حریم شاہ، جاوید اختر اور ہمارا بیمار معاشرہ


جس معاشرے سے موسیقی، مصوری، شاعری، ادب اور محبت رخصت ہو جائے، تو وہاں صرف سیاسی ٹاک شوز بچتے ہیں۔ برداشت کسے کہتے ہیں، ہم نہیں جانتے۔ جاوید اختر صاحب نے جو بات کہی وہ کیا غلط تھی؟ ہاں، موقع اور وقت مناسب نہیں تھا لیکن جو بات کہی گئی وہ سو فیصد درست تھی۔ جاوید اختر ہی کی بات روزانہ کئی برسوں سے حامد میر، سلیم صافی، مظہر عباس اور دیگر بڑے صحافی کرتے رہے ہیں۔ یہ بڑے صحافی فوج کی خارجہ پالیسی اور پاکستانی سیاست میں مداخلت پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ یہی بات جاوید اختر صاحب نے کہہ دی تو ہم برا مان گئے۔ ہمارا برا ماننا حب الوطنی نہیں، عدم برداشت کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اگر کوئی بات صحیح نہیں بھی تھی تو اس کو مسئلہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔ کچھ چیزیں جانے دیا کیجئے، ہر چیز پر ردعمل دینا کمزور لوگوں کا کام ہے۔
بہت سال پہلے امریکہ میں ایک گھٹیا فلم بنی جو ہمارے پیارے نبی ﷺ کے خلاف تھی۔ وہ فلم صرف دس ہزار ڈالر کا بزنس کر کے ایک ہفتے کے اندر اترنے ہی والی تھی کہ ہمارے کسی بھائی کو اس کی خبر مل گئی کہ ایسی کوئی فلم بنی ہے۔ اس نے سوشل میڈیا پر خبر چلا دی۔ جو فلم اترنے والی تھی اور فلاپ ہو گئی تھی، اس نے مقبول ہونا شروع کر دیا اور پوری دنیا میں 12 ملین ڈالر کا بزنس کیا۔ فلم بنانے والا نقصان میں جاتے جاتے امیر بن گیا۔ اگر ہم برداشت کا مظاہرہ کرتے تو وہ فلم ویسے ہی فلاپ تھی اور کچھ دنوں میں اتر جاتی لیکن ہمارے عدم برداشت کے رویے نے اس فلم کو ہٹ کر دیا۔
جاوید اختر پر لعن طعن کرنے کے چوبیس گھنٹے بعد اس قوم کو ایک اور تفریح حریم شاہ کی ویڈیو لیکس کی شکل میں مل گئی۔ جو معاشرہ ہر چیز کو مذہبی عینک لگا کر دیکھتا ہے، اس کا حال ایسا ہی ہوتا ہے جیسا آج کل پاکستان کا ہے۔ میرے نزدیک حریم شاہ پاکستان کا اثاثہ ہے جس نے بڑی ہمت سے اس دوغلے اور منافق معاشرے کی عکاسی کی ہے۔ اتنے گھٹن اور جبر کے ماحول میں حریم شاہ نے لوگوں کو آسودگی بخشی، حریم شاہ کا شکریہ۔ یہ بات میں بہت سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ یہ ایک گہری بات ہے۔ اس کے لئے آپ کو برٹرینڈ رسل کو پڑھنا ہو گا۔ محبت ایک فطری عمل ہے۔ مرد کی عورت کی طرف کشش فطری شے ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جائز فطری خواہشات کو دباتے ہیں اور اپنے اندر ایک آتش فشاں لے کر پھرتے ہیں۔ جن ملکوں میں شباب اور شراب میسر ہے اور لوگوں کے پاس آپشن ہے کہ وہ مساج پارلر جائیں، کلب جائیں یا بار، وہ اخلاق سطح پر ہم مذہبی لوگوں سے بہت آگے ہیں۔ حریم شاہ ایک گھٹن زدہ معاشرے میں امید کی کرن ہے۔ حریم شاہ کی ویڈیو دیکھ کر لوگوں کو آسودگی ملتی ہے۔ باہمی رضا مندی سے بالغ کے ساتھ سیکس بری چیز نہیں ہے، ریپ برا فعل ہے اور سخت سے سخت سزا کا حقدار ہے۔ ہمیں سیکس اور ریپ میں فرق سمجھنا چاہیے۔ حریم شاہ کی جو باتیں یا ویڈیو ہیں، مغربی ملکوں میں ان چیزوں کو کوئی اہمیت نہیں۔ ان کے پاس سب میسر ہے۔ حریم شاہ ہمارے معاشرے کی ممنوعہ چیزوں کو عام کر رہی ہے یہاں تک کہ وہ غیر اہم ہو جائیں جیسا کہ مغربی ملکوں میں ہوا ہے۔
حریم شاہ پر انگلی اٹھانے سے پہلے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ ہر برائی کی ذمہ دار عورت ہی کیوں؟ گنگو بائی کاٹھیا واڑی فلم میں ایک ڈائیلاگ ہے۔ طوائفوں کا کوٹھا گرانے کے لئے ایک ٹیم آتی ہے اور وہ گنگو بائی سے کہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ والی عمارت میں اسکول ہے۔ آپ لوگوں کے یہاں رہنے سے اسکول اور بچوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ گنگو بائی جواب دیتی ہے کہ تو پھر اسکول کے پاس ہونے سے ہم پر اچھا اثر کیوں نہیں پڑتا؟
میری ناقص رائے میں مشہور افسانہ نگار اور ادیب غلام عباس کا افسانہ ”آنندی“ ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ افسانہ طوائفوں کی زندگی پر مبنی ہے۔ اس افسانے میں زندگی کے سب رنگ ہیں۔ ملال ہے، زندگی ہے، امید ہے اور سب سے بڑھ کر محبت ہے۔ جس کی ہمارے معاشرے میں بہت کمی ہے۔

ایک تارک الدنیا صوفی بزرگ تھا جو جگہ جگہ پڑاؤ ڈالتا۔ ایک دفعہ اس درویش نے ایک گاؤں میں خیمہ ڈالا۔ اس کی خبر لوگوں کو ہوئی کہ کوئی بزرگ آئے ہیں۔ ایک آدمی اس درویش کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ وہ خدا کو جاننا چاہتا ہے۔
درویش نے سوال پوچھا ”کیا تم نے کسی سے محبت کی ہے؟“
نہیں، میں کبھی اس قسم کی فضول چیزوں میں نہیں پڑا، میں تو خدا کو جاننا چاہتا ہوں۔
درویش نے دوبارہ پوچھا کیا تم واقعی کسی کی محبت میں مبتلا نہیں ہوئے؟
اس نے کہا میں نے آپ سے حقیقت ہی بیان کی ہے۔ میں کیوں آپ سے جھوٹ بولوں گا۔
درویش نے دوبارہ پوچھا ”مجھے کچھ تو بتاؤ، غور کرو، کسی بھی شخص سے تمہیں محبت نہیں ہوئی۔
حضور نہیں، میں نے تو کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ لیکن آپ ایک ہی سوال بار بار کیوں کر رہے ہیں۔ میں کبھی اس فعل کا مرتکب نہیں ہوا، میں تو خدا تک پہنچنا چاہتا ہوں۔
درویش نے کہا میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ اگر تم نے کبھی محبت نہیں کی تو تم کبھی خود میں کچھ نہیں پا سکتے۔ خدا کو جاننے اور اس تک پہنچنے کا راستہ صرف محبت ہے۔ تمہارے پاس بیج ہی نہیں ہے تو تم درخت کس طرح اگا سکتے ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments