جی20 سربراہ اجلاس مقبوضہ کشمیر میں منعقد کرنے کی بھارتی کوشش


دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے اتحاد جی 20 کی صدارت گزشتہ سال کے آخر میں بھارت کے حصے میں آئی اور جی 20 کی 2023 کانفرنس اس سال 9 اور 10 ستمبر کو بھارت میں منعقد ہو گی۔ جی 20 میں یورپی یونین، ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جنوبی کوریا، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ 2023 کی جی 20 کانفرنس کی مرکزی تقریب نئی دہلی میں منعقد ہونی ہے جبکہ جی 20 کے مختلف اجلاس بھارت کے دیگر 28 شہروں میں منعقد ہوں گے۔ بھارت نے جی 20 کی صدارت سنبھالنے سے پہلے سے اعلان کیا کہ جی 20 کا ایک اجلاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے متنازعہ قرار دی گئی ریاست جموں وکشمیر میں بھی منعقد کی جائے گی۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ سرینگر میں جی 20 اجلاس کی تیاری کی جائے۔

بھارت حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے اعلان کے ساتھ ہی ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ سرینگر میں جی 20 اجلاس رکھنے کی صورت میں چین اور ترکی کی طرف سے اس پر اعتراض سامنے آ سکتا ہے۔ یہ سمجھنا بالکل بھی مشکل نہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس رکھنے سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی کی کوشش ہے کہ سرینگر میں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کا اجلاس منعقد کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019 کے اقدامات کی تائید حاصل کی جائے۔

بھارت کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ سرینگر میں جی 20 اجلاس منعقد کرنے سے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر جی 20 کے رکن ممالک کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ تاہم یہاں بھارت کے لئے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرینگر میں جی 20 اجلاس کے انعقاد کے لئے بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں وسیع پیمانے پر سخت ترین اقدامات کرنا پڑیں گے اور مقبوضہ کشمیر میں کرفیو بھی لگانا پڑے گا۔ اس صورتحال میں جی 20 کے رکن ممالک کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے ظلم و ستم کی صورتحال بھی بے نقاب ہو سکتی ہے اور اس صورت مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ اس لئے بھارتی حکومت نے سرینگر میں جی 20 اجلاس کی تیاری تو کی ہے لیکن اس بارے میں ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ کہیں جی 20 ممالک کی کشمیر سے متعلق بھارتی حمایت کے حصول کی کوشش میں یہ معاملہ الٹا بھارت کے گلے نہ پڑ جائے۔

2 اور 3 مارچ کو نئی دہلی میں جی 20 کے رکن ممالک کی وزرائے خارجہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس وزرائے خارجہ کانفرنس کا موضوع لائف اسٹائل فار انوائرمنٹ تھا لیکن مغربی ممالک نے کوشش کی کہ اس اجلاس میں یوکرین کے مسئلے پر روس کی مخالفت کو کانفرنس کا مرکزی موضوع بنایا جائے۔ مغربی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں کی گئی تقاریر بھی اسی حوالے سے رہیں۔ مغربی ملکوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ جی 20 کے صدر کی حیثیت سے روس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ یوکرین کے خلاف جنگ ختم کرے۔

خاص طور پر امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے اس بات پہ زور دیا کہ جی 20 وزرائے خارجہ کانفرنس میں روس سے جنگ بند کرنے اور یوکرین سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا جائے۔ روس نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا جس سے جی 20 وزرائے خارجہ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہ کیا جا سکا۔ روسی وزیر خارجہ سرجی لاوروف نے یوکرین کے معاملے کو کانفرنس کا مرکزی موضوع بنانے کی کوشش کی سختی سے مذمت کی اور اس معاملے پہ جی 20 ممالک اور خاص طور پر جی 20 کے صدر بھارت سے اس معاملے پر احتجاج کیا۔

روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ کیا جی 20 نے عراق، لیبیا، افغانستان یا یوگوسلاویہ کے مسائل پر بات کی ہے جو یوکرین کے مسئلے پہ ایک فریق بننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح جی 20 وزرائے خارجہ اجلاس میں یوکرین کے مسئلے پر جی 20 ممالک کے درمیان اختلاف رائے سے میزبان ملک اور جی 20 کے صدر بھارت کی پوزیشن نازک صورتحال سے دوچار ہو گئی ہے اور اس کے اثرات اسی سال ستمبر میں جی 20 سربراہ اجلاس پہ بھی منفی انداز میں مرتب ہو سکتے ہیں۔

جی 20 کی صدارت ہر سال خود کار طور پر تبدیل ہوتی ہے اور 2023 کے لئے اس کی صدارت بھارت کے حصے میں آئی ہے۔ جی 20 دنیا کے اقتصادی طور پر طاقتور ممالک کی تنظیم ہے جن کی عالمی پیداوار دنیا بھر کی عالمی پیداوار کا تقریباً 80 فیصد، بین الاقوامی تجارت 75 فیصد، آبادی دنیا بھر کی آبادی کا 60 فیصد ہے اور ان ممالک میں عالمی ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے ایندھن کا اخراج 84 فیصد ہے۔ بھارت کے ارباب اختیار کا خیال ہے کہ دنیا کے معاشی طور پر طاقتور ملکوں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں اجلاس میں شرکت سے بھارت کے کشمیر سے متعلق موقف کو تقویت حاصل ہو گی اور اس سے بھارت کو لداخ کے معاملے پہ چین کے خلاف بھی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔

مسئلہ کشمیر سے متعلق اس وقت تک عالمی صورتحال یہی ہے کہ عالمی برادری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق ریاست جموں وکشمیر کو ایسا متنازعہ خطہ تصور کرتی ہے جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے طے کیا جانا ہے جس میں کشمیری عوام آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کریں۔ جبکہ بھارتی حکومت جی 20 کا سربراہی اجلاس سرینگر میں منعقد کرتے ہوئے کشمیر کے دیرینہ عالمی مسئلے کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔

اسی تناظر میں بھارتی حکومت نے جی 20 کے سربراہی اجلاس کے چند سیشن سرینگر میں منعقد کرنے کی تیاری کر رکھی ہے۔ بھارتی حکومت نے سرینگر میں جی 20 سربراہ اجلاس کا سیشن منعقد کرانے کے لئے وزارت خارجہ کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی کمیٹی بھی قائم کی ہے جس میں مقبوضہ کشمیر کے پانچ محکموں کے سیکرٹری بھی شامل ہیں۔ تاہم سرینگر میں جی 20 سربراہی اجلاس کے انعقاد کے لئے بھارت کے سامنے بڑی مشکل یہی ہے کہ اس اجلاس کے لئے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے فوج کے سخت ترین حفاظتی انتظامات کرنا پڑیں گے تا کہ اس موقع پر کشمیریوں کی طرف سے کوئی احتجاجی مظاہرہ نہ کیا جا سکے۔ اس کے لئے بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں مزید گرفتاریاں بھی کرنا پڑیں گی۔ یہ صورتحال کسی طور پر بھی جی 20 ممالک کے وفود کے لئے نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو گا اور اس سے کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر عالمی موضوع بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments