

ڈرامہ کے کہانیوں پر ایک بڑا اعتراض یہ بھی رہا ہے کہ جو دِکھایا جاتا ہے وہ معاشرے میں نہیں ہوتا ہے۔ علی عمران اس بیانیے سے متفق نہیں اور کہتے ہیں کہ ‘میں نہیں سمجھتا کہ ہم جو کہانیاں کرتے ہیں وہ اِس سماج سے کٹی ہوئی ہیں۔ وہ ہمیشہ سے اس سماج کا حصہ رہی ہیں۔’

‘آج بھی روزانہ کی ہیڈ لائنز میں آپ یہ خبر سنتے ہیں کہ بچے اغوا ہوتے ہیں اس ملک میں، خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، آپ جب اس پر کہانی بناتے ہیں تو آپ پر تنقید کی جاتی ہے۔’

آمنہ کے خیال میں خبرنامہ میں چلنے والی اصلی کہانیاں ڈراموں میں پیش کرنا ایک تشویش ناک بات ہے۔

آمنہ کہتی ہیں کہ ‘ہم بہت سی خبریں سُن رہے ہوتے ہیں جن میں عورتوں کے قتل یا ریپ ہو رہے ہیں، عورتوں پر تشدد ہورہا ہے، گھروں میں بدسلوکی ہورہی ہے۔ پھراصل زندگی کے اِن واقعات کو لے کر ڈرامے بن رہے ہیں۔ یہ بہت ہی خطرناک ٹرینڈ ہے۔’

انھوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘(ڈرامہ سیریل) کیسی تیری خود غرضی میں ہم نے دیکھا کہ یہ ٹرینڈ بلندیوں پہ پہنچ چکا تھا۔ شروع ہوا تھا کچھ سال پہلے ڈرامہ سیریل خانی کے ساتھ۔ اُس میں ایک ایسا ہیرو تخلیق ہوا جو بہت پُرتشدد تھا، بہت غصے والا تھا، بہت امیر تھا۔ آنے والے سالوں میں ہم نے دیکھا کہ بار بار ایسے ڈرامے بن رہے تھے جہاں پہ ’ٹاکسک لو سٹوریز‘ تھیں۔’

علی عمران چینلز کے دفاع میں کہتے ہیں کہ ‘ریٹنگز چینل کا ایندھن ہے۔تو ہم بہت زیادہ رسک لے نہیں سکتے۔ کیونکہ پھر ہمیں بھی مایوسی ہوتی ہے کہ ہم نے بہت محنت سے ایک کہانی بنوائی لیکن لوگوں نے اُسے اُس طریقے سے نہیں سراہا۔’

‘اب ہمیں یہ مارجن مل گیا ہے کہ جہاں ہم چار ایسے ڈرامے بنا رہے ہیں جن سے ریٹنگز ہمیں مل جاتی ہیں جو ایک ماس آڈیئنس کےلیے ہے تو ہم آہستہ آہستہ دوسری آڈیئنس بھی بنائیں جو تھوڑا سا حقیقت پسند اور حساس موضوعات پر ڈرامہ دیکھنا چاہتے ہیں۔’

’چینل کی دلچسپی ہوتی ہے صرف پیسہ‘

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی میں کئی ایسے ڈرامہ سیریل نشر کیے گئے جن کی کہانیاں گھسی پٹی ساس بہوؤں کی لڑائیوں اور سازشوں والی کہانیوں سے مختلف تھیں۔

اُن ممنوعہ موضوعات پر بات ہوئی جو معاشرے میں ہوتے ضرور ہیں لیکن اُن کے بارے میں ٹیلی وژن پہ کھلے عام بات کرنا مسئلہ کا باعث بن سکتا ہے۔ اِن ڈراموں میں سمی، اڈاری، باغی، دل نا امید تو نہیں، خدا میرا بھی ہے وغیرہ۔ پاکستان کے میڈیا ریگیولیٹری ادارے پیمرا نے بھی اِن میں سے کئی ڈراموں پر پابندی لگائی۔

یہ مشکلات اپنی جگہ لیکن کیا عوام اِس طرح کے اصلاحی پیغامات والے ڈرامے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ علی عمران کا موقف ہے کہ ‘اصلاحی پیغامات پر مبنی ڈرامے کم بزنس کرتے ہیں۔’

‘ہم نے بہت کوشش کی اس طرح کی مختلف کہانیاں بنانے کی لیکن اُنھیں قبولیت نہیں ملی۔ ایک حالیہ مثال ڈرامہ سیریل پنجرہ کی ہے۔ یقین کریں اُس ڈرامے پر ہمیں سوشل میڈیا پہ بہت تعریفیں سُننے کو ملتی ہیں لیکن اُس کی ریٹنگ بالکل بھی نہیں ہے۔ ٹیلی وژن کی آڈیئنس اُس کو نہیں دیکھ رہی۔’

علی عمران پچھلے پندرہ سال سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے منسلک ہیں۔ میں نے اُن سے جاننا چاہا کہ آیا ایک ڈرامہ بنانے کے پیچھے چینل کی کیا دلچسپی اور موٹیویشن ہوتی ہے۔ جواب میں انھوں نے مُسکراتے ہوئِے کہا کہ ‘چینل کی موٹیویشن یا دلچسپی ہوتی ہے صرف پیسہ۔’

غیر معیاری اور غیر ذمہ دارانہ کہانیوں پر مبنی ڈراموں میں کام کرنے والے اداکار بھی اکثر تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ آیا اُن پر کتنی ذمہ داری ڈالی جا سکتی ہے۔

احسن خان کہتے ہیں کہ ‘پاکستان میں جن فنکاروں کا گھر اسی کام سے چلتا ہے اُن کو اپنی مرضی یا مرضی کے بغیر ایسا کام کرنا پڑ ہی جاتا ہے۔ تو اُن پر تنقید کرنا مناسب نہیں ہے۔’

احسن خان اکثر ایسے ڈراموں میں نظر آتے ہیں جن کا مقصد اصلاح یا پھر مکمل تفریح ہوتا ہے۔ البتہ وہ دیگر اداکاروں کے دفاع میں کہتے ہیں کہ ’کچھ اداکاروں کو ’سٹیریوٹائپ رولز‘ اس لیے ملتے ہیں کیونکہ وہ اُسی میں اچھے لگتے ہیں۔ کچھ اداکاروں پہ رومانوی ہیرو یا ہیروئن یا منفی کردار اچھا لگتا ہے، لوگ پسند کرتے ہیں تو اُنھیں ٹائپ کاسٹ کیا جاتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’یہاں تو شادی کے لیے ہر کسی کو اٹھارہ، انیس سال کی لڑکی چاہیے‘

صنم جنگ: ’ڈرامہ پیاری مونا میں کردار کے لیے 20 کلو وزن بڑھایا، شوٹنگ کے وقت کوئی پہچان نہ پایا‘

سرکاری ملازمت چھوڑ کر ایکٹر بننے والے راشد فاروقی: ’پاگل واگل تو نہیں ایکٹنگ سے بھی کوئی کماتا ہے‘

کیا حالیہ تبدیلی دیرپا ثابت ہوگی؟

اس ضمن میں آمنہ حیدر عیسانی ذرا مایوس نظر آئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘فارمولا نہیں بدلےگا جب تک آپ کی ٹارگٹ آڈیئنس نہیں بدلے گی اور آڈیئنس کیسے بدلے گی کیونکہ آپ کی نوجوان نسل کو بالکل بھی ٹارگٹ نہیں کیا جا رہا۔

اکثریت میں آپ کی جو پڑھی لکھی کلاس ہے اُسے ٹارگٹ نہیں کیا جارہا۔

ہمیں اُن کو ٹارگٹ کرنے کی ضرورت ہے جو او ٹی ٹی پلیٹ فارمز جیسے کہ نیٹفلکس، پرائم وڈیو یا آن لائن دستیاب کانٹینٹ کی طرف جارہے ہیں۔ اور اگر عوام کو ٹارگٹ کررہے ہیں تو جب تک عوام میں لٹریسی ریٹ یعنی خواندگی کی شرح نہیں بڑھے گی، اُس وقت تک اُن کو یہی چیزیں اپیل کریں گی چاہے وہ خواتین کے خلاف تشدد ہو، ظلم و ستم ہو، یا ساس بہو کی کہانیاں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments