نکتہ آفرینی


ہم عجب معاشرے میں رہتے ہیں جہاں بے شمار نیکیاں کرنے کے بعد اگر ایک چھوٹی سی غلطی سرزد ہو جائے تو لوک اس ایک غلطی کو اتنا اچھالتے ہیں کہ وہ شخص غلطی سے پہچانا جائے اس غلطی کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے اس شخص کے کیے سارے نیک اعمال بھول جاتے ہیں۔

یہ کون لوگ ہیں جو ہر وقت تکڑی رکھیے انسانی کردار کا معیار اچھائی اور برائی میں تولتے رہتے ہیں؟ پیدائش سے لے کر مرنے تک کہ رسم رواج بنانے والا یہ معاشرہ کیا کبھی کسی غریب کی رسوئی میں چپکے سے جاکر آٹا رکھ کر آیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں باپ پوری زندگی محنت کر کے اپنی بیٹی کا جہیز اور اپنی برادری کے لیے اس نکاح کے کھانا کا انتظام کرتا ہے جھوٹ کی ایک سنت ہے اور حیرت زدہ ہوں میں ان لوگوں پر جو کھانا کھا کے نکلتے ہوئے اس کھانے میں بھی برائی نکال دیتے ہیں۔

قابل رحم ہے یہ معاشرہ جو میت والے گھر سے تدفین کے بعد کے رسم و رواج اور لینے دینے کے سلسلے پر بھی بڑی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ جس گھر سے میت اٹھتی ہے وہاں کپڑوں کا لین دین اونچی روٹی کی داد نانکے ’پیکا ٹبر‘ بہنوں سسرالیوں کے رسم و رواج اس معاشرے کی بے حسی کا جنازہ پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاشرے میں پڑھی لکھی بہن بیٹیاں سروں میں چاندی لیے ماں باپ کے آنگن میں بیٹھی رہتی ہیں

اور مرنے والوں سے زیادہ فکرمند پیچھے زندہ رہنے والے ہوتے ہیں کہ اب ہم کس طرح برادری میں سرخرو ہو۔ کیوں ہم کسی کو جینے نہیں دیتے یہ رسم رواج بنانے والے باہر سے نہیں آئے ہم خود ہی ہیں جو اپنی زندگیوں کو مشکل ترین بنائے ہوئے ہیں۔

کچھ دن پہلے مجھ سے کسی نے ایک سوال پوچھا؟ کہ میرے ذہن میں ایک سوال اکثر کھٹکتا رہتا ہے، کے خدا کیسا عادل ہے؟ کوئی شخص اگر کسی ایسے گھرانے میں پیدا ہوتا ہے جس کا باپ زنا کار ہے بے ایمان اور ایسی بہت سی برائیوں کا سرچشمہ ہے تو اس کا مقام معاشرے میں کیا ہو گا اور اس کے برعکس ایک دوسرا شخص ایک بہت ہی اچھے پڑھے لکھے سلجھے ہوئے گھرانے میں پرورش پاتا ہے تو ان دونوں کرداروں کا حال ان کی خاندانی حالت کے نسبت سے منسوب کیوں ہوتا ہے؟ لوگ برے باپ کے بیٹے کو بھی برا سمجھتے ہیں اور اچھے باپ کے بیٹے کو ہمیشہ اچھا مقام دیا جاتا ہے

میں ایک نہایت اچھی اور سلجھی ہوئی لڑکی کو جانتی ہوں، وہ ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی جس کا باپ بدکردار اور زناکار تھا، اس کے بھائی نے بیوی کو طلاق دی رکھی تھی، اس کی بہن کو اس کا شوہر مارتا پیٹتا اور بہت تنگ کرتا ہے، اور خود اس سے ایک بڑی ایک بہن ہے جس کی عمر 27 سال ہے اور ابھی تک اس کی شادی نہیں ہوئی، اس کے بہت جگہ بات چلی مگر جب خاندان کے بارے میں تحقیقات کوئی تو اس کی باپ کے کرتوت کو دیکھ کر سب چلے جاتے ہیں۔

وہ لڑکی جب ان سب چیزوں کو دیکھتی ہے تو کہتی ہے کہ خدا عادل نہیں ہے۔ خدا نے ہمیں یوں ہی چھوڑ دیا ہے والدین اور خاندان نصیب لکھتے ہیں۔

اس لڑکی کی حالت بہت بری ہے، اسے جتنا بھی بولیں کہ یہ سب خدا کے امتحانات ہیں، قبول نہیں کرتی، خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہ خدا پر شک کرتی ہے۔ بہت ہی غمگین رہتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے خدا سے کوئی امید نہیں میرا مستقبل تاریک ہے، میرے بڑے جن گناہوں کو انجام دے چکے ہیں میں اس کا خمیازہ بھگت رہی ہوں اور وہ خدا سے نا امید ہے، آپ کا کیا خیال ہے کمنٹس میں ضرور بتائیے گا؟

میں اس کی کیسے راہنمائی کروں؟ میں اسے کیا بتاؤں کہ خدا کی عدالت کیا ہے؟ کیوں اسے یہ پریشانیاں در پیش ہیں؟

اس کا یہ اعتقاد ہے کہ اس کے باپ کے کیے کی سزا ان سب بہن بھائیوں کو مل رہی ہے۔

یہ وہ عام خیالات ہیں جو ہمیں وقتی پریشانی میں شیطانی وسوسوں کی طرح ہمیں گھیر لیتے ہیں۔ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جب سب کی قبر جدا ہے تو اعمال کا حساب ایک کا دوسرے سے کیسے ہو سکتا ہے؟

یہ سب اس سماجی کی خود ساختہ دقیانوسی باتیں ہیں جو انسان کے ایمان کو کمزور کر دیتی ہیں یہ ہم انسان ہیں جو بار بار کسی کو اس کا گناہ بھولے نہیں دیتے جبکہ ہمارا پروردگار تو بہت رحمان و رحیم ہے وہ بار بار ہم پر اپنی نشانیاں بھیجتا ہے تاکہ ہم اس دنیا میں اتنے غافل نہ ہو جائیں کہ سب بھول جائیں۔ اعمال کا دار و مدار نیتوں اور ارادوں پر ہے۔

ہمارا ایک سب سے بڑا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ ہم جب کسی کو مشکل میں دیکھتے ہیں تو اس کے اعمال کا مداوا سمجھتے ہیں اور جب خود پر مشکل پریشانی آئے تو خدا کا امتحان کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس لڑکی کی ذہنی حالت ہمارے معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے ہے سننے میں ایک عام سی بات ہے مگر کسی انسان کو معاشرتی منافقت اور توہم پرستی کا تمغہ پہنا کر ذہنی مریض بنا دینا کہاں کی انسانیت ہے۔ یہ بے حسی اگر کسی کو ذہنی مریض بنا دے تو یہ نقصان کسی کو زندہ درگور کرنے سے بڑا ہو گا۔ ہم جتنا مرضی پڑھ لکھ کر باشعور اور مہذب ہو جائیں ہماری ذہنی سطح کبھی نہیں پنپ سکتی جب تک ہم جو اپنے لیے سوچتے ہیں دوسروں کے لیے بھی ایسی ہی سوچنا رکھیں۔ بے شک میرا پروردگار صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ قرآن کا کھلا فیصلہ ہے

قرآن کی ایک آیت ہے : کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے اور (حالانکہ) ابھی تک اللہ نے نہیں ظاہر کیا ان لوگوں کو جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور ابھی صبر کرنے والوں کو بھی ظاہر نہیں کیا۔

یہ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ معاشرتی طور پر ہم اپنے وہم و گمان سے بالاتر ہو کر کسی کی زندگی میں مزید الجھنیں پیدا نا کریں بلکہ کوشش یہ ہونی چاہیے کے ہمارے کسی لفظ سے کسی کی دل آزاری نہ ہو بعض اوقات کچھ چیزیں ہمارے لیے بے معنی ہوتی ہے مگر کسی دوسرے کے لئے اس کی اہمیت اس کی زندگی سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ انسانی زندگی ہماری دنیاوی رکھ رکھاؤ رہن سہن اور رسم و رواج سے زیادہ اہم ہے اور جو لوگ ان رسموں رواجوں کی وجہ سے کسی انسان کا جینا مشکل کر دیتے ہیں ان کی جہالت ان کو ایک دن تنہا کر دیتی ہے۔ یہ باشعور انسان کا معیار زندگی نہیں۔ انسانی معیار زندگی جیو اور جینے دو ہے جڑ سے نکال پھینکیں وہ تمام رسم و رواج جو کسی انسان کی زندگی کو عذاب کر دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments