آنے کی باتیں جانے دو


زمینی فرشتوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ چونکہ وہ خود ساختہ فرشتے ہیں اس لیے انسانوں اور ان میں سے جھوٹوں، چوروں، لٹیروں کے ساتھ صرف اقتدار کی جنگ کریں گے۔

ان کے ساتھ سلام دعا نہ لیں گے کہ کہیں نجس نہ ہو جائیں۔ اقتدار کی جنگ کے لیے چونکہ کوئی مذاکرات، مشاورت تو دور کی بات سلام دعا بھی نہ ہوگی اس لیے گلی گلی، کوچہ کوچہ، محلہ محلہ، گاؤں گاؤں، شہر شہر ان کے بارے میں جھوٹ بول کر نفرت کے ایسے بیج بوئیں گے کہ ملک کی یکجہتی پارہ پارہ ہو جائے، گھر بار ٹوٹ جائیں، نفرتوں کی ایسی دیوار کھڑی ہو کہ کوئی سیڑھی بھی پار نہ اتار سکے۔ پھر دور دراز کے علاقوں کے بے نام و نشان لوگوں کو سامنے لاکر ملک میں ٹرانسفر، پوسٹنگ، ٹھیکے اور ایسے ہی کاموں کے ذریعے کم از کم اربوں روپے تو بالواسطہ کما لیے جائیں۔

میڈیا کا گلا گھونٹ دیا جائے، اس قدر گالی نکالی جائے کہ یہ بھی روایتی زبان کا درجہ اختیار کرلے۔ جو بات نہ سنے اس کو بھی گالی اور نفرت سے دو چار کیا جائے اور جو سن لے اس پر اس قدر دباؤ کہ وہ اٹھ ہی نہ سکے۔ ہر بات پر دھونس، رعونت، گالی، دھاندلی اختیار کی جائے تاکہ ہر عزت دار اپنی عزت کے تحفظ کی خاطر خاموش ہو جائے، راستہ تبدیل کرلے یا راستے پر آ جائے۔

اب بند کمروں کی باتیں دیواروں سے باہر نکل چکی ہیں۔ روپیہ، پیسہ، طاقت اور اقتدار کے نشے کے ساتھ ناجائز دولت بھی نشے اور مستی کا مزہ دے سکتی ہے ایسے میں اگر خود پرعالم شباب ہو اور طاقت دس سال کے لیے بہ ظاہر نظر آ رہی ہو تو منہ زور گھوڑے پر سواری بھی آسان لگتی ہے۔ پھر یہ خواب اگر ٹوٹ جائے مگر نشہ باقی رہے اور چند ارکان پر مشتمل سابق ارکان قومی اسمبلی کا وفد اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس نئے اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے مراحل طے کروانے چلا جائے تو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔

گزشتہ روز ایسا ہی ایک واقعہ قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کے چیمبر میں ہو گیا۔ اپریل کے مستعفی اور 7 اگست کے ڈی نوٹیفائی شاہ محمود قریشی کو ان کی جماعت کے سابق ارکان قومی اسمبلی لیڈر آف دی اپوزیشن بنوانے کے لیے اسپیکر کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک حکم کی کاپی دینے اور اصرار کرنے گئے تھے۔ شاہ محمود کے بعد ان کے صاحبزادے زین قریشی اس نشست سے الیکشن ہار چکے ہیں اور موسیٰ گیلانی اب اس حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ زین قریشی کی چھوڑی ہوئی نشست پر ان کی ہمشیرہ بھی کامیاب ہونے میں ناکام رہی ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے جس حکم نامے کو لے کر یہ سابق ارکان اسپیکر کی خدمت میں حاضر ہوئے ان میں ڈوگر صاحب بھی تھے جن سے سوال کیا گیا کہ آپ اپنا استعفیٰ جعلی ہونے کا اظہار کرتے پھر رہے ہیں تو ان کے پاس جواب دینے کو الفاظ نہ تھے۔ پہلے الیکشن کی تاریخ پھر مذاکرات کی بات کرنے والے پنڈ دادن خان کے سابق رکن اسمبلی نے اسپیکر سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اندر کی بات اندر ہی ہو جائے اور پارلیمنٹ کا ہم سب حصہ بننا چاہتے ہیں، اسی لیے ہم حاضر ہوئے ہیں۔

جواب ملا کہ ماضی کو چھوڑیں سنجیدہ بات کریں۔ قومی مسائل بہت گمبھیر ہیں ان پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کا راستہ کھولیں، اسمبلی کی رکنیت کا معاملہ تو اب ختم ہو چکا ہے۔ ضمنی انتخابات لڑلیں۔ جیت گئے تو حلف اٹھائیں۔ سابق وزیر موصوف نے آواز اونچی کی اور ارشاد فرمایا کہ ہم آپ کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کریں گے۔ اسپیکر نے جواب دیا کہ اول تو اس حکم نامہ میں میرے لیے کوئی حکم ہے ہی نہیں اور پھر کس میں جرات ہے کہ مجھے توہین عدالت میں طلب کرے جبکہ میں آئینی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہوں، یہ آواز بھی کم اونچی نہ تھی۔

سابق وزیر صاحب عام آدمی بنے اور خاموشی اختیار کی مگر فرشتوں میں ایک سابق رکن ایسی بھی تھیں جو ماضی میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے لیے راجا پرویز اشرف کے پاس سفارش لے کر گئی تھیں اسپیکر نے ان کو مخاطب اور باور کرواتے ہوئے کہا کہ پھر اس کے بعد آپ سے ملاقات ہی نہ ہو سکی۔

بات کچھ ادھر ادھر ہوئی تو ایک اور صاحب نے کہا کہ آپ ہمارے بڑے ہیں غلطی ہو گئی معافی دے دیں، آخر آپ ہمارے وزیراعظم بھی تو رہے ہیں۔ اسپیکر نے کہا کہ یہ غلطی نہیں آئینی اقدام ہے۔ آپ کو بلایا، انتظار کیا، پیغام بھیجے آپ لوگوں نے رابطے کیے پھر سلسلہ آپ نے اپنی مرضی سے توڑدیا اور میں نے آئینی اور قانونی ذمہ داری ادا کر دی اب تمام تیر نکل چکے۔ اگر آپ مفاہمت کا راستہ اختیار کریں اور ملک کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہوں تو حکومت کے ساتھ اپنے رابطے استوار کریں۔ ملک میں یکجہتی، امن وامان اور معیشت کی بحالی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اسپیکر کے صاف صاف بیان نے سابق فرشتوں اور آج کے معافی کے طلب گاروں کو صورت حال واضح کردی کہ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو دوبارہ انتخابات کروانے سے وقتی طور پر روکا ہے اور آپ خواہ مخواہ تاثر دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کی رکنیت بحال ہو گئی۔ اگر آپ خود اس بارے میں وضاحت نہ کریں گے تو اسمبلی سیکریٹریٹ تو اپنی ذمہ داری ادا کرے گا۔

بشکریہ ڈان اردو۔

عظیم چوہدری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری پچھلے بیالیس سالوں سے صحافت اور سیاست میں بیک وقت مصروف عمل ہیں ان سے رابطہ ma.chaudhary@hotmail.com پر کیا جاسکتا ہے

azeem-chaudhary has 39 posts and counting.See all posts by azeem-chaudhary

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments