گردوں اور عورتوں کا عالمی دن


آج عورتیں دنیا کی آبادی کا نصف سے زائد ہیں اور انھیں مردوں کی زندگی کا نصف بہتر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ گردوں اور عورتوں کا عالمی دن ایک ہی تاریخ کو وارد ہو رہے ہیں۔ یعنی 8 مارچ کا دن گردوں اور عورتوں دونوں کا ہے۔

کرہ ارض پر پائی جانے والی عورت نامی مخلوق کو جہاں اپنے اور بہت سے حقوق کا پتہ نہیں اسی طرح دنیا کی اس آدھی سے زیادہ آبادی کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہے کہ ان کے گردے ان کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ اور وہ کون سے عوامل ہیں جو ایک صحت مند عورت کی ذرا سی لاپرواہی سے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔

گزشتہ سترہ سال سے اقوام عالم مارچ کی دوسری جمعرات کو ”گردوں کے عالمی دن“ کے طور پر منا رہی ہے۔ اس دن کا بنیادی مقصد لوگوں میں ان عوامل کی آگاہی دینا ہے جو خرابی گردہ کا سبب بنتے ہیں اور انسانی صحت کو اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ اس کے بعد ایک جیتی جاگتی زندگی زندہ رہنے کے لئے ڈائیلیسس یا تبدیلی گردہ کی محتاج ہوجاتی ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ یہ طریقہ علاج اس وقت دینا کا سب سے مہنگا طریقہ علاج ہے اور دوسری یہ کہ دنیا میں اتنے گردے میسر نہیں کہ ہر خرابی گردہ کا مریض اس سے استفادہ حاصل کر سکے۔

ان ہی مسائل کے پیش نظر امراض گردہ کی عالمی تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ عوام الناس کو ان عوامل کی زیادہ سے زیادہ آگاہی دی جائے جو گردوں کی مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ جیسے ذیابیطس، بلند فشار خون، موروثی بیماریاں اور پتھریاں وغیرہ۔

دنیا کی آبادی کا دس فیصد خرابی گردہ کے امراض میں مبتلا ہے۔ دنیا میں HIV اور AIDS کے بعد مرنے کا تیسرا بڑا سبب امراض گردہ ہیں۔ جاننے اور سمجھنے کے لئے یہ بات جان لینا کافی ہے کہ 2010 تک امراض گردہ سے مرنے والوں کا عالمی تناسب 18 ویں نمبر پر تھا لیکن محض چند سالوں میں موت کا یہ سبب تیسرے نمبر پر آ گیا۔

پاکستان میں ایک لاکھ مرنے والوں میں سے 25 فیصد کی موت کا سبب امراض گردہ ہوتے ہیں۔ یعنی پچیس ہزار افراد سالانہ گردے کے امراض کی پیچیدگیوں کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں آج بھی سب سے زیادہ اموات نوزائیدہ بچوں کی ہوتی ہیں۔ یہ ہی نہیں اس ملک کی چوراسی فیصد آبادی کو پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں جب کہ دیہاتوں میں نوے فیصد آبادی اس سہولت سے محروم ہے۔

ان اعداد شمار کی روشنی میں ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ پاکستانی طرز معاشرت میں عورتوں کی صحت کا کیا عالم ہو گا۔ ایک ایسا ملک جہاں عورت کا وجود ہر وقت ٹکٹکی پر لٹکا ہو اور مردوں کی جھوٹی عزت وقار کی پگڑی کو عورتوں کے خون بہا سے رنگا جاتا ہو اور چار چاند لگائے جاتے ہوں۔

حالانکہ صحت کے تمام معاملات ہر عورت کا اپنا مسئلہ ٔ ہوتا ہے لیکن پاکستانی طرز معاشرت میں عورت ایک ایسے ماحول میں زندہ رہنے پر مجبور ہوتی ہے جہاں اس کے پیدا ہونے سے لے کر موت تک کے اکثر فیصلے اس کے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کرتے ہیں۔

پاکستان میں عورتوں کی آبادی کا 80 فیصد ناخواندہ عورتوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اتنے بڑے حصے کا ناخواندہ ہونا بھی شاید اتنا برا نہیں جتنا کہ ان کی زندگی کے بیشتر فیصلے مرد کرتے ہیں۔ مثلاً حمل کا برقرار رہنا یا ڈاکٹر کے پاس جانا نہ جانا وغیرہ۔

جب ہم عورتوں کی خواندگی کی بات کرتے ہیں تو اس میں وہ عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں جو اپنا نام لکھ سکتی ہیں یا جن کو قرآن پڑھنا آتا ہے۔ اکیسویں صدی میں ایک ایسا ملک جہاں شہری آبادی کے چوراسی فیصد کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو اور پانی کی فراہمی گھر کی عورتوں اور لڑکیوں کی ذمہ داری ہو وہ ملک یا اس کی عورتیں کیسے ترقی کر سکتی ہیں۔ ایسے گھرانے نہ تعلیم پر توجہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی ان گھروں کی عورتیں صحت اور اس سے جڑے مسائل پر توجہ دے سکتی ہیں۔ خواہ وہ اس کی صحت ہو یا اس کے بچوں کی، ہم سب اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کا شمار ان مما لک میں ہوتا ہے جہاں گھر سازی میں عورت کی حیثیت ثانوی اور وہ مختلف ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔

آج جب دنیا عورتوں کے مسائل کے بارے میں بات کر رہی ہے اور دوسری طرف گردوں کی صحت مندی اور اس سے جڑے مسائل زیر بحث ہیں تو پاکستانی عورتوں کو بھی اس طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

ایک مکمل صحت مند عورت ہی صحت مند معاشرے کی ضمانت ہے اور صحت مند معاشرے سے مراد صحت مند بچے ہیں کہ آج بھی پاکستان میں پیدا ہونے والے ایک لاکھ بچوں میں سے ایک سو اٹھتر بچے پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ یہ غیر صحت مند ماؤں کے غیر صحت مند بچے ہوتے ہیں۔ ماں کی غذائی کمی کی وجہ سے بہت سے بچے پیدا ہوتے ہی مختلف مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حاملہ عورت کی صحت کا خیال رکھنا اس کے شوہر، خاندان اور معاشرے سمیت سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

حاملہ عورت کے گردوں، مثانے اور پیشاب کی نالیوں میں جراثیم (انفیکشن) کی موجودگی بچے کی قبل از وقت پیدائش کا سبب بن سکتی ہے اور حمل کے ابتدائی دنوں میں اس کا ضیاع بھی ہو سکتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں نقصان عورت ہی کا ہوتا ہے۔ حاملہ عورت کی جانب سے پیشاب میں جلن یا کسی بھی قسم کی تکلیف کا اظہار فوری توجہ طلب ہوتا ہے۔ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے بلڈ پریشر کا خاص خیال رکھیں خاص طور پر دوران حمل کسی بھی قریب ترین زچہ بچہ مرکز یا اسپتال میں خود کو رجسٹر کروائیں اور باقاعدگی سے ان تمام ہدایات پر عمل کریں جو مرکز سے دی جائیں۔ گھروں میں دائیوں یا مڈ وائف کے ذریعے بچے کی تولیدگی کرنے والی عورتوں پر بھی لازم ہے کہ دوران حمل کسی بھی قریبی مرکز سے اپنا بلڈ پریشر چیک کرواتی رہیں۔ سر میں مستقل درد یا گھبراہٹ کی صورت میں فوری طور پر بلڈ پریشر چیک ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی زیادتی نہ صرف زچہ بچہ کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے گردوں کی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے۔

حمل کے دنوں میں پیروں کی سوجن بھی فوری توجہ چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس بات کو یہ کہہ کر نہ ٹالیں کہ میری اماں اور ان کی اماں کو بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا عورتوں پر لازم ہے کہ وہ دوران حمل ماہر زچہ بچہ سے رابطے میں رہیں اور اس کی ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔ اکثر عورتوں کی شوگر حمل کے دنوں میں بڑھ جاتی ہے جو خطرے کی علامت ہے۔ انھیں نگہداشت اور علاج کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی عورتیں اپنی زندگی میں آگے جا کر باآسانی شوگر کے مرض میں مبتلا ہو سکتی ہیں۔

حاملہ اور غیر حاملہ تمام عورتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بلڈ پریشر اور شوگر کا مرض ساری دنیا میں خرابی گردہ کا سب سے بڑا سبب ہے۔ دوران زچگی خون کا دباؤ ایک حد سے زیادہ ہونا گردوں کی وقتی اور مکمل خرابی کی وجہ بن سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں عورت کا بروقت مکمل اور درست علاج ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔

بچے کی پیدائش کے لئے بھی صحت مند ماحول بہت ضروری ہے۔ گھروں میں نا تجربہ کار ہاتھوں میں پیدائش کا عمل بعض اوقات عورت کی صحت کو ایسے مسائل سے دوچار کر دیتا ہے جس کا آگے چل کر کوئی حل اور علاج نہیں ہوتا۔

بچے کی پیدائش کے دوران اگر عورت کے مثانے کو نقصان پہنچ جائے تو وہ ساری عمر کے لئے پیشاب نہ رکنے کے مرض میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ یہ صورت حال متاثرہ عورت کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے اسے جسمانی تکلیف کے ساتھ ساتھ معاشرتی بد سلوکی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گاؤں وغیرہ میں ایسی عورت کے علاج پر دھیان دینے کے بجائے اسے اچھوت بنا کر گھر کے کسی کونے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔

حمل کے ضائع ہونے کی صورت میں بھی احتیاطی تدابیر ضروری ہوتی ہیں۔ اکثر عورتوں کے گردے اس موقع پر مناسب نگہداشت اور علاج نہ ہونے کے باعث ہمیشہ کے لئے خراب ہو جاتے ہیں۔ جس کے باعث دیہاتوں میں اکثر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ دوران پیدائش یا حمل کے ضائع ہونے کے باعث خون کا ضیاع بھی اکثر گردوں کے وقتی یا مکمل خرابی کی وجہ بن جاتا ہے۔

عورتوں کو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ان میں گردے مثانے کے انفیکشن کا تناسب مردوں کی نسبت زیادہ اور جلدی ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ عورتوں میں پیشاب کی نالی کا سیدھا ہونا اور دوسرا اس کا چھوٹا ہونا ہے۔ عورتوں اور لڑکیوں کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے خاص ایام کے دوران اپنے جسم اور کپڑوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں خاص طور پر استعمال ہونے والے کپڑے صاف ستھرے ہوں۔ ہمارے روایتی معاشرے میں ماہواری کے خون سے آلودہ کپڑوں کو دھونے اور بار بار استعمال کرنے کا رواج عام ہے۔ عورتوں کی صحت کے لئے یہ ایک بہت ہی غیر صحت مندانہ فعل ہے۔ ایسے ہی بعض گھرانوں میں ان دنوں نہانے کی قطعی ممانعت ہوتی ہے۔ جب کہ طبی نقطہ نگاہ سے ماہواری کے دنوں میں عورت کو نہانے دھونے اور صفائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے بصورت دیگر عورت مختلف اقسام کے انفیکشن کا شکار بن سکتی ہے۔ یہ ہی نہیں ان دنوں میں عورتوں، لڑکیوں کو جلدی جلدی باتھ روم جانا چاہیے۔

عورتیں اپنے گردوں کی حفاظت یوں بھی کر سکتی ہیں کہ پانی کا استعمال زیادہ کریں اور باتھ روم کے استعمال میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ درسگاہوں اور کام کی جگہ پر باتھ روم اور صاف ستھرے باتھ روم کی سہولت عورتوں کا بھی حق ہے۔ اس حق کے استعمال میں تکلف سے کام نہ لیں۔

عورتوں میں درد کی دواؤں کے استعمال کا تناسب زیادہ ہوتا ہے اس سلسلے میں احتیاط برتیں ان دواؤں کی زیادتی گردوں کے فعل کو متاثر کرتی ہے۔

وزن کی زیادتی بھی گردوں کی بیماری کا سبب بن سکتی ہے۔

گردے نہ صرف خون کی صفائی کرتے ہیں بلکہ ہماری صحت کا دار و مدار ان کی صحت سے منسلک ہے۔ ان کی خرابی مرد عورت دونوں کی خرابی صحت کا سبب بن سکتی ہے۔

یاد رکھیں گردوں کا کوئی نعم البدل نہیں اور صحت مند عورت کے بنا گھر مکمل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments