غلام پنجابی ٹولہ بمقابلہ آزاد محسود پشتون


ایک مرتبہ پھر پاکستانی طالبان کی دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر حکومت کی طرف سے کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آ رہا ہے کہ اس دہشت گردی کو کس طرح روکا جائے۔ کسی گروہ کی جارحیت کا مقابلہ کرنے سے قبل یہ ضروری ہوتا ہے کہ مد مقابل کی ذہنیت کا تجزیہ کیا جائے اور اس کی سوچ کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنائی جائے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے لوگ پاکستانی طالبان میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اس گروہ کا سب سے زیادہ انحصار سابقہ قبائلی علاقہ کے لوگوں کو بھرتی کرنے پر رہا ہے۔ اور اس علاقہ میں سے محسود قبیلہ کے افراد سب سے زیادہ اس گروہ کی قیادت کرتے رہے ہیں اور اس کے بعد مہمند ایجنسی کا کردار نظر آتا ہے۔ پاکستانی طالبان کے پہلے دو امراء محسود قبیلہ سے تھا۔ اس کے بعد ایک امیر کا تعلق سوات سے تھا۔ اور اس دور میں قبائلی علاقہ سے تعلق رکھنے والے طالبان کا ایک گروہ علیحدہ بھی ہوا تھا۔ اور اب موجودہ سربراہ نور ولی محسود کا تعلق بھی محسود قبیلہ سے ہے۔

اس کا لم میں ہم اس رجحان کا جائزہ لیں گے۔ اور اس غرض کے لئے پاکستانی طالبان کی موجودہ سربراہ نور ولی محسود کی کتاب ’انقلاب محسود فرنگی راج سے امریکی سامراج تک‘ کے چند حوالے پیش کرتے ہیں پھر کچھ تاریخی حقائق سامنے رکھ کر حقیقت جاننے کی کوشش کریں گے۔ اس کتاب کے صفحہ 36 پر مصنف نے بہت فخر سے ان جنگوں کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں جن میں محسود قبیلہ نے انگریزوں کو شکست دی۔ اور تفاصیل بیان کی ہیں کہ بہادر محسودوں نے کتنے انگریزوں کو قتل کیا۔ جو تعداد بمعہ ناموں کے انہوں نے تحریر کی ہے وہ اتنی معمولی ہے کہ سو سال شمشیر زنی کے جوہر دکھانے کے بعد اتنی معمولی تعداد پر فخر کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔

لیکن اس بنا پر وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں

’یہی تو قبائل کا خاصہ ہے جس نے اپنے آپ کو ہر حال میں آزاد و نا قابل تسخیر بنا رکھا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ نہ اس میں گھاس اگتی ہے، نہ اس میں پھول کھلتے ہیں مگر اس سرزمین سے آسمان بھی جھک کر ملتے ہیں، ‘ (صفحہ 38 )

ان کے نزدیک اس مسلح جد جہد کا مقصد اپنے علاقوں کو جمہوریت سے بچانا تھا اور ان کے نزدیک جمہوریت اور لا دینیت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اس کتاب میں لکھا ہے

’اس وقت قبائل اور افغان نے برطانیہ سے لڑ کر اس کے جمہوری لا دین افکار کو شکست دی، قبائل اور افغان نے اپنے معاشرے کو لا دین جمہوری افکار سے بچایا۔ ‘ (صفحہ 102 )

یہ لکھنے کے بعد کہ قبائلی علاقہ کی زمین شیروں کا مسکن ہے وہ لکھتے ہیں کہ جب مسلمان ممالک لادینی نظام کو قبول کر رہے تھے، وہ ہم ہی تو تھے جو کہ اس نظام کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ صفحہ 116 پر یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ قبائل پر آج تک کسی نے حکومت نہیں کی ہے اور یہ علاقہ ہمیشہ سے خود مختار رہا ہے۔ قبائلی پشتونوں کی بہادری اور حریت کے موضوع پر زمین آسمان کے قلابے ملانے کے بعد وہ پنجابیوں پر طنز کرنا نہیں بھولتے۔ وہ لکھتے ہیں۔

’پنجاب کا پڑھا لکھا آدمی مروت، غیرت، دینداری اور باوقاری میں ان پڑھ پٹھان کے برابر نہیں ہو سکتا۔ جتنا قابل قیادت طبقہ پشتون قوم میں ہے کسی اور قوم میں نہیں۔ دلیل کے لئے قیادت کے اوصاف جا کر دیکھیں۔ دوسری قوموں کی غلامی کرنے میں اور قیادت کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ‘ (صفحہ 129 )

اس مرحلہ پر پہنچ کر پنجابیوں پر پشتون نسلی برتری کی بلی مکمل طور پر تھیلے سے باہر آجاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں

’ انگریز ناکام ہوا۔ اب پنجابی لابی اس آزادی کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ‘ (صفحہ 133 )

ان کا موقف یہ ہے کہ غیرت دینداری قائدانہ صلاحیتیں حریت اور وقار تو پٹھانوں اور خاص طور پر قبائلی پٹھانوں کے نمایاں اوصاف ہیں۔ یہ غلامی کرنے والا پنجابی ٹولہ کیا جانے کہ حریت کس چڑیا کا نام ہے؟

یہ بڑھکیں درج کرنے کے بعد ہم تاریخ کی کچھ جھلکیاں پیش کرتے ہیں۔ اور یہ جھلکیاں صرف مصنف کے قبیلے کی تاریخ سے پیش کی جائیں گی۔

اس کالم میں ہم ان معاہدوں کا جائزہ لیں گے جو کہ 1873 اور اس کے بعد انگریز افسروں اور محسود قبیلہ کے درمیان ہوئے۔ 1873 میں شامان خیل محسود اور ان افسران کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے شروع میں ہی لکھا ہے کہ برطانوی حکومت کے ساتھ ہمارے قبیلے کی دشمنی رہی ہے لیکن اب
Hereby submit to British Government

یعنی اب ہم برطانوی حکومت کی اطاعت قبول کرتے ہیں۔ اب ہم حکومت سے دوستانہ تعلقات رکھیں گے۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ ہم ضمانت کے طور پر اپنے بیس نمایاں افراد کو ڈیرہ اسماعیل خان میں برطانوی حکومت کے پاس یرغمال رکھوائیں گے جنہیں حکومت دس سے پندرہ روپیہ ماہوار وظیفہ دے گی۔ اور ہمارا قبیلہ اپنے سابقہ جرائم کی تلافی کے لئے تین ہزار روپیہ جرمانہ ادا کرے گا۔ اور اگر اب اس قبیلہ کے کسی شخص نے برٹش علاقہ میں لوٹ مار یا چوری کی تو گروی رکھے گئے شخص کی ذمہ داری ہو گی کہ لوٹ کا مال واپس دلوائے۔

اس کے بعد 1874 میں بہلول زئی محسود اور انگریز حکمرانوں کے درمیان معاہدہ ہوا۔ اس کے شروع میں بھی یہی لکھا تھا کہ ہم سابقہ تصادم ترک کر کے اب برطانوی حکومت کی فرمانبرداری اختیار کرتے ہیں اور اس تسلی کے لئے کہ اس کے بعد ہمارے طرف سے کوئی شرارت نہیں ہو گی ہم اپنے 33 اہم افراد انگریزوں کے پاس گروی رکھواتے ہیں۔ اور اگر ان میں سے کوئی شخص اپنے گھر جائے گا تو اپنی جگہ اپنے بھائی یا بیٹے کو گروی رکھا کر جائے گا۔ اور بہلول زئی محسود نے اپنی سابقہ کارروائیوں کی تلافی کے طور پر برطانوی حکومت کو سات ہزار روپے کی رقم دینے کا عہد کیا۔ اور عہد کیا کہ اگر اس کے بعد ہمارے میں کسی فرد نے کسی برطانوی رعیت کو پتھر بھی مارا تو ہم چھ سو روپیہ بطور جرمانہ ادا کریں گے۔

پھر 1902 میں محسود قبیلہ کی تینوں شاخوں نے برطانوی حکومت کو ایک مشترکہ درخواست بھیجی اور اس میں لکھا کہ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہم برطانوی حکومت کو خراج ادا کر رہے ہیں اور اس کے بعد اس درخواست میں لکھا

We trust that in future Government will regard us as their own subjects and treat us with kindness.
ترجمہ: ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں حکومت ہمیں اپنی رعایا سمجھے گی اور ہم سے مہربانی کا سلوک کرے گی۔

اور اس کے بعد لکھا ہے کہ ہم باقاعدگی سے خراج ادا کرتے رہیں گے۔ ریکارڈ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ صرف چند ملک انگریزوں کے ساتھ مل گئے تھے اور باقی قبائلی انگریزوں کے خلاف جہاد کر رہے تھے اور حکومت کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے۔

اس دور میں بھی یہ علاقے حکومت کے نقطہ نگاہ سے زیادہ پر امن نہیں رہے اور ہر کچھ عرصہ بعد یہاں امن و امان کا چھوٹا موٹا مسئلہ پیدا ہوتا رہا ہے۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ لیکن ان کاغذات سے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہاں انگریزوں کی پالیسی کو کامیابی ملی تھی اور ان معاہدات کے پیچھے قبائلی لوگوں کی مرضی شامل تھی۔ کیونکہ 5 اپریل 1902 کو محسود قبیلہ اور انگریز افسروں نے ایک اور تحریر پر دستخط کیے ۔ اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت نے محسود قبیلہ کا وظیفہ مقرر کر دیا ہے اور محسود قبیلہ کے جرگہ نے جو کہ تمام قبیلہ کی نمائندگی کر رہا ہے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ قبیلہ برطانوی حکومت کا وفادار رہے گا اور ہماری طرف سے وانا، ٹوچی گومل پاس، ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقوں اور تمام راستوں پر کوئی جرم نہیں کیا جائے گا۔

اور ہم راستوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے اور جو کوئی جرم کرے گا ہم اسے راستہ تک نہیں دیں گے۔ اور اگر ہم کسی طرح بھی اس معاہدے کی خلاف ورزی کریں تو حکومت کو یہ حق حاصل ہو گا کہ ہمارے خلاف جس طرح چاہے کارروائی کرے۔ اس کے بعد یہ تفصیلات درج ہیں کہ برطانوی حکومت جو وظیفہ دے گی اسے کس طرح تقسیم کیا جائے گا۔ اس پر چودہ سو سے زائد افراد کے دستخط ہیں جو کہ برطانوی حکومت سے وفاداری کا یہ عہد کر رہے تھے۔

اس کے بعد بھی محسود قبیلہ اور دوسرے قبائل بھی برطانوی حکمرانوں سے وفاداری اور تعاون کے عہد و پیمان کرتے رہے۔ ہندوستان ایک وسیع علاقہ تھا جس میں کئی ملک سمائے ہوئے تھے۔ مختلف علاقوں پر برطانوی حکمران مختلف طریقوں سے حکومت کر رہے تھے۔ کہنے کو تو کئی سو ریاستیں بھی تھیں جو کہ نام نہاد آزاد تھیں لیکن ان کے حکومت سے ایسے معاہدے تھے جن کی بنا پر یہ ریاستیں عملی طور پر برطانوی حکومت کے تسلط میں ہی تھیں۔ اسی طرح قبائل کا علاقہ ایسا نہیں تھا جہاں سے حکومت کو زیادہ مالی منفعت حاصل ہو سکے تو یہاں کے علاقہ پر حکومت کرنے کے لئے انگریزوں نے مختلف طریقہ استعمال کیا تھا۔ یہ کاغذات برٹش لائیبریری اور قطر ڈیجیٹل لائیبریری میں محفوظ ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ یہ دعوے غلط ہیں کہ قبائلی علاقہ کے لوگوں نے انگریزوں کو شکست دے کر بھگا دیا تھا۔ یہاں کے قبائل نے خود اس حکومت کے تابع اور فرمانبردار ہونے کے معاہدے کیے تھے۔ اپنے سرداروں کو گروی بھی رکھوایا تھا۔ انہیں جرمانے بھی ادا کیے تھے اور ان سے مالی وظائف بھی وصول کیے تھے۔

ایک امریکی مصنف کا قول ہے
A generation which ignores history has no past and no future
یعنی جو نسل تاریخ کو نظر انداز کر دے اس کا نہ کوئی ماضی ہے اور نہ کوئی مستقبل۔
مستقبل میں ماضی کی غلطیاں دہرانے سے بچنے کے لئے اپنی صحیح تاریخ کا علم ہونا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments