میرا زیور


’یہ کون ہے؟ اس کی آنکھوں میں کہیں بھی محبت کی جھلک نہیں ہے۔ یہ عجیب طرح میری طرف دیکھ رہا ہے، جیسے، جیسے۔ پتا نہیں کیا! لیکن وہ کبھی ادھر جاتا ہے ، کبھی ادھر۔ مجھے تو اس کی شکل و صورت سے خوف آ رہا ہے۔ آخر یہ ہے کون؟ ہو سکتا ہے کہ یہ میرا وہم ہی ہو، ڈر ڈر کے کانپنے سے بہتر ہے کہ اس سے پوچھ ہی لوں۔ ‘

’کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ تم کون ہو اور مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟‘
’ہوں! گھبراؤ نہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ میں اس جگہ کو کتنا خوبصورت بنا سکتا ہوں۔ ‘

’ارے تمہیں مجھ میں کوئی حسن نظر نہیں آتا! کمال ہے، مجھے تو لوگ دور دور سے دیکھنے آتے ہیں، میرے ساتھ وقت گزارتے ہیں، میرے حسن کے گیت گاتے ہیں، میرے ساتھ تصویریں کھچواتے ہیں، اپنی کینوس پہ میرے وجود کو لکیروں سے سماتے ہیں، کچھ تو ایسے بھی عاشق ہیں جو ٹکٹکی باندھ کر میرے سراپا کو ہمیشہ کے لیے اپنے اندر محفوظ کر لیتے ہیں، کچھ جوڑے میرے پاس آ کر عہد و پیمان کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کی تجدید کرتے ہیں اور تو ایسے بات کر رہا ہے جیسے میں یہاں پر ایک بدنما بوجھ ہوں! ‘

’ارے میں نے کب کہا کہ تم دلکش نہیں ہو۔ میں تو تمہیں اتنا نکھار دوں گا کہ لوگوں کے غول در غول تمہیں دیکھنے کے لئے آئیں گے اور اتنے متاثر ہوں گے کہ تمہارے پاس مستقل سکونت اختیار کرنے کے لئے تڑپ اٹھیں گے۔ ‘

’اچھا! یہ کیسے کرو گے تم؟‘

’میں یہاں خوبصورت عمارات تعمیر کرواؤں گا، مکان بنواؤں گا، چمکتی دمکتی دکانیں، چوڑی سڑکیں، کھلے میدان، سرسبز باغیچے، یہ سب زیور پہنا کر تمہیں چار چاند لگا دوں گا، تم بھی بس خود پہ اتراؤ گی پھر۔ ‘

’اف! یہ سب کرنے کے لئے تمہیں مجھے کانٹا چھانٹنا پڑے گا، مجھے اپنے زیورات سے سجانے کے لئے پہلے میرے مکینوں کو یہاں سے نکالو گے، تمہیں کیا پتا کہ یہاں کون کون سی مخلوقات ہزاروں سالوں سے آباد ہیں! کس کس طرح کے درخت اس جگہ آزادی سے جھومتے ہیں۔ ‘

’بھئی یہ جانور وغیرہ تو کہیں اور چلے جائیں گے، کسی نئی جگہ بس جائیں گے۔ اور یہ بے ہنگم درخت اور جھاڑ پھونس جو الٹی سیدھی اگی ہوئی ہے اس کو تو اکھاڑنا ہی پڑے گا۔ اس میں کون سی بری بات ہے! ‘

’مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھ رہا ہے، اگر تم مادیت کا غلاف اتار کر اپنے شعور کو جگاؤ تو پھر تمہیں ان بے ہنگم چیزوں کی بے ترتیبی کے حسن و جمال کو پہچان پاؤ گے، یہاں کی پوشیدہ رقص و سرور کی محفلوں سے جھوم جھوم جاؤ گے، یہاں کی موسیقی کو سن کر تمہیں حال آ جائے گا۔ صبح کی باد نسیم، شام کی مچلتی ہوئی شوخی، دھوپ سے چھن چھن کے بننے والے بڑھتے مٹتے سائے، رات کی پراسرار مدہوشی اور چاندنی کا گھونگھٹ، اگر محسوس کر سکتے تو پھر تمہیں میری قدر و قیمت پتا چلتی۔ یہ جو تم ان مخلوقات کو بے گھر کرنے پہ تلے ہوئے ہو کہ یہ کہیں اور بس جائیں گی، یہ جنگلات کوئی دوچار دنوں میں ظہور پذیر نہیں ہو جاتے بلکہ ان کو آباد ہونے میں کئی دہائیاں بلکہ صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اور یہ درخت جنہیں تم کاٹ پیٹ کر مارنا چاہتے ہو، یہ تمہارے وجود کا حصہ ہیں۔ ‘

’میرے وجود کا حصہ؟ یہ کیا عجیب بات کردی تم نے! ‘

’تم جو سانس سے گندی ہوا باہر نکالتے ہو، یہ درخت اسی گندی ہوا کو اپنے اندر کھینچ لیتے ہیں اور جو آکسیجن والی ہوا باہر نکالتے ہیں تم اس کو سانس سے اندر لے جاتے ہو، یہ تمہارے ہی سانس کے نظام کا ایک جز ہیں۔ تم ان کو نہیں بلکہ خود کو نقصان پہنچانے پہ تلے ہوئے ہو۔ یہ جانور اور یہ درخت ہی میرا زیور ہے۔ مجھے تمہارے زیورات کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ ‘

’تم کیا دقیانوسی باتیں کر رہی ہو، یہ دنیا اب بدل چکی ہے۔ تم یہ ماضی کا غلاف اتار کر پھینک دو پھر تمہیں یہ نئی دنیا نظر آئے گی، ریل پیل سے چمکتی ہوئی، نت نئی اشیاء سے بھر پور، ایک ساکت نہیں بلکہ دوڑتی بھاگتی ہوئی دنیا جہاں ہر طرح کی آسائشیں موجود ہیں، ایک ایک چیز کے بے انتہا آپشنز انگلیوں کے اشارے پہ مل سکتے ہیں، لوگوں کے پاس لطف اندوز ہونے کے بے شمار طریقے، اور ایسی ترقی جس کی رفتار کو کوئی روکنے نہ پائے۔ ‘

’میں کچھ کچھ سمجھ رہی ہوں تمہاری یہ باتیں۔ تم تفریح، لطف اندوزی، اور زندگی کی بھاگ دوڑ کے وسائل بانٹتے ہو اور میں خوشی، سکون اور امن سے زندگیوں میں ٹھہراؤ پیدا کرتی ہوں۔ فیصلہ تمہارا ہے کہ تم کیا چاہتے ہو!‘

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments