آخر خدا کی یہ مخلوق کدھر جائے؟


کسی بھی ریاست کے باشندوں کے بنیادی حقوق میں یہ شامل ہے کہ ان کے بچوں کو مفت تعلیم میسر ہو، صحت کی سہولیات حاصل ہوں اور انصاف کی اسے فکر نہ ہو۔ جب کس ریاست میں یہ شہریوں کو یہ سہولیات آسانی سے بلا تخصیص میسر ہوتی ہیں تو وہ اپنا اولین فرض سمجھ کر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ریاست ہماری ماں ہے اور ماں کبھی مشکل وقت میں بچے کو تنہا نہیں چھوڑتی۔

لیکن ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاں ریاست تعلیمی نظام پر کھربوں روپے خرچ کر رہی ہے، بظاہر ہر سال لاکھوں گولڈ میڈلسٹ، سلور میڈلسٹ محکمہ تعلیم میں بھرتی کیے جاتے ہیں لیکن ہمارے پرائمری اسکول ویران پڑے ہیں چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارے ایک غریب ملک کی معیشت پر بوجھ ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمارے اس نظام میں نہ کوئی نظریاتی پالیسی ہے اور نہ ایک قوم کی تشکیل ہماری اولین ترجیحات میں رہا ہے ہم محض خانہ پری کے چکر میں ہیں، دیکھا جائے تو فن لینڈ کے بعد جاپان دنیا کا دوسر ایسا ملک ہے جہاں کا نظام تعلیم دنیا کے بہترین تعلیم میں شمار ہوتا ہے، انھوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا سے تجارتی روابط رکھے لیکن اپنے نظام کی طرف کسی کو ایک نظر بھی دیکھنے نہیں دیا اور نہ ہی یہ نظام گلی کوچوں کی بھانت بھانت کی دکانوں اور تعلیم فروشوں کے حوالے کیا بلکہ اس کو اپنے ہاتھوں میں رکھا اسی لیے دوسری جنگ عظیم کے بعد کا جاپان اس جنگ سے پہلے کے جاپان سے مختلف ہے گو کہ جاپانی ثقافت ہزاروں سال پرانی ہے مگر دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے عسکری شعبہ سے توجہ ہٹا کر عدم تشدد کی بنیاد پر معاشرہ کو تشکیل دیا۔

یہی معاشرہ جدید صنعتی جاپان کی بنیاد بنا۔ اس جدید جاپان میں سکولوں میں ابتدائی سالوں کے دوران صرف اخلاقیات اور جاپانی ثقافت سکھلائی جاتی ہے۔ ابتدائی سالوں میں سیکھے ہوئے یہی اصول زندگی بھر جاپانیوں کے ساتھ چلتے ہیں۔ ان ابتدائی سالوں کے بعد سکول میں جغرافیہ، ریاضی اور سائنس کے دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے پر پوری توجہ دی جاتی ہے۔ کلاس میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل تعلیم کا لازمی حصہ قرار دی جاتی ہے۔

کیوں کہ ایک مقصد کا تعین، اس کے لیے جدوجہد اور اس جدوجہد کے نتیجے میں کامیابی یا شکست کا سامنا اور اس کے بعد کے مراحل سیکھنے کے لیے کھیل کا میدان ایک مثالی جگہ ہے۔ ہائی سکول مکمل کرنے کے بعد طلبہ یا تو ٹیکنیکل ٹریننگ کے اداروں کا رخ کرتے ہیں یا دیگر سماجی علوم کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں چلے جاتے ہیں۔ پہلا طبقہ جاپان کے صنعتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جب کہ دوسرا طبقہ اس صنعتی نظام کو جدید سے جدید تر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

بد قسمتی سے پاکستان میں بنیادی تعلیم کا نظام ایک نہ ہونے کی وجہ سے کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ جو چاہے اپنی مرضی سے آئے اور ہماری نئی نسل سے کھلواڑ کر لے۔ بہترین ذہن میڈیکل اور انجینئرنگ کی طرف چلے جاتے ہیں کچھ بیوروکریسی میں کچھ سرکاری ملازمتوں میں اور باقی جن کی کھپت کہیں نہیں وہ بغیر کوئی ٹیسٹ دیے کوئی سند لیے، اپنی ذہنی فٹنس کا پروف دیے ایک تعلیم فوشی کی دکان کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور کمائی کا ایک معقول ذریعہ بنا لیتے ہیں۔

طرفہ تماشا یہ کہ بھاری فیس کی وصولی کے ساتھ ساتھ، اپنے اسکول کی سٹیشنری کے نام سے جو لوٹ مار کی جا رہی ہے خدا کی پناہ، گزشتہ دنوں جب مجھے ایک دوست نے بتایا کہ اسکے اپنے بیٹے کی سکول والی نوٹس بکس بازار سے خریدنے کا اتفاق ہوا تو اسے یہ عقدہ واہ ہوا کہ سکول میں ہر ایک نوٹ بک کے ساتھ نوے روپے زائد وصول کیے جا رہے ہیں۔ پھر یہی ادارے دن کو سکول میں پڑھانے کی بجائے ٹیوشن ہنٹ کر کے شام کو انہیں کی اکیڈمیز میں آنے کے لیے مجبور کیے جاتے ہیں اور پھر انہیں کو نتائج میں پوزیشنز دی جاتی ہیں۔ والدین کو ایک ہی کند چھری سے تین بار ذبح کیا جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکول اسٹیشنری پر مکمل پابندی لگائی جائے اور حکومت سرکاری طور پر مناسب نرخوں پر اسٹیشنری تمام شہریوں کو بلا تخصیص فراہم کرے۔ تاکہ لوگ ان کے شکار سے بچ سکیں۔ یا تو حکومت پرائمری تعلیم کی ذمہ داری نہایت اخلاص کے ساتھ ایک نظریاتی اور فکری تشکیل کی غرض سے خود سنبھالے، یا پھر آنکھیں بند کر کے مکمل ان دکانوں کے حوالے کر دے اللہ اللہ خیر سلا۔

اسی طرح ہر علاقے کے پڑھے لکھے باشندے جن میں وکلاء، صحافی، ڈاکٹرز پروفیسرز سب مل کر جرگہ سسٹم کو منظم کریں اور کوئی بھی کیس عدالت میں لے جانے کی بجائے مقامی طور پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ مقدمات میں کروڑوں روپے ضائع کرنے کی بجائے یہی رقم بچوں کی تعلیم پر صرف ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments