نیم صادق، نیم امین اور ثاقب نثار


دنیا بھر کے زیادہ تر سیاستدانوں سے ان کے عوام شاکی رہتے ہیں۔ مختلف قسم کے جھوٹ، وعدہ خلافیاں اور بے اعتدالیاں ان سے منسوب رہتی ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کی اور زیادہ بدقسمتی ہے کہ یہاں یہ برائیاں عام ہیں۔ پاکستان اس معاملے میں یقیناً اس فہرست میں کہیں بہت اوپر آتا ہے۔

لیکن اسی ملک نے اپنے آئین کی دفعہ 62 کے تحت پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) کا رکن منتخب ہونے کے لئے صادق اور امین کی پخ لگا رکھی ہے۔ اب ہمارا خیال تھا کہ ہمارے سیاستدانوں میں صادق سنجرانی اور امین گنڈاپور جیسے تو ہوسکتے ہیں ”صادق اور امین“ کون ملے گا۔ ایسے میں چند سال قبل ہمارے مشہور زمانہ بابا رحمت المعروف ڈیم والی سرکار نے باقاعدہ عدالتی خوشخبری سنائی تھی کہ ہمارا دامن ایسے ہیرے سے خالی نہیں۔ انہوں نے ہمارے سابق وزیراعظم اور ریاست مدینہ (ثانی) کے بانی جناب عمران خان کو صادق اور امین قرار دے کر ہماری محرومی کا ازالہ فرمایا تھا۔

ہم اقوام عالم کے سامنے فخر سے کہہ سکتے تھے کہ ہم زندہ قوم ہیں، ہمارے پاس عدالت کا سند یافتہ صادق اور امین موجود ہے۔ اسی زعم میں ہم اپنے صادق و امین کی بہت سی ذاتی اور مالی بے اعتدالیوں کو بھی صرف نظر کرتے رہے۔ کرتے بھی کیوں نہ کہ منصف اعلی نے انہیں جس اعلی مرتبے پر فائز فرمایا تھا اس سے اختلاف کسی ہما شما کے بس میں نہیں تھا۔ پھر نہ ہی ہما اور نہ ہی شما توہین عدالت کے مرتکب ہوسکتے تھے کہ چیف صاحب بڑے سخت تھے، چلتی عدالت میں ججوں کے موبائل فون پھینک دیا کرتے تھے، ہسپتالوں میں جا جا کر شرابیں دریافت کر لیا کرتے تھے۔ ڈیم کے پیسے اکٹھے کیا کرتے اور تو اور آبادی کنٹرول کرنے کے لئے کانفرنس بھی طلب کرلیتے تھے۔ اب کیا ہما شما بھی طلب ہو جاتے؟ بس اسی طلبی سے ڈرتے ان کے ہر فیصلے سے صاد کرتے نظر آئے کیونکہ اعلی عدالت کے چالیس ہزار زیرالتوا کیسوں میں سب سے پہلے اسے ہی زحمت دی جاتی جسے بابا رحمت چاہتے۔

خیر ابھی تک ہم ان کے صادق و امین کے فیصلے کے نشے میں تھے کہ اچانک آج انہوں نے انکشاف فرما دیا ہے کہ انہوں نے عمران خان صاحب کو مکمل طور پر صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا۔ یہاں ہم دوستوں میں تھوڑا سا ابہام پیدا ہوا ہے۔ ہمارے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ جزوی صادق و امین مطلب وہ مہینے کے پندرہ دن صادق و امین ہوتے ہوں گے اور پندرہ دن نہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ خان صاحب صبح صادق کو صادق، دوپہر کو امین اور رات کو غیر صادق و امین ہوتے ہوں گے۔ لیکن ہمیں جو تعریف سب سے زیادہ پسند آئی وہ نیم صادق و نیم امین کی ہے۔

اب ہم ایک نیا محاورہ ایجاد کر کے اردو ادب کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب بچپن سے ایک محاورہ سنتے آئے ہیں کہ ”نیم حکیم خطرہ جاں، نیم ملا خطرہ ایماں۔“ اب استاذی وجاہت مسعود اور عثمان قاضی جیسے ہمارے پڑھے لکھے دوست ہماری مشکل حل کر سکتے ہیں (ویسے صلائے عام ہے کہ ہم سب کے لکھنے والے اور قاری بہت ذہین لوگ ہیں) اور یہ نیا محاورہ تشکیل دینے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں کہ نیم صادق۔ نیم امین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments