پچاس روپے کا سفر – مکمل کالم


لاہور سے سوات کے لیے گھر سے نکلے تو اندازہ نہیں تھا کہ یہ سفر شیطان کی آنت ثابت ہو گا، اصل میں قصور ہمارا اپنا تھا، موٹر وے لینے کی بجائے ہم نے اپنی پرانی محبت یعنی جی ٹی روڈ کو ترجیح دی، اکثر جب ہمیں ناسٹلجیا کا دورہ پڑتا ہے تو ہم جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہیں، اِس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہوا مگر لگتا ہے کہ اب ہمیں اِس محبوبہ کے ساتھ بریک اپ کرنا پڑے گا۔

ہوا یوں کہ لالہ موسیٰ کے قریب یک دم جی ٹی روڈ سے گاڑیاں واپس مُڑنے لگیں تو ہمارا ماتھا ٹھنکا، تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ آگے کسی گاؤں میں قتل ہوا ہے اور مقتول کے ورثا نے سڑک بلاک کر رکھی ہے، ہم نے بھی گاڑی واپس موڑ کر کچے میں ڈال دی جہاں سب گاڑیاں جا رہی تھیں، کچھ دور جا کر دیکھا تو سب گاڑیاں ادھر ادھر غائب ہو چکی تھیں اور صرف ہماری گاڑی ’ڈیڈ اینڈ‘ پر کھڑی تھی۔ وہاں لوگوں سے راستہ پوچھا تو ایک مرد عاقل نے، جس کی شکل مہاتما بدھ سے ملتی تھی، بتایا کہ آپ گنجا موڑ کے راستے جائیں، وہیں سے آپ کو کھاریاں کے قریب دوبارہ جی ٹی روڈ مل جائے گی۔ اُس کا کہا صحیح ثابت ہوا مگر اِس اضافی سفر میں ہمیں دو گھنٹے لگے اور ہم دوبارہ جی ٹی روڈ پر واپس آ گئے۔

یہ چونکہ ’فیملی ٹرپ‘ تھا اِس لیے ہم نے ویگن کرائے پر لے ہوئی تھی، ویگن کے ڈرائیور کی شکل امریکی اداکار سکیٹ اُلرِک سے ملتی تھی، اگر اسے نہلا دھلا کر سرخی پاؤڈر لگایا جاتا اور ڈھنگ کے کپڑے پہنائے جاتے تو ہو بہو وہی لگتا۔ اُس کو اپنا چالان کروانے کا بہت شوق تھا، لاہور سے نکلتے وقت ہم ایک کھوکھے پر کچھ دیر کے لیے رکے کہ وہاں سے نان چنے کھائیں تو اُس نے چھ سو روپے کا چالان ہمارے ہاتھ میں تھما دیا، کہنے لگا یہ روٹ پرمٹ والوں نے کیا ہے، ہم نے کہا کہ کسی نے روکا ہی نہیں تو چالان کیسے ہو گیا، بڑی رسان سے بولا کہ وہ لوگ یہیں کھڑے ہوتے ہیں اور مجھے پہچانتے ہیں۔ اُس کے بعد موصوف نے گوجرانوالا داخل ہونے سے پہلے اعلان کیا کہ یہاں بھی ہمارا چالان ہو گا کیونکہ شہر میں شام سے پہلے بڑی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے، ایک جگہ تو اُس نے ٹریفک پولیس کے سپاہی کو دیکھ کر بریک بھی لگانی چاہی مگر پھر میرے چھوٹے بھائیوں جیسے کزن سید کاشف عزیر نے اسے سمجھایا کہ عزیزم اگر اُس شریف آدمی نے آپ کو نہیں روکا تو آپ کیوں اپنے پیر پر کلہاڑی مار رہے ہیں، چلتے رہیے۔ ڈرائیور نے بادل نخواستہ گاڑی سڑک پر ڈال دی مگر آگے چل کر یہی حرکت جناب نے راولپنڈی اور سوات میں بھی کی، کسی نے اسے رکنے کے لیے نہیں کہا مگر اُس نے خواہ مخواہ گاڑی ناکے پر لے جا کر روک دی۔

کاشف عزیر کو ہم نے گوجرانوالہ سے اٹھایا تھا، موصوف کے دو ہی شوق ہیں، اچھے کھانے اور پرانی گاڑیوں کی تلاش۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ اُسے یوں سونگھتے ہیں جیسے آدم خور جِن انسان کی بُو سونگھتا ہے۔ ہماری ویگن میں بیٹھتے ہی موصوف نے اعلان کیا کہ بھائی جان اِس کی سسپنشن ٹھیک نہیں، اسے فوراً گریس دینے کی ضرورت ہے، یہاں ساتھ ہی میرا مکینک ہے، ہم گاڑی ورکشاپ لے جا کر کھڑے کھڑے یہ کام کروا لیتے ہیں، وہ تو شکر ہے کہ جمعہ کا دن تھا، ورکشاپ بند ملی ورنہ کاشف نے وہیں پوری گاڑی کھلوا لینی تھی۔

مینگورہ میں داخل ہوتے ہوتے رات کے آٹھ بج گئے، جس ہوٹل میں ہماری بکنگ تھی وہ دریا کے کنارے تھا۔ مینگورہ میں زیادہ تر ہوٹل دریا کے ساتھ ہیں، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہوٹلوں کی قطار دیکھ کر لاس ویگاس کی ’سٹرپ‘ یاد آ گئی، ہم غریبوں کا گزارا اب اسی سٹرپ پر ہے۔ اِس دریا میں گزشتہ برس سیلاب کی وجہ سے بہت سے ہوٹلوں کو نقصان پہنچا تھا اور اِس کی وجہ غیر قانونی تعمیرات تھیں، اب وہاں بند باندھنے کا کام ہو رہا ہے، تعمیرات بھی مسمار کر دی گئی ہیں، امید ہے کہ آئندہ ایسی تباہی نہیں ہو گی۔

مینگورہ جیسے شہروں میں ہوٹل تو بہت ہوتے ہیں مگر اُن میں جدیدیت نہیں ہوتی، شہری قسم کا بندہ اُن مقامی ہوٹلوں میں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا، وہ ایک خاص قسم کی برینڈنگ کا عادی ہوتا ہے جو اِن دیسی طرز کے ہوٹلوں میں اسے نہیں ملتی، ایسے میں پھر فائیو سٹار ہوٹل ہی بچتے ہیں مگر وہ اب بے حد مہنگے ہوچکے ہیں، جس ہوٹل میں ہم نے پچھلے سال قیام کیا تھا اُس کا کرایہ تین گنا بڑھ چکا ہے۔ ایسے میں کراچی کے کسی شخص نے کمال کا کاروبار شروع کیا ہے، اُس نے پاکستان کے چودہ شہروں میں مقامی ہوٹلوں کے ساتھ شراکت کر کے اُن سے کچھ کمرے حاصل کیے اور اُن کمروں کی برینڈنگ کر کے انہیں شہری مسافروں کے لیے قابل قبول بنا دیا۔

یہ کمرے مناسب پیسوں میں دستیاب ہیں، انہیں آپ بجٹ ہوٹل کہہ سکتے ہیں۔ ہم ایسے ہی ایک ہوٹل میں ٹھہرے، یہاں صرف ناشتے کی سروس اتنی عمدہ نہیں تھی باقی سب بہترین تھا، ناشتے کے لیے انہوں نے ایک تیسرے ریستوران سے معاہدہ کر رکھا تھا جو فی کس کے حساب سے اُن کا شراکت دار تھا۔

اگلے روز ہم مالم جبہ گئے، بلاشبہ یہ پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے، یہاں برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں پر آپ سکینگ بھی کر سکتے ہیں، اُس کے لیے تمام اشیا یہاں دستیاب ہیں، اِس کے علاوہ چئیر لفٹ اور زپ لائن بھی موجود ہے، اِن تفریحات کے لیے لوگ یورپ جاتے ہیں جبکہ اپنے ہاں اب بھی یہ سب کچھ کم پیسوں میں ممکن ہے۔ زِپ لائن کے لیے پہلے آپ چئیر لفٹ کے ذریعے اونچائی تک جاتے ہیں اور پھر وہاں سے کمر پر زنجیر کس کر پہاڑوں کے درمیان تقریباً پرواز کرتے ہوئے فائیو سٹار ہوٹل کی چھت پر اترتے ہیں۔ یہ کام کرتے ہوئے پہلے تو مجھے کچھ خوف محسوس ہوا مگر پھر نیچے دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اگر نیچے گر بھی گیا تو ایک آدھ ہڈی تو شاید ٹوٹ جائے پر جان بچ جائے گی۔

سوات میں سیکورٹی کا بندوبست تسلیٰ بخش تھا، مالم جبہ کے ہوٹل میں تو خاصی سختی تھی، اُس کے باہر بھی پولیس والے تعینات تھے۔ ایک بات جو مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی وہ سوات کی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ہیں۔ یہاں ہر شخص کے پاس سمگل شدہ گاڑیاں ہیں اور وہ اُن پر اپنی مرضی کا نمبر لگا کر پھرتا ہے، جیسے دادا 1، خان 786 وغیرہ۔ چپے چپے پر غیر قانونی شو روم ہیں جہاں سمگلنگ کی گاڑیاں اونے پونے داموں مل جاتی ہیں، کسی گاڑی کے کوئی کاغذات نہیں ہیں، جس کے پاس چابی وہی گاڑی کا مالک، جو گاڑی لاہور میں تیس لاکھ کی ہے وہ سوات میں آٹھ لاکھ میں مل جاتی ہے، کروڑوں کی گاڑیاں یہاں چند لاکھ میں دستیاب ہیں، یہ لوگ آپ کو گاڑی پہنچانے کی ضمانت بھی دیتے ہیں، اُس کے بعد آپ کا ذمہ۔ یہ سب کاروبار کیوں اور کیسے چل رہا ہے، یہاں قانون لاگو کیوں نہیں ہوتا، مجھے اِس کا علم نہیں۔

کووڈ کے بعد پاکستان میں مقامی سیاحت کو خاصا فروغ ملا تھا، میرا اندازہ ہے کہ مقامی سیاحت میں اب بھی وسیع امکانات موجود ہیں، ہمارے ہاں کا ’اربن ٹریولر‘ یہ چاہتا ہے کہ جب وہ شمالی علاقہ جات، سندھ، بلوچستان یا چولستان کا سفر کرے تو راستے میں صاف ستھرے کیفے، ریستوران اور واش روم ملیں، چھوٹے شہروں میں رہائش کے لیے جدید طرز کے بجٹ ہوٹل ہوں اور سب سے بڑھ کر تحفظ کا احساس ہو۔ پاکستان میں شاہراہوں کا نظام خاصا عمدہ ہے، دور دراز علاقوں تک بھی موٹر وے یا ایکسپریس وے مل جاتی ہے، اگر سیاحتی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو پاکستان کی مقامی سیاحت کو مزید فروغ مل سکتا ہے۔

یہ باتیں تو میں نے لکھ دی ہیں مگر یہ نہیں لکھا کہ اگر یہ سب کچھ ہو بھی جائے تو اُس غربت کا کیا کریں گے جو ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، اربن ٹریولر ہی تو سب کچھ نہیں، غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے بھی تو اسی ملک کے شہری ہیں، لاہور سے سوات تک کے سفر میں ہم جہاں بھی رکے، کوئی نہ کوئی بچہ ہمارے سامنے ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہوجاتا اور کہتا ’پچاس روپے۔ ‘ پچھتر برس ہو گئے، ہم اِن پچاس روپوں کا انتظام نہیں کرسکے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments