“ڈولا رے ڈولا رے ڈولا۔۔۔۔ ڈولا رے”


یہ آواز اگرچہ ابھری تو ایک سسکتے ہوئے عاشق کے دل کے پاتال سے تھی لیکن روانی اس میں کچھ ایسی تھی کہ اس نے بادلوں کا سینہ چیر ڈالا، چاندنی کے سمندر سے طلوع ہو کر کہکشاؤں کو چوما اور صدیوں کا سفر لمحوں میں طے کرتی ہوئی آسمان کی وسعتوں میں کہیں گم ہو گئی؛ لیکن جاتے جاتے ایک ایسا سماں باندھ گئی کہ جس کے زیر اثر پہلے تو لاکھوں دیے ٹمٹمائے اور پھر آرکسٹرا نے کچھ ایسے ساز چھیڑے کہ جن کی تال پر پاروتی کے پائل پوش اور چندر مکھی کے گھنگھرو پوش قدم بیک وقت تھرتھرا اٹھے۔ شریا اور کویتا کی ریشمی آوازوں نے کچھ ایسا طلسم بکھیرا کہ وقت کی رفتار گویا تھم کر رہ گئی، ناظرین و سامعین پہلے ہمہ تن گوش ہوئے اور پھر انگشت بدنداں رہ گئے۔

فلم دیو داس کا یہ گیت بلا شبہ ایک شہ پارہ تھا جس میں میوزک کمپوزیشن، کوریو گرافی اور گلوکاری سمیت سب کچھ لاجواب تھا۔ لیکن شروعات کہاں سے ہوئی؟ ایک عاشق کے دل کی آواز سے! یہ آواز درحقیقت ایک ایسے شخص کی تھی جس نے زندگی میں اپنے خاندان، دوستوں، پرستاروں اور موسیقی سے عشق کے سوا کوئی دوسرا کام کیا ہی نا تھا اور عشق میں تو سب سے بڑی خصوصیت ہی یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کا جلتا دیا نفرت کی آندھیوں کی زد سے بچ جائے تو ایسا نور بکھیرتا ہے کہ جس کے آگے دنیا کی تمام تر روشنیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔

23 اگست 1968 کے دن دہلی میں جنم لینے والے کرشنا کمار کنتھ با المعروف ”کے کے“ کو محبت کرنے کا ڈھنگ خوب آتا تھا۔ اس نے بچپن میں ہی موسیقی کو بطور محبوب منتخب کر لیا تھا اور اس محبت کی جڑیں اتنی گہری تھیں کہ اڑتی اڑتی چھوٹی بڑی آشائیں کسی طور بھی اسے کمزور نا کر سکیں۔ ہر بچے کی طرح کرشنا کو بھی بچپن میں ڈاکٹر بننے کا شوق چڑھا لیکن جوانی کہ دہلیز پر قدم رکھتے ہی اسے احساس ہوا کہ موسیقی کے ساتھ اس کی محبت کا پلڑا ڈاکٹری کے ساتھ اس کی محبت کے پلڑے کی نسبت کہیں زیادہ بھاری تھا لہذا ڈاکٹری کے شوق کو خیر باد کہہ کر اس نے پورے خلوص کے ساتھ موسیقی کو اپنا لیا۔

کشور کمار کرشنا کے پسندیدہ گلوکار تھے کیونکہ ان میں یہ خصوصیت تھی کہ وہ اپنی آواز کے معیار اور گائیکی کے لہجے کو بہ وقت ضرورت نہایت ہی مناسب انداز میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ کشور کمار کی اسی خصوصیت کو کرشنا کمار نے شعوری یا لاشعوری طور پر اپنانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ آج کرشنا کو ہندوستان کے سب سے زیادہ ورسٹائل گلوکار کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

ورسٹائل اسے اس لحاظ سے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سامعین کے موڈ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ ایک ایسا جادوگر تھا جو جب چاہتا سننے والوں کو محبت کے نرم گرم جھولوں میں ٹھنڈے میٹھے ہلکورے دیتا، جب چاہتا کم مائیگی کے احساسات کے ماروں کو ان کی اہمیت سے آشکار کرتا اور حسرتوں کے صحرا میں امید کے بیج بوتا، کبھی محبت کا اظہار اتنی دل نشینی کے ساتھ کرتا کہ پریت کے تمام ساگر حسن کی ورشاؤں میں مدغم ہو جاتے، دل عبادت کرتا اور حسن و عشق خود کو ایک دوسرے کی بارگاہوں میں سر بسجود پاتے۔ کبھی کبھی کرشنا زندگی کی بے کیفی اور عشق کی نامرادی کے ایسے نوحے پڑھتا کہ زندگی سر میں خاک ڈال لیتی اور عشق بذات خود پیکر انسانی میں ڈھل کر اپنا گریبان پھاڑ ڈالتا۔ کبھی کبھی جب زندگی کی رفتار سست محسوس ہوتی اور سوتا ہوا وقت انگڑائی لے کر جاگنے سے ہچکچاتا تو وہ اچانک کہیں سے ایسی انٹری مارتا کہ تھکے ہوئے ذہنوں پر تازگی کا تڑکا لگتا اور دلوں میں گھنٹیاں بج اٹھتیں ؛ اب اتنے گنوں کے حامل گلوکار کے پیچھے عاشقوں یعنی پرستاروں کی ”پوری پوری کنٹریاں“ کیونکر نا ہوتیں؟ وہ بہت مقبول ہوا اور اسے مداحوں کی جانب سے بہت پیار ملا۔

کرشنا کی گائیکی کا جو تسلیم شدہ معیار ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ بات بہت عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اس نے کہیں سے بھی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی اور وہ اپنے ہم عصر دیگر گلوکاروں کی طرح اسکرین پر چہرہ دکھانے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ صرف اپنی آواز اور انداز گائیکی کو اپنی ذات کا تعارف بنانا چاہتا تھا جبکہ چہرے کو آواز اور گائیکی کے تعارف کے طور پر پیش کرنا اس کی ترجیحات میں شامل نا تھا۔

کمرشل گائیکی کا آغاز اس نے نوے کی دہائی کے وسط میں اشتہارات کے جنگلز گا کر کیا۔ 1999 میں کرشنا نے ”پل“ کے نام سے ایک البم ریلیز کیا جس میں شامل دو گیتوں ”پل“ اور ”یاروں“ نے ناصرف اس دور میں خاطر خواہ مقبولیت حاصل کی بلکہ آج 24 برس گزر جانے کے بعد بھی یہ دونوں گیت اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ہندوستانی طلباء و طالبات میں بے حد مقبول ہیں۔

کرشنا کی تمام تر توجہ گلوکاری پر مرکوز رہی لہذا موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل نا کرنے کے باوجود اس کی کارکردگی اتنی اچھی رہی کہ اسے 1999 میں ریلیز ہونے والی فلم ”ہم دل دے چکے صنم“ میں گلوکاری کا موقع مل گیا اور اس نے اس فلم کے لئے گانا ”تڑپ تڑپ کے اس دل سے آہ نکلتی رہی“ گایا جو کہ گانے کے روپ میں درحقیقت زخمی محبت کا ایک ایسا مرثیہ تھا جس نے ہر سننے والے کو اس درد محبت سے آشکار کیا جسے ناکام محبت کے ذاتی تجربات کے دوران بھی کوئی کوئی ہی محسوس کر پاتا ہے۔

کرشنا نے ناصرف ہندی زبان میں بلکہ تامل، ملیالم، بنگالی، مراٹھی، آسامی، تیلگو اور گجراتی سمیت کئی زبانوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور دنیا بھر میں موجود لاکھوں افراد کو اپنے پرستاروں کے حلقے میں شامل کیا۔

اس کی آواز اور انداز کے اتنے رنگ تھے کہ اکثر اس کے پرستار اس کا نیا گیت سننے اور اسے پسند کرنے کے باوجود بطور گلوکار اسے پہچاننے میں ناکام رہتے تھے۔ 2007 میں فلم ”اوم شانتی اوم“ کے لئے اس کا گایا ہوا گیت ”آنکھوں میں تیری عجب سی عجب سی ادائیں ہیں“ اپنی طرز کے لحاظ سے ایک منفرد گیت تھا جس کے ساتھ کرشنا نے خوب انصاف کیا اور اسے اتنے حسین انداز میں گایا کہ سننے والوں کی سماعتوں میں موسم گرما کی شاموں کی ٹھنڈی ہوائیں اور گلرنگ بہاروں کا شباب گھل کر رہ گیا۔ فلم ”روگ“ کے لئے اس کا گایا ہوا گیت ”میں نے دل سے کہا“ اپنے اندر ایک عجیب سنہری طلسم لئے ہوئے ہے۔ یہاں کرشنا کے گلے سے نکلے ہوئے سر پگھلے ہوئے سونے کے اس سمندر کی یاد دلاتے ہیں جس کا تذکرہ کبھی کبھی پریوں کی داستانوں میں ملتا ہے۔ فلم ”وہ لمحے“ میں شامل اس کے گیت ”کیا مجھے پیار ہے“ پر گویا فطرت کا ہر نظارہ محو رقص ہے جبکہ فلم ”بچنا اے حسینوں“ میں شامل اس کے گیت ”خدا جانے“ میں محبت کی خود سپردگی بے چارگی کی حدوں کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ فلم ”کائٹس“ میں شامل اس کا گیت ”زندگی دو پل کی“ اس سکون کی عکاسی کرتا ہے جو طویل اور پر تمازت مسافتوں کے بعد ٹھنڈی چھاؤں میسر آنے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔

کرشنا نے ناصرف فلموں کے لئے گایا بلکہ ٹی وی ڈراموں کے لئے بھی گایا، لائیو کنسرٹس بھی کیے، گلوکاری سے متعلق کچھ ریئلٹی شوز میں بطور مہمان بھی شرکت کی اور بطور جیوری ممبر بھی فرائض سرانجام دیے جہاں اس نے نوخیز گلوکاروں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی۔

کرشنا کی بچپن کی محبوبہ یعنی اس کی اہلیہ جیوتی کے نزدیک وہ ایک بہترین شوہر اور محبوب تھا، کرشنا کی بیٹی تامارا اور بیٹے نکل کے مطابق وہ دنیا کا سب سے اچھا باپ تھا جب کہ اس کے قریبی دوستوں یعنی گلوکار شان اور گلوکار ابھیجیت بھٹ اچاریہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک خوش و خرم، نرم مزاج اور شائستہ انسان تھا جو کہ نا تو بے جا مقابلہ بازی کے جھمیلوں میں پڑتا تھا اور نا ہی کام کو خود پر سوار کرتا تھا۔

کرشنا دوران گائیکی ایک ایک پل کے مزے لیتا تھا۔ وہ اپنے فن، خاندان، دوستوں اور پرستاروں سے محبت کرتا تھا، کھل کر مسکراتا تھا اور زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتا تھا۔ وہ ان نایاب افراد میں سے ایک تھا جن کے پاس کسی سے نفرت کرنے کے لئے بالکل فرصت نہیں ہوتی اور جنھیں دوسروں کا برا چاہنا وقت کے ضیاع کے مترادف لگتا ہے۔

خوبصورت آواز و انداز کا مالک اور اپنے خاندان، دوستوں اور پرستاروں کا پیارا کرشنا کمار کنتھ با المعروف ”کے کے“ 31 مئی سنہ 2022 کی شب کلکتہ میں واقع ایک آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والے کنسرٹ میں موجود شرکاء کو محبت کے خوبصورت گیت سنانے کے فوراً بعد رات کے تقریباً ساڑھے دس بجے ہنستے ہوئے، مسکراتے ہوئے، قہقہے لگاتے ہوئے اس وقت اس دنیا سے رخصت ہو گیا جب اچانک اس کے دل کی دھڑکنیں اسے داغ مفارقت دے گئیں۔ اس کی سانسوں کی ڈور اس وقت ٹوٹی جب کنسرٹ کے شرکاء کے کانوں میں اس کی سنہری آواز کی گونج بھی مدھم نہیں پڑی تھی۔

کرشنا انسانی روپ میں اگرچہ اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے لیکن اس کے بدن کی خاک اس کرہ ارض پر جہاں جہاں موجود ہو گی وہاں محبتوں کے سوتے ضرور پھوٹیں گے کیونکہ اس نے جیتے جی اس دنیا کو محبت اور دوستی کے سوا کوئی اور پیغام کبھی نہیں دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments