ایک تصویر اور وڈیو۔ آٹھ مارچ کا توشہ خاص!


ایک پہ رونا آیا اور دوسری پہ؟
ہنسی؟
نہیں اس پہ بھی رونے ہی کو جی چاہا وہ بھی قادر مطلق کے حضور۔

تصویر نے معاشرے کی وہ تصویر دکھائی جس کا سامنا ہر طبقے کی عورت کو ہے۔ وہ سارہ انعام ہو، نور مقدم ہو یا شہلا شاہ۔ وہ سب جن سے کسی نہ کسی مرد نے زندگی چھین لی۔ کبھی غیرت کے نام پہ، کبھی عزت کی خاطر، کبھی غصے میں پاگل ہو کر اور کبھی طاقت کے نشے میں دیوانہ بن کر۔

اور وہ سب بھی یاد آ گئیں جو کامیاب ازدواجی زندگی کا نقاب اوڑھے روز مرتی ہیں اور روز جیتی ہیں۔
ہر واقعے، ہر کہانی اور ہر داستان کے پیچھے وجہ؟
وہ۔ وہی پرانی۔

عورت مرد کے دائرے سے نکل کر انسان ہوتے ہوئے اپنی خواہش سے جینے کا حق مانگے یا یوں کہہ لیجیے کہ برابر کا انسان سمجھنے کی درخواست۔ نہ بابا نہ، ممکن نہیں۔

عورت کی اپنی سوچ؟
کیوں؟
کیا گھر میں کوئی مرد باقی نہیں رہا؟
عورت اور اپنی خواہش پوری کرنے کی خواہش؟
کیسے ہو سکتا ہے بھائی؟
عورت کو کھلی چھوٹ؟
نہ بھئی نہ، معاشرہ تباہ کرنا ہے کیا؟

عورت چھوئی موئی، شرم و حیا کی پتلی بلکہ کٹھ پتلی، اور ان دیکھی ڈور مالک کے ہاتھ میں۔ یہی رواج، یہی طریقہ اور یہی نظام۔ کرنا وہ جو مالک چاہے، چلنا ایسے جیسے حاکم کی مرضی۔

حاکم اگر کہے کہ گھر سے باہر نہیں نکلنا، تو مان لو کہ نہیں نکلنا۔
حاکم اگر فیصلہ کرے کہ سکول جانے کی ضرورت نہیں تو کاہے کی بحث؟

حاکم اگر سوچے کہ اس کی ذمہ داری ختم ہونے کا وقت ہوا اور دوسرے حاکم کا راج قائم ہونے کی ضرورت، تو سر جھکا دو۔

مالک اگر بتائے کہ کٹھ پتلی کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاسکتا تو اس کی مرضی۔

حاکم گالی دے یا تھپڑ لگائے، قبول کرنا ہی ہو گا کہ واپسی کے سب راستے ماں باپ اور معاشرے نے بند کر رکھے ہیں۔ بچیوں کا فرض نبھا دیا، اب وہ جانیں اور ان کا گھر والا۔

اس سارے قضیے میں کٹھ پتلی اگر اپنی ڈوری کاٹنا چاہے تو ماں باپ کو گوارا نہیں۔

تھوڑا صبر کر لو، کچھ قربانی دے دو، زبان بند کر لو، اس کی مرضی کے خلاف مت چلو پھر دیکھنا تم راج کرو گی۔ ستے خیراں۔

اور اگر کٹھ پتلی کہے کہ نہیں اب اور نہیں۔ میں سر جھکا کر، مالک کی مرضی کا ناچ ناچ کر تھک گئی اب اور نہیں تب حاکم کو نامنظور۔ مرد کی انا کے لیے تازیانہ سو عورت کا گلا کاٹنا ڈوری ہلانے والے کا حق۔ کٹھ پتلی کو توڑ پھوڑ کر بہا دو پانی میں۔

کیا فرق پڑتا ہے اگر کبھی اس کا بیٹا اس کی تصویر دیکھ کر مچل جائے اور سینے سے لگا کر کہے کہ یہ تصویر میں گھر لے کر جاؤں گا، یہ میری ماں کی ہے۔

بچہ ہے نا، ناسمجھ انوکھا لاڈلا۔ کل کو جب مرد بنے گا تب ماں نامی عورت سے تعلق کے اظہار سے آنکھ میں لہو اترے گا، طیش اور گالیاں۔ اچھا ہوا دادا نے مار دیا، بدکردار عورت تھی، اخ تھو۔

یہ ہے تصویر کی کہانی۔ حیدر آباد میں قتل کی جانے والی شہلا شاہ کا پوسٹر دیکھ کر اسے گھر لے جانے کی ضد کرنے والے بچے کی تصویر۔ امر سندھو نے کیمرے میں امر کر دی۔

کیا عورت مارچ کی مخالفت کرنے والوں کو اس بچے کی آنکھ میں کرب دکھائی دیا؟ کم عمری، ماں کی گود سے محرومی، قاتل دادا کے ساتھ رہنے کی مجبوری اور نہ جانے کتنے آنسو۔

کیا کہیں کہ اندھوں کے شہر میں آئینہ کون دیکھ سکتا ہے؟
دوسرا ایک وڈیو کلپ۔

وڈیو میں ایک عورت ہاتھ میں پوسٹر تھامے کھڑی ہے جس پہ کچھ لینے دینے کے متعلق لکھا گیا ہے۔ نہ جانے کس آستین کے سانپ نے اس خاتون کو وہی سبق لکھ کر دے دیا جس کے مطابق عورت محض جسم کا نام ہے۔ ایک سوراخ جس کا استعمال عورت کے وجود کی گواہی دیتا ہے۔

کیا وقت اور زمانے کا جبر اس حد تک بڑھ گیا کہ عورت بھی خود کو انسان کی بجائے ایک جسم سمجھ بیٹھی۔ جسم۔ استعمال کی جنس، مالک کا تابع، حاکم کا مطیع، ذہن و روح سے خالی، خواہش و پسند ناپسند سے بالاتر۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ ایک ایسا کوڑے دان جس میں حاکم و مالک اپنی غلاظت انڈیل دیں، جب جی چاہے، جہاں جی چاہے۔

ساتھ میں مائیکروفون ہاتھ میں تھامے ایک نوجوان، وڈیو وائرل بنانے کے شوق میں آپے سے باہر۔ بار بار پوچھتا ہے اگر عورت کمرے میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ہو اور شوہر آ جائے تو شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟

چائے بنا کر دے یا ٹھکائی کرے؟
کیا عجب سوال ہے؟ اور اسے کیسے عورت کے حقوق کی جنگ سے جوڑا گیا ہے؟

عورت ریپ ہو، قتل ہو، تعلیم اور وراثت سے محروم رکھی جائے، شوہر سے دن رات ہڈیاں تڑوائے، اہم نہیں۔ اہم ہے تو صرف اتنا کہ عورت کو کسی نہ کسی طور فاحشہ ثابت کیا جائے۔

جواب دینے والی عورتیں زچ ہو کر مرد کی پسند کا جواب دیتی ہیں۔ کیجیے سوال کرنے والے کا مشن کامیاب، وڈیو وائرل۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ مرد کے ہرجائی پن کی کہانی کسی کے لیے بھی انہونی نہیں۔ بھنورا صفت مرد شاید اپنا عکس عورت میں تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہم سوچتے ہیں اس سوال کو ترتیب دینے والے کی زندگی میں کیا کوئی عورت ہو گی؟ اگر ہاں تو وہ مرد اسے کیا سمجھتا ہو گا؟ ہمیں یہ سوال تنگ کرتا ہے۔

اس سوال نے مرد کی ذہنیت پہ پڑا نقاب بھی سرکا دیا ہے جن کے مطابق عورت کے وجود کا ایک ہی مقصد۔ شوہر گھر سے نکلا، بوائے فرینڈ گھسا، بوائے فرینڈ فارغ ہوا، شوہر آ گیا۔

عورت کو چکلے میں بٹھانے والوں کی کسی دور میں کمی نہیں رہی۔ عورت کے جسم سے جنم لینے والے کو جب عورت کی زندگی کا کوئی اور مصرف سمجھ میں نہ آئے تب سمجھ آتا ہے کہ کم ظرف کی آشنائی عورت ذات کو کیسے تار تار کر سکتی ہے؟

میاں محمد بخش ہمارے دکھ میں برابر کے شریک ہیں
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہیں پایا
کیکر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments