گھن چکر – بے گناہ کا لہو اور مکافات عمل


میں نے اڈیالہ جیل سے باہر آ کر کھلی ہوا میں لمبا سانس لیا تو دھوئیں اور گرد کا بادل گلے میں پہنچا اور کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ میں نے فوراً جیب سے ترلوچن سنگھ کی دی ہوئی پھکی نکال کر منھ میں رکھی اور زور زور سے سانس اندر کھینچنے لگا۔ مدتوں پہلے سکھ حکیم کی دی ہوئی دمے کی دوا پنڈی کے تمام سکھ خاندانوں کی طرح ایکسپائر ہو چکی تھی۔ 14 سال عمر قید کاٹنے کے بعد میں اپنے گھر کا راستہ تک بھول چکا تھا۔ میری جیب میں جتنے پیسے تھے ان میں کچہری چوک تک ہی پہنچ سکا اور وہاں سے پیدل صدر بازار کی جانب چل پڑا۔ کڑی دھوپ میں بھوک اور پیاس ستانے لگی تو جیل کے کھانے کی یاد شدت سے آئی۔ میں سڑک کنارے ایک مزدور کے پاس بیٹھ گیا جو روٹی کھا رہا تھا، اور اس کا منھ تکنے لگا۔ اس نے اپنی آدھی روٹی مجھے توڑ کر دی تو کچھ آسرا ہوا۔

صدر پہنچ کر پرانا منظر آنکھوں میں گھوم گیا، میں 20 سال کا تھا جب یہیں صدر سے منشیات بیچنے کے جرم میں پکڑا گیا۔ پولیس دیکھتے ہی میں نے پُڑیا نگل لی تھی۔ فوراً ہسپتال لے جایا گیا معدے سے کوکین اور ہیروئن برآمد ہوئی، کیس چلا اور عمر قید ہو گئی۔ میرا باپ جو کہ نشے کا عادی تھا میرے بچپن میں ہی مر گیا تھا اور میرے جسم اور روح پر انمٹ زخم چھوڑ گیا تھا۔ نشے میں وہ نا صرف مجھے مارتا تھا بلکہ ایک بار اس نے ماں کی غیر موجودگی میں مجھ پر جنسی زیادتی کا حملہ بھی کیا۔ ماں چند سال جیل میں ملنے آتی رہی اور آخر وہ بھی ٹی بی کا شکار ہو کر مر گئی۔ جیل سے باہر اب میرے سامنے کوئی منزل نہ تھی۔ لیکن ظالم معاشرے نے جو مجھ سے نا انصافیاں کی تھیں ان حساب چکانا باقی تھا۔

میں سینما کے باہر کھانے کے اسٹالز کے پاس بیٹھ کر زمین سے بچا کُھچا کھانا اٹھانے لگا۔ چنا چاٹ کی ریڑھی والے الیاس نے دیکھا تو ترس کھا کر چند پرانے پھل دے دیے اور میرے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔ میں نے بتایا کہ پچھلے ہی مہینے لاہور سے آیا ہوں، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ دن کو چھوٹی موٹی مل مزدوری مل جائے تو کر لیتا ہوں اور رات کو سڑکوں پہ سوتا ہوں۔ بچپن لاہور یتیم خانہ میں گزرا اور آگے پیچھے کوئی نہیں۔ الیاس کچھ دیر سوچ میں پڑ گیا، پھر مجھے برتن، بینچ اور ریڑھی سمیٹنے میں اپنے ساتھ لگا لیا اور کہا میرے ساتھ چلو۔ میری کہانی کار آمد رہی، میں خاموشی سے اس کے پیچھے ہو لیا۔ الیاس کا گھر وہاں سے تین کلومیٹر دور ایک کچی بستی میں تھا۔ وہ بوڑھا تھا اور ریڑھی کھینچتے ہانپتا جاتا تھا۔ گھر پہنچ کر اُس نے اپنی بیٹی رضیہ کو کھانا دینے کا کہا۔ رضیہ کی ایک ٹانگ پولیو کی وجہ سے ضائع ہو چکی تھی۔ میں نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔ الیاس چاچا نے مجھے گھر کے دروازے کے سامنے چارپائی ڈال دی اور میں وہیں سو گیا۔

غربت اور معذوری رضیہ کے سہاگ نہ بسنے کے لئے کافی تھی اور اب بالوں میں چاندی بھی آ رہی تھی۔ وہ باپ کی ریڑھی کے لیے چاٹ کا سامان تیار کرتی اور پھر سارا دن باپ کا انتظار کرتی۔ ماں مر چکی تھی اور سہیلیاں سب بیاہ کے دور جا بسی تھیں۔

صبح ناشتے کے بعد الیاس نے کہا بیٹا کیا تم میرے ساتھ کام کرو گے؟ میرے پاس انکار کی کوئی وجہ نہ تھی اور نہ ہی کوئی اور کام ملنے کی امید۔ میں نے بخوشی ہامی بھر لی۔ صبح ریڑھی چلاتا صدر جاتا اور الیاس کے ساتھ سارا دن کام میں ہاتھ بٹاتا بدلے میں تین وقت کا کھانا اور سونے کی جگہ مل گئی۔ چھ ماہ یونہی گزر گئے اس دوران الیاس نے مجھے اچھی طرح پرکھا اور پھر تسلی پا کر بے فکر ہو گیا۔ اب میرا گھر کے اندر بھی آنا جانا ہو گیا۔ سردیاں آتے ہی میری چارپائی گھر کے اندر منتقل ہو گئی۔

الیاس نے ایک دن مجھ سے رضیہ کے بارے میں اپنے دل کی بات کہی۔ میں نے کچھ احسان کے بوجھ تلے اور کچھ تذبذب میں ہاں کہہ دی۔ اسی جمعرات کو مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا اور یوں الیاس کی چارپائی کمرے سے باہر آ گئی ہے اور میری اندر۔ رضیہ کی عمر تب 35 برس تھی۔ الیاس تو جیسے بس اسی انتظار میں زندہ تھا۔ شادی کے چھ ماہ بعد ہی اُس کے پیٹ کا دائمی درد بڑھنے لگا۔ ایک دن خون کی الٹی آئی، ٹیکسی کراتے جنرل ہسپتال پہنچتے وہ زندگی کے فرض سے بھی سبکدوش ہو چکا تھا۔

تب سے میری زندگی یک رنگی سے چلنے لگی اور رفتہ رفتہ مجھے چاٹ بیچنے، ریڑھی کھینچنے اور معذور بیوی سے کوفت ہونے لگی۔

ایک دن چاٹ کھاتے ایک گاہک نے مجھے پہچان لیا۔ یہ میرا دھندے کے زمانے کا دوست نومی تھا۔ باتیں ہونے لگیں اور میں اسے گھر لے آیا۔ نومی اب بھی پاوڈر بیچتا تھا لیکن اب اس کے گاہک سڑک چھاپ لوگوں کی بجائے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹ تھے۔ اس نے اپنے دھندے کے بارے میں بتایا اور مجھے سمجھانے لگا کہ کب تک چاٹ بیچتے رہو گے، کچھ ایسا کرو کہ وارے نیارے ہو جائیں۔ رفتہ رفتہ یہ بات میری سمجھ میں بھی آ گئی۔ نومی جس سے مال خریدتا تھا میں اُس کے ساتھ مل کر مال تیار کرنے لگا۔ جیل کی تربیت یہاں خوب کام آئی۔ نومی نے سپلائی سنبھال لی۔ کچھ ہی عرصہ میں مانگ بڑھ گئی اور کھپت بھی، یوں کام چل نکلا۔

رضیہ کو نومی شروع سے ہی مشکوک لگتا تھا۔ کچھ روز تو بات چھپی رہی لیکن جب میں نے ریڑھی بیچ دی تو اس سے رہا نہیں گیا۔ میں نے ٹالنے کے لئے کہا کہ نومی کے ساتھ مل کر حکیمی دوائیاں بنانے کا کاروبار کر رہا ہوں۔ لیکن جب ایک دن رضیہ کا شک یقین میں بدل گیا تو اس نے اسے صاف صاف کہہ دیا کہ میں یہ کام چھوڑ دوں ورنہ وہ پولیس کو بتا دے گی۔ پہلے تو میں نے اسے رام کرنے کی کوشش کی کیونکہ گھر میں عورت کے ہوتے ہوئے کوئی میری سرگرمیوں پر شک نہیں کرتا تھا۔ لیکن جب اس کی بیکار بحث حد سے بڑھی تو نومی کے مشورے پر رضیہ کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ مجھے رضیہ سے ہمدردی تھی اور اس کے باپ کے احسانوں کا پاس بھی تھا لیکن اب اپنی جان بچانے کے لئے اور کوئی چارہ نہ تھا۔

بادل نخواستہ ایک دن اسے بے ہوش کیا اور چھری پھیر دی۔ نومی کے ساتھ مل کر ٹوکے سے لاش کے ٹکڑے کیے اور کمرے کی زمین میں ہی گڑھا کھود کر دبا دیا۔ آس پڑوس والوں نے رضیہ کے بارے میں پوچھا تو کہ دیا کہ بیمار تھی اور ایک رات ہسپتال داخل کروا آیا تھا۔ چند دن بعد میں نے اپنا سامان لپیٹا اور وہاں سے دور نومی کی بستی میں اٹھ آیا۔

راولپنڈی یونیورسٹی میں آئس اور کوکین کے گاہک امیر گھرانوں کے لڑکے لڑکیاں تھے، آہستہ آہستہ پیسے کی ریل پیل ہونے لگی۔ ہم نے اسلام آباد کے ایک قدرے غیر آباد نئے سیکٹر میں ایک گھر خرید لیا۔ علاقے کا ایک اور بڑا ڈیلر بھی ہم سے مال اُٹھانے لگا۔ تھانے میں باقاعدگی سے ماہانہ بھتہ پہنچنے لگا۔ گھر پر رقص اور شراب کی محفلیں جمنے لگیں اور زندگی رنگین ہو گئی اور سال پہ سال بیتتے گئے۔

مجھے خوابوں میں اکثر رضیہ نظر آتی، شراب بھی اُس بے گناہ کے قتل کے احساسِ جرم کو مٹا نہیں پاتی تھی۔ تب میں نے زندگی میں ٹھہراؤ لانے کے واسطے گھر بسانے کا فیصلہ کیا۔ ایک رشتے والے دفتر کی خاتون، آنٹی نسیم سے رابطہ کر کے، تگڑی فیس دی اور انہیں رشتہ ڈھونڈنے کو کہا۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میرا پراپرٹی کا بزنس ہے اور یہاں اپنے پارٹنر کے ساتھ رہتا ہوں اور کوئی اپنا آگے پیچھے نہیں۔

میری عمر تب پینتالیس ہو چکی تھی۔ میرا خیال تھا کہ اب دھندا چھوڑ دوں اور پراپرٹی کے بزنس پر تمام توجہ دوں گا۔ آنٹی نسیم نے ٹیکسلا کی ایک لڑکی بتائی جس کی ماں سکول میں پڑھاتی تھی اور وہ خود گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی۔ لڑکی مجھے پسند آ گئی اور اگلے ہفتے لڑکی والوں کا میرا گھر دیکھنے آنا طے ہوا۔ اِسی شام نومی گھبراہٹ اور جلدی میں گھر آیا اور مین گیٹ بند کیا۔ اُس کی گاڑی میں ایک جوان اور خوبصورت لڑکی تھی، دیکھنے میں امیر گھرانے کی لگتی تھی۔ اس کا نام سامعہ تھا اور نشے میں مدہوش تھی۔ وہ راولپنڈی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی جہاں نومی نے اِسے آئس کے نشے پر لگایا اور آج اسے مدہوشی میں اٹھا کر اپنے ساتھ لے آیا۔ نومی اسے نشے کے انجکشن لگاتا رہا اور جسمانی لذت اٹھاتا رہا۔ میں نے بھی اس موقع کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ دو دن بعد سامعہ کی حالت بگڑ گئی، ہم نے انجکشن کم کر دیے اور اس کو کھانا پینا دیا۔

سامعہ کا باپ ایک با رسوخ افسر تھا۔ اس کو غائب ہوئے پانچ دن ہو چکے تھے اور پولیس جگہ جگہ اسے ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ ہمیں سامعہ سے جان چھڑانے کی فکر ہوئی۔ نومی کا خیال تھا کہ اسے مار کر لاش کہیں پھینک دیتے ہیں۔ لیکن میں جو پہلے ہی رضیہ کے قتل کی وجہ سے پشیمان تھا، نہیں مانا۔ اگلے دن دوپہر کو ہوش میں آنے پر سامعہ نے چیخنا چلّانا شروع کر دیا۔ ہم لوگ کچھ گھبرا گئے، نومی اسے چپ کرانے کے لئے بڑھا تو اُس نے پانی کا گلاس نومی کے سر پر دے مارا۔ نومی نے اپنا چاقو نکال لیا اور سامعہ کو گرا کر اس کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ میں بیچ بچاؤ کے لئے آگے بڑھا تو نومی نے مجھے دھکا دیا اور چاقو سے میرا ہاتھ کٹ گیا۔ نشے میں نومی کے سر پر خون سوار تھا اس نے چاقو سامعہ کی گردن پر رکھ دیا۔

اچانک ایک فائر ہوا اور نومی کے سر سے خون کا فوارہ سامعہ کے چہرے پر پڑا اور وہ دھپ سے سامعہ کے اوپر ہی گر گیا۔ میں نے پستول سے نومی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ سامعہ نے نومی کو اپنے اوپر سے ہٹایا اور دروازے کی طرف بھاگی۔ اسی لمحے دروازے کی گھنٹی بجی۔ سامعہ دروازہ کھول کر بھاگی تو آنٹی نسیم کے ساتھ رشتے کے لئے آئے لڑکی کے گھر والوں سے ٹکرا کر ننگے پاؤں سڑک پر بھاگتی چلی گئی۔
آج اڈیالہ جیل کی کوٹھڑی میں میری آخری رات ہے اور صبح چار بجے مجھے پھانسی دے دی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments