ڈیجیٹل مردم شماری، سندھ کے تحفظات کون دور کرے گا؟


یکم مارچ سے پاکستان میں ساتویں مردم شماری کا عمل شروع ہو چکا ہے اور 6 برس کی قلیل مدت کے بعد ایک سیاسی جماعت کے مطالبے یا پھر فرمائش پر ہونے والی مردم شماری کو پہلی ڈجیٹل مردم شماری کا نام دیا گیا ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آدھے سے زائد آبادی سمارٹ فون کا استعمال نہیں جانتی جبکہ بڑی تعداد میں پڑھے لکھے افراد بھی سمارٹ فونز کے استعمال کو ایک جھنجھٹ تصور کرتے ہیں اس میں پڑنا نہیں چاہتے ایسی صورتحال میں ادارہ شماریات کی جانب سے ڈجیٹل مردم شماری 2023 ء کا نعرہ لگا کر میدان میں اترنا کئی سوالات کو جنم ضرور دے رہا ہے، شاید یہی وجہ بھی ہے کہ چھوٹے صوبوں اور بالخصوص سندھ سے ڈجیٹل مردم شماری کے عمل پر شدید ترین تحفظات سامنے آئے ہیں اور سندھ کے قوم پرستوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے مردم شماری 2023 ء کو سندھ کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی گھناؤنی سازش قرار دے کر اتفاق رائے سے مسترد کر دیا ہے۔

مردم شماری کو یوں تو دنیا میں ایک ٹیکنیکل معاملہ سمجھا جاتا ہے اور دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ہر 10 برس بعد مردم شماری کرائی جاتی ہے تاکہ ریاست کے اندر رہنے والی آبادی کی تعداد کا پتہ لگا کر شہریوں کو تعلیم، صحت، امن و امان سمیت دیگر بنیادی آئینی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں اور یوں اس پر عمل کر کے عوام کی اکثریت کو ان کے بنیادی حقوق کی پہنچ یقینی بنائی جاتی ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے والی قوتوں نے اپنے ’اعمال عظیم‘ کے ذریعے گھر اور مردم شماری جیسے ٹیکنیکل معاملے کو بھی سیاسی بنیادوں پر استوار کر دیا اور یوں اب مردم شماری کا عمل جب بھی شروع ہونے جاتا ہے تو سندھ اور بلوچستان کے قومپرست حلقے، ادیب، دانشور و سول سوسائٹی بدگمانیوں کا برملا اظہار کرتے ہیں اور مقتدر حلقوں تک اپنے شدید تحفظات پہنچانے کی غرض سے آل پارٹیز کانفرنسز، سیمینارز کا انعقاد کرتے ہیں۔

سندھ میں مردم شماری کے نتائج پر ہر دور میں تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور پاکستان کی پہلی ڈجیٹل مردم شماری پر اعتراضات مزید اہمیت اس لیے اختیار کر گئے ہیں کیوں کہ صرف 6 برس قبل 2017 ء میں آخری مردم شماری اور گھر شماری کرائی گئی تھی، آئینی کی رو سے مردم شماری دس برس بعد یعنی 2027 ء میں ہونا تھی مگر سیاسی مطالبے پر ہونے والی موجودہ ڈجیٹل مردم شماری کو سندھ کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی گھناؤنی سازش قرار دے کر اگر تحفظات اور اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں تو اصولی اور آئینی طور پر وفاقی حکومت کو سندھ کے قوم پرستوں اور سول سوسائٹی کے تحفظات ختم کرنے اور تجاویز لینے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ براہ راست رابطہ کرنا چاہیے تھا مگر مملکت خداداد میں چوں کہ ایسی کوئی مثبت و آئینی روش یا روایت کی تاریخ نہیں ملتی لہٰذا مردم شماری جیسے اہم ترین قومی معاملے پر اٹھتی ہوئی جائز انگلیوں کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے جس کے نتائج ظاہر ہے کہ مستقبل قریب میں نکلنے والے ہیں پر بہرحال پاکستان میں مردم شماری کی تاریخ پر نظر دوڑانے سے یہ بات بھی عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ دیگر اہم قومی معاملات کی طرح مردم شماری کے عمل اور نتائج جاری کرنے میں بھی بددیانتی سے ضرور کام لیا گیا ہے اور 1971 ء سے پہلے متحدہ پاکستان میں جب بنگالیوں کی غالب اکثریت تھی تب وسائل کی تقسیم میں آبادی کو یکسر نظرانداز کرنے کا قانون رائج رہا جبکہ بنگلادیش بننے کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں وسائل کی تقسیم آبادی کے بنیاد پر کرنے کا قانون مستقل طور پر نافذ ہوا، جس پر سندھ اور بلوچستان کو سب سے زیادہ اعتراضات تھے، ہیں اور شاید رہیں گے بھی۔

پاکستان چوں کہ ایک کثیرالقومی ریاست ہے اور 1940 ء کی قرارداد کے تحت مملکت میں شامل ہونے والی تمام قوموں کا حق ہے کہ وہ اپنے وسائل، زمین اور اقتدار پر حق حاکمیت جتائیں بالفرض اگر سندھیوں کا یہ موقف ہے کہ سندھ کی سرزمین اور تمام وسائل پر سب سے پہلا حق مقامی سندھی بولنے والوں کا ہے تو اسے تعصب پر مبنی غیرآئینی یا غیرقانونی بات نہ سمجھا جائے کیوں کہ ایسے ہی وعدے کیے گئے ہیں چالیس کی قرارداد میں اگر کسی کو شک ہے تو اقبال پارک، مینار پاکستان پر کندہ اس تاریخی قرارداد کے نکات کا بغور جائزہ لے سکتا ہے بہرحال بات ہو رہی ہے ڈجیٹل مردم شماری کی تو سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکا ’سانا‘ کی جانب سے چند روز قبل آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں نہ صرف سندھ کی قومپرست جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر نثار کھوڑو اور جے یو آئی کے مولانا ناہیون بھی موجود رہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے ڈجیٹل مردم شماری کو سندھ کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے، صوبے کے لامحدود وسائل پر قبضہ کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اسے ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا مگر باوجود اس کے وفاق کی جانب سے اس مطالبے پر کوئی دھیان دیا گیا اور نہ ہی ادارہ شماریات نے اٹھائے گئے اعتراضات پر کوئی وضاحت دینا ضروری سمجھا ہے۔

مذکورہ کانفرنس میں سندھ کے نامور دانشور نصیر میمن نے زمینی حقائق پر مبنی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ڈجیٹل مردم شماری 2023 ء کے لئے انتہائی ناقص اور نامکمل انتظامات کیے گئے ہیں کیوں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ریاست کی جانب سے جاری کردہ شناختی کارڈ کے بغیر مردم شماری نہیں کرائی جاتی، جبکہ سندھ، با الخصوص صوبائی دارالحکومت کراچی میں 40 لاکھ سے زائد غیرقانونی تارکین وطن رہائش پذیر ہیں تو اس بڑی آبادی کو کس خانے میں رکھا جائے گا؟

نصیر میمن کی بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سندھ کے اوپر ڈیموگرافی کی تبدیلی کی تلوار لٹک رہی ہے کہ 2017 ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مقامی پنجابی بولنے والے 86 فیصد، پشاور میں پشتو بولنے والے 92 فیصد، کوئٹہ میں مقامی افراد کا تناسب 66 فیصد ہے جبکہ سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے جس کے دارالحکومت کراچی میں سندھی بولنے والوں کی آبادی کا تناسب صرف 10 اعشاریہ 7 ظاہر کیا گیا ہے جو کہ انتہائی خطرناک بات ہے، (انگریز سرکار کی جانب سے 1941 ء میں کرائی گئی مردم شماری کے مطابق کراچی میں مقامی سندھی بولنے والوں کا تناسب 62 فیصد تھا جو تقسیم ہند کے بعد آٹے میں نمک کے برابر رہ گیا) لہٰذا مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ مردم شماری کا شفاف انعقاد یقینی بنانے کے لئے سب سے پہلے کراچی بے امنی کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل یقینی بنا کر چالیس لاکھ غیرقانونی تارکین وطن کو ملک بدر کیا جائے اور اور ادارہ شماریات کو چاہیے کہ دیگر صوبوں سے بسلسلۂ روزگار دوسرے صوبے میں آنے والوں کے لئے الگ خانہ رکھا جائے تاکہ مقامی اور غیر مقامی آبادی کا درست تناسب معلوم ہو سکے اور سندھ، بلوچستان سمیت کسی بھی صوبے کو ڈیموگرافی چینج کا خطرہ درپیش نہ ہو سکے۔

میرے خیال میں سانا کی جانب سے منعقد کردہ کانفرنس میں سندھ کی نمایاں قومپرست جماعتوں سمیت پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور سول سوسائٹی کی جانب سے اٹھائے گئے تحفظات کو سامنے رکھا جائے وگرنہ بددیانتی پر مبنی ڈجیٹل مردم شماری کے نتائج حسب معمول ماضی کے نتائج کی طرح تکراری بن جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments