آپ نے محبت کی قوس قزح کے کتنے رنگ دیکھے ہیں؟


علی حسن اویس کا ڈاکٹر سہیل کو خط
جناب مکرمی ڈاکٹر خالد سہیل!

آپ مجھے نہیں جانتے مگر میں آپ کو جانتا ہوں اور پچھلے تقریباً تین سال سے جانتا ہوں۔ میرا آپ سے پہلا تعارف ”ہم سب“ پر مضمون بعنوان ” کارل مارکس ایک وفادار انقلابی اور بے وفا شوہر“ سے ہوا اور تب سے آج تک آپ کی تحریروں کا منتظر رہتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ آپ کا تعارف صرف الفاظ اور ان میں مقید معلومات تک ہی محدود ہے۔ اس نامکمل تعارف کے باوجود آپ کا چاہنے والا ہوں۔ ( گمنام)

ایک سوال آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جو پچھلے تین ماہ سے مجھے مسلسل بے چین کیے ہوئے ہے۔ یونی ورسٹی کے ساتھیوں سے لے کر اساتذہ تک ہر ایک سے یہی سوال کر چکا ہوں مگر ہنوز تشفی بخش جواب کا منتظر۔ سوال یہ ہے۔

وہ کیا ذہنی احساسات ہیں جو محبت اور جنسی ہوس میں حد تفاوق کھینچتے ہیں؟ کیا ہوس کے بغیر محبت کی جا سکتی ہے؟ محبت ایک جذبہ ہے، تو کیا ہوس بھی ایک جذبہ ہے؟ اگر جذبہ ہے تو کیا اسے فنا کیا جاسکتا ہے؟ (فرائیڈ نے جس طرح ہر عمل کو جنس سے جوڑا ہے، یہ سوال میرے لیے مزید مشکل کا باعث بن گیا ہے۔ )

سر امید کرتا ہوں کہ آپ کے الفاظ میری بے چینی اور بے قراری کو کم کرنے میں مددگار ہوں گے۔
علی حسن اویس
جی سی یونیورسٹی، لاہور
بدھ، 22 فروری 2023 ء
۔ ۔ ۔
ڈاکٹر سہیل کا جواب
۔ ۔
محترمی و مکرمی علی حسن اویس صاحب!
یہ میرے کالموں کی خوش بختی کہ انہیں آپ جیسا ذہین اور حساس قاری ملا۔

آپ کے سوال دلچسپ اور گمبھیر ہی نہیں پیچیدہ اور دشوار بھی ہیں۔ شاید اسی لیے آپ کو ان سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں ملے۔

محبت ایک انسانی تجربہ ہے اور ہر انسان کا محبت کا تجربہ دوسروں سے مختلف ہے بلکہ ایک ہی رشتے میں دو محبوباؤں کا محبت کا تجربہ ایک دوسرے سے مختلف ہے شاید اسی لیے مختلف لوگ اس کے لیے مختلف الفاظ استعمال کرتے ہیں

کوئی اسے چاہت کہتا ہے کوئی عشق کوئی ہوس کہتا ہے کوئی پیار۔
محبت تو ایک قوس قزح کی طرح ہے اس کے کئی رنگ ہیں۔
محبت کی واردات انسان کی سوچ ’اس کی فکر‘ اس کی شخصیت اور اس کے فلسفہ حیات پر مبنی ہوتی ہے۔
کسی کو ماں باپ سے محبت ہوتی ہے کسی کو بچوں سے
کسی کو اپنے کام سے محبت ہوتی ہے کسی کو اپنے فن سے
دو انسانوں میں رومانوی محبت تو محبت کی صرف ایک قسم ہے

میری نگاہ میں محبت صرف جذبے یا احساس کا نام ہی نہیں بلکہ ایک مستقل عمل کا ایک خصوصی تعلق کا اور ایک طرز زندگی کا نام بھی ہے۔

میں نے آج تک محبت کی جتنی تعریفیں سنی ہیں ان میں سے مجھے امریکی ماہر نفسیات ہیری سٹاک سالیوان کی تعریف سب سے زیادہ پسند آئی ہے وہ فرماتے ہیں

جب ایک انسان کو دوسرے انسان کے دکھ سکھ اپنے دکھ سکھ کے برابر اہم محسوس ہونے لگیں تو اسے جان لینا چاہیے کہ وہ محبت کے رشتے میں داخل ہو گیا ہے۔ چاہے وہ اس کا اظہار کرے یا نہ کرے۔

جہاں تک دو انسانوں کے درمیان جنسی تعلق کا معاملہ ہے تو مختلف لوگ مختلف توقعات کی وجہ سے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں۔ میں نے انہیں تین خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔

3Rs
FIRST R FOR REPRODUCTION
روایتی جوڑے بچے پیدا کرنے کے لیے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں۔ وہ خاندان بنانا چاہتے ہیں۔

SECOND R FOR RELATIONSHIP
ایسے جوڑے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ان کے جنسی تعلقات ان کی محبت کا جسمانی اظہار ہوتے ہیں اور اگر جنسی تعلقات ختم بھی ہو جائیں تو ان کی محبت کا رشتہ قائم رہتا ہے۔

THIRD R FOR RECREATION
ایسے جوڑے فقط تفریح کے لیے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں جیسے دو دوست ڈنر کرنے یا آئس کریم کھانے چلے جائیں۔

چونکہ ایسے تعلقات میں نہ روایتی محبت ہوتی ہے نہ خاندان بنانے کی خواہش اس لیے بہت سے لوگ ایسے رشتے کو ہوس کا نام دیتے ہیں۔

میری نگاہ میں دو عاقل و بالغ انسانوں کا جذباتی و جسمانی رشتہ ان کا ذاتی عمل ہے۔ اس میں دوسرے لوگوں کو دخل اندازی کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔

بدقسمتی سے ہم ایک ایسے منافق معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں لوگ اپنے اخلاقی و مذہبی و روایتی گناہ و ثواب کے معیار دوسروں پر مسلط کرنے پر مصر ہوتے ہیں اور اگر وہ نہ مانیں تو ان پر فتوے لگا کر ان کو سنگسار کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اس موضوع پر بے تکلفی سے گفتگو کرنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔

محبت کے رشتوں میں اہم بات یہ ہے کہ کیا مباشرت کا جنسی رشتہ باہمی رضامندی سے ہوا ہے یا نہیں۔ اگر باہمی رضامندی سے نہیں ہے تو شادی شدہ جوڑوں میں بھی ناقابل قبول ہے۔ المیہ یہ ہے کہ نجانے کتنی بیویاں اپنے شوہروں کے ساتھ اپنی مرضی کے بغیر سوتی ہیں اور جب شوہر اپنی جنسی تسکین کرنے کے بعد خراٹے لے رہے ہوتے ہیں تو وہ رات کے اندھیرے میں اپنے دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھتی رہتی ہیں۔

محبت ایک زندہ جذبہ ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور مر بھی سکتا ہے۔

محبت ایک آزاد پرندے کی طرح ہے اگر اسے ایک روایتی شادی کے پنجرے میں بند کر دیا جائے تو کچھ عرصے کے بعد وہ دکھی اور اداس ہو جاتا ہے۔ پہلے پھڑپھڑاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے۔ نجانے کتنے شادی شدہ لوگ اپنی مری ہوئی محبت کی لاش کو کندھے پر اٹھائے برسوں پھرتے رہتے ہیں اور مسکرانے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔

جہاں تک فرائڈ کے نظریات کا تعلق ہے بدقسمتی سے ان کے کئی اہم نظریات سطحی بلکہ غلط تراجم کی نظر ہو گئے۔

فرائڈ جب لیبیڈو
LIBIDO
کی بات کرتے ہیں تو کہیں ان کی مراد
جنسی توانائی SEXUAL ENERGY
ہوتی ہے اور کہیں
زندگی کی توانائی LIFE ENERGY
لیکن بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زندگی کے ہر عمل کا تعلق جنس سے جوڑتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

فرائڈ انیسویں صدی میں یورپ میں پلے بڑھے جہاں وکٹورین اخلاقیات کی وجہ سے جنسی جذبات کو اظہار کی اجازت نہیں تھی اس لیے انہیں لاشعور میں دھکیل دیا جاتا تھا جن کی وجہ سے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے تھے۔

فرائڈ کا کہنا تھا کہ اگر ہم اپنے جنسی جذبات کو خوش آمدید کہیں انہیں زندگی کا حصہ سمجھیں اور ان کے اظہار کے صحت مند طریقے ڈھونڈیں تو ہم نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔

میری نگاہ میں
جنسی جذبات انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔
کسی دوسرے انسان کی طرف رومانوی کشش ایک فطری عمل ہے۔

ہمیں اپنے نوجوانوں کو ان جذبات کا صحتمند اور تخلیقی اظہار سکھانا ہو گا جس کا ایک طریقہ فنون لطیفہ سے آشنائی ہے۔

منافق معاشرے میں فطری جنسی جذبات و اظہار کو بھی بے حیائی سمجھا جاتا ہے۔

منٹو پر جب اعتراض کیا گیا کہ
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

تو منٹو نے فرمایا کہ اگر کبوتر کبوتری کو دیکھ کر گٹکتا ہے اور گھوڑا گھوڑی کو دیکھ کر ہنہناتا ہے تو اگر میں عورت کے بارے میں افسانے لکھتا ہوں تو اس میں مضائقہ کیا ہے۔

چونکہ منٹو کے افسانے طوائفوں کے بارے میں تھے اس لیے رد کر دیے گئے۔ وہ منٹو ہی تھے جنہوں نے ہمیں عورت کی عزت کرنا سکھایا اور ہمیں بتایا کہ ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔

اگر ہم عورت سے ملیں گے نہیں دوستی نہیں کریں گے تو اس سے محبت کا اظہار کرنا کیسے سیکھیں گے۔ دو اجنبیوں کے ایک مولوی کے سامنے دو بول پڑھنے سے تو محبت کے اظہار کا فن آنے سے رہا۔

اسی لیے ہم محبت اور ہوس میں فرق نہیں کر پاتے۔
ہمیں یوں لگتا ہے کہ اگر رومانوی رشتہ عارضی ہے تو ہوس ہے اور دائمی ہے تو محبت ہے۔

ہم یہ نہیں جانتے کہ کسی کی غیر روایتی مخلص گہری محبت کا پانچ منٹوں۔ پانچ گھنٹوں۔ اور پانچ دنوں کا تجربہ کسی کی پانچ دہائیوں کی روایتی سطحی محبت سے بہتر ہو سکتا ہے کیونکہ

ایک چاہت جو عارضی سی لگے
اس کی تاثیر جاودانی ہے

علی حسن اویس صاحب!
ART IS LONG AND TIME IS SHORT
یہ موضوع بہت وسیع ہے اور وقت بہت کم۔
میں نے مطلع سنا دیا ہے پوری غزل کے لیے میری تصنیف پڑھنی پڑے گی۔
میں نے اس موضوع پو ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے
THE ART OF LOVING IN YOUR GREEN ZONE

جس میں میں نے صحتمند اور غیر صحتمند محبت پر بھرپور گفتگو کی ہے۔ اگر آپ یا ’ہم سب‘ کا کوئی اور قاری اسے پڑھنا چاہے تو مجھے

welcome@drsohail.com
پر ای میل کر دے میں اس کی پی ڈی ایف کاپی تحفے کے طور پر بھیج دوں گا۔

میرے کالموں کو سنجیدگی سے پڑھنے اور اپنے دلچسپ سوالوں سے مجھے ایک اور کالم لکھنے کی تحریک دینے کا شکریہ

آپ کا ادبی دوست
خالد سہیل
۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 608 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments