سیاسی بحران یا فطری ارتقا


سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے جیسے سیاسی تنازعہ پہ سوموٹو نوٹس لے کر غیر متوازن لارجر بینچ کی تشکیل بالآخر عدلیہ کو پارلیمنٹ اور وکلاء تنظیموں کے مقابل لے آئی، خدشہ ہے کہ یہی فعالیت ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ بارے سیاستدانوں، وکلاء اور سول سوسائٹی میں پائے جانے والے تحفظات کو کوچہ و بازار تک کھینچ لائے گی۔ قبل ازیں صدر عارف علوی کی طرف سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے آئینی طریقہ کار کو پس پشت ڈال کر یک طرفہ طور پہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخوں کے اعلان نے بھی ایسی نامطلوب ادارہ جاتی کشمکش کو مہمیز دی، جس کے اثرات نے کافی حد تک اس گہرے سیاسی جمود کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا، جس نے پچھتر سالوں سے ہمارے سیاسی وجود کو جکڑ رکھا ہے اور اب یہی تغیرات ہمیں ایک ایسے ادارہ جاتی تصادم کی طرف دھکیل رہے ہیں جس کی سنگینی سے امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسی خوشحال اقوام سمیت رومانیہ اور بلغاریہ جیسے چھوٹے ممالک بھی گزرنے پہ مجبور ہو گئے تھے۔

جمعرات کی شام سرگودھا میں مسلم لیگ (ن) کی مرکزی رہنما مریم نواز کی طرف سے ریٹائرڈ اور حاضر سروس ججز پہ جارحانہ تنقید اسی جاری پیش دستی کا ردعمل تھی جو ہر عہد میں عدالتی فعالیت کی صورت میں رونما ہو کر عمیق سیاسی بحرانوں کا محرک بنتی رہی۔ لاریب، ہماری توقع کے عین مطابق نہایت سرعت کے ساتھ اب اس امر کے آثار ہویدا ہوتے جا رہے ہیں کہ ”ووٹ کو عزت دو “ بیانیہ سے پسپائی کے بعد نواز لیگ اپنے بیس کیمپ پنجاب میں اپنی سیاسی ساکھ کی بحالی کی خاطر عدلیہ کی فعالیت کو تنقید کا ہدف بنا کر قوت کے مرکز کے خلاف ایسا مقبول بیانیہ تشکیل دینا چاہتی ہے، جسے ان کا ووٹر پوری سرشاری کے ساتھ خرید لے گا چنانچہ پنجاب کے سابق وزیراعلی پرویز الہی کی مبینہ آڈیو لیک کے بعد جس طرح نواز لیگ کی صف اول، دوم اور سوم کی قیادت نے پریس کانفرنسوں میں بینچز کی تشکیل اور اعلی عدلیہ کے ججز کے کنڈکٹ پہ سوال اٹھائے وہ اسی سوچی سمجھی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی شروعات تھی، جس کا کلائمکس ہمیں سرگودھا میں پانچ کے ٹولہ کی اصطلاحوں کی گونج میں مریم نواز کی جارحانہ تقریر میں سنائی دیا۔

نواز لیگ کو شاید اب پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں طاقت کا سنٹر آف گریویٹی آبپارہ نہیں بلکہ شاہراہ دستور پہ استادہ پرشکوہ عمارات کی راہداریوں میں پنہاں ہے، اس لئے لیگی قیادت نے اپنی بہترین حکمت عملی سے ایک طرف مقتدرہ کے خلاف اپنی خطرناک مہمات کی بساط لپیٹ کے آئینی طریقوں سے عمران خان کو ایوان اقتدار سے نکالنے کی راہ ہموار بنائی اور دوسری جانب شاہراہ دستور پہ کھڑی اس عمارت کے دو ، تین مکینوں کو نشانہ پہ دھر لینے کا مقبول بیانہ بھی ڈھونڈ لیا جو مولوی تمیزالدین سے لے کر حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان جیسے مقبول سیاستدانوں کے سیاسی کیریئر کا قبرستان بنتی رہی۔

بہرحال ہمیں سیاسی خرابیوں اور جمہوری بدنظمی سے اس قدر گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیاست زندگی نہیں بلکہ نقش حیات ہے اور رائے عامہ بہت جلد اس سیاسی افراط و تفریط کو ہموار بنا لے گی، جو وقتی طور پہ اجتماعی حیات کے بہتے دھارے میں طغیانی پیدا کرتی دکھائی دیتی ہے، ہمیں امید ہے کہ یہی کشمکش تقسیم اختیارات کے آئینی فارمولہ پہ الفاظ و معنی کے ساتھ کامل عمل درآمد کا ذریعہ بننے کے علاوہ خود عدلیہ کی آزادی کی راہیں بھی کشادہ کر دے گی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ محوری سیاسی بندوبست اب ٹوٹنے والا ہے جس نے سیاسی عمل کے علاوہ آئینی اداروں کے ارتقاء کو بھی سختی سے جکڑ رکھا تھا۔

لاریب، آئین میں متعین کردہ فریم ورک کے مطابق اگر پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں کو تقسیم اختیارات کی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کی آزادی ملتی تو اب تک ہمارا اجتماعی وجود تجربات کی متعدد سیڑھیاں چڑھ کر ارتقاء کی کئی منزلیں سر کر چکا ہوتا لیکن افسوس کہ نیو نوآبادیاتی نظام کے تحت عالمی طاقتوں نے یہاں مہیب آمریتوں کی وساطت سے عوام کے حق حاکمیت کو مفقود رکھ کر قومی وسائل کا استیصال کیا، افسوس کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے پوری مسلم دنیا میں استبدادی حکومتوں کو برداشت کیا، مغربی غلبہ والی عالمی منڈیاں تیار کیں، عالمی مالیاتی نظام کے ذریعے قرضوں اور دفاعی امداد کی آڑ میں کمزور قوموں کو کنٹرول کرنے کے علاوہ جمہوری تشدد کے ذریعے انہیں منقسم کر کے ان کی دولت اور وسائل پہ قبضہ جمایا۔

مغربی استعمار کی اسی سکیم نے ہمارے سماج کے فکری و ذہنی ارتقاء کو روک کر سیاسی تشدد، انارکی، افلاس، مذہبی تفریق اور نسلی و طبقاتی تقسیم بڑھا کر آدمیوں کو خارجی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے غیرانسانی دھندا پروان چڑھایا۔ اے کاش کہ آزادی کے بعد اگر قومی سیاستدانوں کو پارلیمنٹ کے فورم پہ روز مرہ سیاسی امور نمٹانے کی جمہوری روایات قائم کرنے کی مہلت ملتی تو آج طالع آزما سیاسی ایشوز کو عدالتوں کی دہلیز تک پہنچا کر کئی مقدس اداروں کو متنازعہ بنانے کے اسباب مہیا نہ کر سکتے، مگر حقیقت کو ہمیشہ کے لئے ہیڈ لاک میں نہیں رکھا جا سکتا، تاریخ کا اہم ترین قانون بھی یہی ہے کہ جو چیز ابھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری موجودہ لیڈر شپ ان فطری تغیرات کی الٹ پھیر میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی راہیں سنوار کر قوم کے لئے ایک صحت مند ارتقاء کس طرح ممکن بناتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ سیاسیات میں آئینی بحران حکومت کے کام میں رخنہ اندوزی یا ایسا تنازعہ پیدا ہو جانے کو کہتے ہیں، جسے کوئی گورنمنٹ آئینی سکیم یا دیگر بنیادی گورننگ قوانین کے ذریعے سلجھانے کی صلاحیت کھو بیٹھے۔ اگرچہ ہر جگہ بحران مختلف اور ممکنہ وجوہات سے پیدا ہو سکتے ہیں تاہم عام طور پہ آئین کے مرکزی فرائض کی انجام دہی میں ناکامی یا کم از کم ناکامی کا شدید خطرہ پیدا ہو جانے کی صورت میں سیاسی بحران نمودار ہو سکتا ہے بلکہ بسا اوقات آئین تو واضح ہوتا ہے لیکن اس پر عمل کرنے والے حکمراں بوجوہ سیاسی بحران کے قریب پہنچا دیتے ہیں، مثال کے طور پر کوئی حکومت آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے خلاف قانون سازی کرنا چاہتی ہو یا عدالتیں کسی مخصوص شق کی آئین کے روح کے منافی تشریح کے ذریعے من مانے نتائج کشید کرنے پہ اتر آئیں، اسی طرح کے تجاوزات سے ججز کا کنڈکٹ متنازعہ اور حکومتی ادارے ہچکولے کھانے یا پھر قانون کے مطابق کام کرنے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔

عام طور پر حکومتی اہلکار قانون کی تنگ تشریحات کی بنیاد پر کسی سنگین مسئلہ سے نمٹنے سے گریز کا جواز تراش لیتے ہیں، جیسے 1950 کی دہائی میں جنوبی افریقہ کے رنگین ووٹ کا آئینی بحران پیدا ہوا، 1860 / 61 میں جنوبی امریکی ریاستوں کی علیحدگی کا ایشو، 1975 میں آسٹریلیا کی وفاقی حکومت کی برطرفی اور 2007 کا یوکرائن کا آئینی بحران ایسی پیچیدگیوں کی کلاسیکی مثالیں تھیں۔ برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کا کوئی تحریری آئین موجود نہیں لیکن وہاں کنونشن اور روایات کو غیر تحریری تصور کیے جانے کے باوجود برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک میں ایسے مسائل کو آئینی بحران کے طور پر بیان کیا گیا۔

آئینی بحران ریاست کی مختلف شاخوں کے درمیان تنازعات، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان یا معاشرے کے اندر مختلف دھڑوں کے درمیان تنازعات سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ عام طور پہ ریاستی ڈھانچہ میں بحران اس وقت ابھرتا ہے جب سیاسی تنازعہ کے ایک یا زیادہ فریق جان بوجھ کر آئین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کریں، جیسے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران حکمراں پی ٹی آئی کے ڈپٹی اسپیکر نے آئینی حدود کراس کر کے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو غیرملکی سازش قرار دے کر رائے شماری کے آئینی تقاضے کو بلڈوز کر دیا اور اسی کے تسلسل میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے صدر عارف علوی کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیجی جسے صدر نے اپنا عقل استعمال کیے بغیر منظور کر کے دانستہ ایسا بحران پیدا کیا جس نے سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی متنازعہ رولنگ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں نے ابھی تک ہمارے سیاسی نظام کو وقف اضطراب رکھا ہوا ہے۔

تاہم بسا اوقات غیر تحریری آئینی کنونشن کی خلاف ورزی کرنا یا خلاف ورزی شدہ آئین، قانون یا غلط سیاسی رواج کی صحیح، قانونی تشریح پر تنازعہ اٹھ کھڑا ہونا، جیسا اسمبلیوں میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کی عدالتی تشریح نے ایسے لامتناہی بحران کی بنیاد رکھی جس کے تلاطم میں تادیر ہمارا سیاسی نظام ہچکولے کھاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments