گڑیا: قوم کی ہر بیٹی کے نام


ایک تھی گڑیا۔ اس سر زمین پر آئی تھی جہاں لوگ بیٹیوں کو رحمت کہتے ہیں مگر ” یاایھالمدثر”  کی آسمانی چادر کو بیٹیوں کے لیے زمین پر بچھاکر بیٹیوں کی تقدیس پر مہرِ نبوت ص ثبت کرنے والے رحمت للعالمین کے منبر سے جمعہ سے عید تک کی نمازوں میں اولادِ نرینہ کی دعائیں مانگتے ہیں۔ اسی لیے رحیم خدا کے نام پر بننے والی ریاست میں رحم اور رحمت جتنے نظر آتے ہیں اتنے بھی نہیں۔
یہ دعائیں جب گھروں میں بیٹھی معصوم بیٹیوں کے کانوں میں پڑتی ہیں تو انکے معصوم دل خدا سے کیا کہتے ہیں وہ آوازیں “صمُ بکم” اہلِ زمین کو سنائی نہیں دیتیں مگر وہاں آسمان پر گونجتی ہیں۔ اذانوں ، درودوں ، میلادوں اور شبینوں کی صداؤں کے اجر کے راستے میں کہیں ان آوازوں کا صبر نہ آ جائے۔
اسی خوف سے گڑیا آنکھیں ہی نہیں کھول رہی تھی کہ بچپن سے جمعے کے دن کی دعائیں سنتی اسکی ماں کے دل میں بھی بیٹے کی خواہش ہو گی۔ اپنا وجود اسے بھی ان چاہا سا لگتا ہو گا۔ زندگی بھر اس نے بھی اپنی ماں کی ممتا اور باپ کی پدری شفقت کے دسترخوان سے محبت کے ذرے اپنے والدین کی اولادِ نرینہ سے بچ رہنے کی صورت ہی میں چنے ہونگے۔
ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھ کر سینے میں ایک طرف دبکی بیٹھی روح نے باہیں کھول دیں۔ پلکوں پہ وہ ستارے ٹمٹمانے لگے جو وہ آسمان پر چھوڑ آئی تھی۔ اس چاندنی سے جبیں روشن ہوئی جس سے آسمان پر اٹھکیلیاں کرتی تھی۔ کسی کی سانس کا ایک جھونکا سا چہرے کو چھوا تو یوں لگا کہ بہشت کی وہی بادِ صبا ہے جو من میں تسکین بن کر اترنے لگی۔ اتنے میں آنکھوں سے ہلکی سی آنسوؤں کی ایک بوند جو اسکے گالوں سے ٹکرائی تو گویا اسکی روح کو جنت کے باغوں کی وہ بوندا باندی اور رم جھم واپس مل گئی جو اس  پر رحمتِ بن کر برستی تھی۔ یہ اسکے بابا تھے۔
ملاں صاحب کی اولادِ نرینہ کی دعا کی گونج جن گھروں میں نہیں پہنچتی وہاں بیٹیوں کو حقوق کی تقسیم میں محبت کا حصہ کسی سے بچ رہنے کی صورت میں نہیں ملتا۔ اپنا ملکیتی حصہ ہوتا ہے۔ یہی محبت وہ اعتماد بنتی ہے جو بحیثیت ایک فرد عورت کو اپنا تشخص دیتی ہے۔
گڑیا کو وہ بچپن ملا کہ جو اس سر زمین کی نہ جانے کتنی بیٹیوں کی آنکھوں میں حسرت کا موتیا بن کر بچپن ہی میں ٹھہر جاتا ہے کہ جس میں انہیں صرف اپنا آپ دکھائی دینا ختم ہو جاتا ہے۔ یہی موتیا پیدا کرنے والے اس سماج کی کوشش ہوتی ہے۔ دیکھا نہیں کہ کوئی  عورت نظر آئے سہی اس معاشرے کو احساسِ کمتری کے بنا۔ اسے پر تو پل پڑتا ہے یہ جنگل۔
ماں کی ممتا بھری آغوش سے اتری تو بابا کے خوابناک پرستان میں آنگن کی پری بن گئی۔ پاپا کی پری۔ یہ چمن دنیاوی وسائل کے لحاظ سے اتنا آسودہ نہیں تھا مگر یہاں دو باغبانوں نے مل کر گرہستی کی وہ پنیری لگا رکھی تھی کہ جس کی ٹہنیوں پر محبت کی کونپلیں کھلتی تھیں اور پیار کے گل ۔ سو گڑیا اس چمن کی تتلی تھی۔ اڑتی پھرتی تھی۔ بچپن کے کھلونے اسباب نہیں خواب ہوتے ہیں۔
بچپن میں اس گڑیا کی بھی ایک گڑیا تھی اسکی پکی سہیلی۔ گھنٹوں وہ اس سے کھیلتی۔ کبھی گڑیا کا کھیل دیکھا۔ ایک لڑکی کے تصور کی دنیا یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ کبھی وہ گڑیا کو تیار کرتی ہے کبھی پڑھاتی ہے کبھی سکول بھیجتی ہے کبھی اسکا گھر سجاتی ہے۔کبھی اسکی شادی کرتی ہے۔
پاپا کی پری کی ایک اپنی بھی پری ہوا کرتی ہے۔ ایک بچی ممتا کی صفت لے کر پیدا ہوتی ہے۔ پر بیٹیوں کو بحیثیت فرد اپنی صفات اور صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع ملے تب نہ۔
بچپن تو بچپنے کی نیندوں کی طرح یوں گزرا کہ پتا ہی نہیں چلا۔ اب وہ یہ سوچتی تو خواب لگتا ۔ لڑکپن آیا اور پھر جوانی۔ جو اپنے ساتھ ہجر کا پیغام لے کر آئی۔ اسے بیٹی بنا کر رکھنے کا عہد کر کے ایک خاندان نے اسے  اسکے پرستان سے دور کر دیا۔ اسکی شادی ہو گئی۔
سسرال آئی تو پتا چلا کہ بیٹی بنا کر رکھنے کے وعدے بھی اس سماج میں دوسرے وعدوں ہی کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ یہاں لڑکے کی شادی اس لیے کی جاتی ہے کہ اسکی والدہ ماجدہ اب زیادہ کام نہیں کر سکتیں۔ یعنی لڑکے کی شادی گھر کے کام والی سے کی جاتی ہے۔
یہ جنگل جس دن بیٹی اور بہو کو ایک نظر سے دیکھنے لگے گا اسے “توفیق” کی وہ دعائیں نہیں مانگنی پڑیں گی جو دراصل مانگی گئی دعا سے متعلق بے عملی کو مزہبی تقدیس میں ملفوف کرنا ہے۔
اس سماج نامی دشت میں انسان نامی حیوانوں کا پسندیدہ مشغلہ دوسروں کی زندگیاں جینا ہے اور وہ بھی اپنی زندگی جی لینے کے بعد ۔جغرافیائی روایات پر مبنی اس استبداد کو بھی بڑی سہولت سے خدا کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس نے کون سا بول کر بتانا ہے کہ میں نے تو ایسا کہا ہی نہیں۔
عجیب بات ہے ظلم سہنے والا انسانوں اور خدا دونوں کا تابعدار کہلواتا ہے۔ مگر انسان راضی پھر بھی نہیں ہوتے خدا کا پتا نہیں۔
ریاستی ظلم و ستم کا واویلا کرتی قوم میں ہر کسی کے ہاں اپنی ریاست و رعیت میں احوال اس دیس جیسا ہی ہے۔
گڑیا ماں باپ کی کالے بالوں کے ساتھ دی گئے اعتماد اور سفید بالوں کے ساتھ دئے گئے خوف کے درمیان جھولنے لگی۔ انہوں نے جن بشاش چہروں کے ساتھ گویائی عطا کی تھی ان پر جھریوں کے سائے خاموشی کا پیغام دیتے تھے۔ جن ہاتھوں نے توانا حالت میں زندگی گزارنے کا سبق دیا تھا اب کانپتے ہوئے گزارہ کرنے کی راہ دکھانے لگے۔ سر اٹھا کر قیام کرنے کا درس دینے والے رہبروں کی اپنی کمریں مجبوریوں کے بتوں کے سامنے رکوع کرنے لگیں تو مقتدی تو سجدے میں ہی گر پڑتے ہیں۔ انسانوں کی اس بندگی اور عبادت میں عہد ہی تمام ہوا۔
تتلی کے پروں کے رنگ وقت لے اڑا۔جبر کی قینچی سے فکر کے پر کتر دیے گئے۔ وہ اڑانیں وقت کا پنچھی لے اڑا، ان خوابوں کو معکوس تعبیروں کا گھن کھا گیا۔
آنکھیں وہ شمع ہوئیں کہ آنسوؤں کے قطرے دل پر گرتے تھے۔ دل پر بننے والے پھپھولوں سے ہلکی ہلکی ٹیسیں اٹھتی رہتی تھیں۔ چمن کی یادیں خارزار میں درد کی شدت کو اور بڑھا دیتی ہیں۔ سدا بہار خواب امر ہوتی خزاؤں میں نہ خود مرتے ہیں نہ اپنی مسکن آنکھوں کو زندہ رہنے دیتے ہیں۔
ماں باپ اسے اسکے چمن سے نکال کر خود بھی روٹھ گئے۔ انسان کی اگلی اور عورت کی اصلی منزل کی طرف۔ اس دشت میں عورت کا اپنا گھر شاید وہی ہے۔ بحرحال اب پاپا کی پری کا پرستان اسکے لیے مہمان خانہ تھا۔ یہ عہد بھی تمام ہوا۔
تاریخ نے تب اپنے آپ کو دہرانے کا فیصلہ کیا جب گڑیا کی گود میں اسکی وہ بچپن کی گڑیا دوبارہ آ گئی۔ اسکی بیٹی جب اسکی آنکھوں میں جھانکنے کے لائق ہوئی تو اس نے آنکھیں پونچھ لیں۔ اس  نے تاریخ کے راستے میں بند باندھنے کا فیصلہ کرلیا۔ پچھتاوہ ازالے کی تحریک بھی بن سکتا ہے۔
اسکے ماں باپ جو کر سکتے تھے انہوں نے کیا اور جو انہیں کرنا چاہیے تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ کر نہیں سکتے۔ یہی بات گڑیا کے لیے مستقبل کا منظر نامہ واضح تر کر گئی۔
گڑیا کی گڑیا بڑی ہو گئی۔ روایات کے ملبے تلے دبے ہوئے اسکے باپ کو کم ازکم اگلی نسل کے لیے وہ نکال لائی۔ اس نے واضح طور پر کہا اپنا جوبن تج دینا بڑی قیمت تھی چکا دی ان بچوں کا بچپن انمول ہے ، بولی نہیں لگے گی، اور بس۔
انہی خطوط پر پروان چڑھتی اپنی بیٹی سے ایک دن اس نے کہا۔ میں نے تم میں اور تمہارے بھائیوں میں کبھی فرق نہیں کیا۔ زندگی میں کبھی کسی نے اولادِ نرینہ کی دعا دی تو اس پر آمین کو اپنی نسائیت کی توہین سمجھا۔ یہ میری طرف سے تمہیں گھٹی تھی گڑیا۔
سنو ! دل کے کانوں سے سنو رانی۔ تمہیں وہ پیشہ ورانہ تعلیم پانی ہے کہ زندگی میں زمین کے رازق تمہیں بھوک کا ڈراوا دے کر تم سے روٹی کے سجدے نہ کروائیں۔
یاد رکھو اپنی سوچ کی اڑان ہمیشہ خیر کے افق کی جانب رکھو مگر زندگی میں کبھی بھی اپنے پر کسی ہوا کے شر کے خوف سے طوفانوں کے پاس گروی مت رکھوانا۔
چھت محبت کی چھاؤں دے ، دیواریں خلوص کی چار دیواری اور فرش پیروں کی تلوؤں کو بسیرے کا احساس تو تب وہ تمہارا گھر ہے چاہے کچا ہی کیوں نہ ہو۔ وگرنہ قفس۔ کسی قفس میں رہنا اپنی اڑان کی توہین سمجھنا بیٹی۔
ساتھ کے بدلے کوئی روح کی قبا کھینچے تو اپنے ہاتھوں کو اتنا کمزور مت سمجھنا کہ اسکا تحفظ نہ کر سکیں۔ اپنے ساتھ کے بدلے کوئی تم سے تمہاری عزتِ نفس مانگے تو عزت نفس کا سودا مت کرنا۔
میری بچی میری زندگی کا مشن ہے کہ تمہاری گڑیا تمہاری آنکھوں کو خون کے آنسو نہ پیتے دیکھے وہ اپنی ماں کو اپنا جیون آپ جیتے دیکھے۔ اور ہاں میں خدا سے یہ عہد کرتی ہوں کہ جب تک زندہ ہوں اپنے اس درس سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ وقتِ قیام میں سجدہ کرنے کی تلقین عبادت کی توہین ہوتی ہے۔
زمانہ بیت گیا۔۔۔”گڑیا” نام کا ایک بہت بڑا ادارہ اس اولادِ نرینہ کی دعاؤں والی بڑی مسجد کے ساتھ قائم ہوا۔ ان دعاؤں پر آمین کہنے والوں کی ستائی ہوئی بیٹیاں یہاں آکر راحت پاتیں تو گڑیا کی بیٹی کی نم آنکھیں آسمان کی طرف اٹھتی گڑیا وہاں سے ہاتھ ہلاتی ہوئی محسوس ہوتی۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments