پاکستان پوسٹ ٹروتھ کی اگلی منزل میں


کیا دنیا ہمیشہ سے یونہی افراتفری اور غیر منطقی سی رہی ہے جیسا کہ ہمیں آج کل نظر آتی ہے؟ یہی سوال آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے رائٹر فلپ روتھ کے لیے بھی بے چینی کا سبب بنا تھا جب انہوں نے کئی ایک آرٹیکلز اس موضوع پر لکھ دیے تھے۔ ان کا سوال بھی یہی تھا کہ آخر سچائی فکشن کے مقابلے میں اس قدر اجنبی کیوں ہوتی جا رہی ہے؟

پچھلے دنوں یہی موضوع مجھے بھی میچیکو کائکوتانی کی کتاب ’ڈیتھ آف ٹروتھ‘ میں بھی جگہ جگہ دکھائی دیا۔ اس کتاب میں کائکو تانی نے تاریخی پس منظر کے ساتھ ٹرمپ کے سیاسی دورانیہ پر ایک تفصیلی تجزیاتی نظر ڈالی کہ کس طرح سے فیک نیوز کی بمبار منٹ کے بدولت امریکہ ایک ’پوسٹ ٹروتھ ایرا یا دور‘ میں داخل ہوا اور عوام الناس کی سوچنے و سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ہوتیں چلی گئی۔

کائکو تانی کی اس کتاب کے مطالعے کے دوران میرا ذہن مسلسل پاکستان کے حالیہ سیاسی منظر نامے کے ارد گرد بھٹکتا رہا اور مجھے اس تشویش میں مبتلا رکھتا رہا کہ اگر بڑی طاقتوں اور تعلیمی و تہذیبی اعتبار سے اسٹیبلشڈ سوسائٹیز کو یوں آسانی سے سیاسی و سماجی اعتبار سے اپنے مذموم ارادوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے تو پاکستان جیسے غریب ملک کی بھلا کیا اوقات ہے جہاں کی عوام میں سیاسی و سماجی اعتبار سے بلوغت کو کبھی قریب تک پھٹکنے بھی نہیں دیا گیا اور جو اپنی پیدائش کے دور سے ہی پوسٹ ٹروتھ دور میں ہی جی رہا ہے۔

پاکستان کی معاشی و فکری طور پر غریب و جذباتی عوام کا تو یہ حال ہے کہ محض چند جھوٹے سچے وعدوں، نعروں اور خوابوں ہی سے بیچاری گمراہ ہو کر جان و مال کا نذرانہ دینے کے خاطر فوراً ہی سڑکوں اور گلیوں میں نکل آتی ہے۔ پاکستان، امریکہ اور انڈیا حالیہ برسوں میں جس طرح سے فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک اور یو ٹیوب کلچر جیسی سستی سوشل تفریح کا شکار ہوتے رہے اور سیاسی مشینری کے ارادوں کے لیے استعمال ہوئے، اس ساری پریکٹس نے امریکہ میں ڈیموکریسی، انڈیا میں سیکولر ازم اور پاکستان میں پورے سیاسی و سماجی کلچر کو نزع کے عالم تک پہنچا دیا ہے۔ خصوصاً امریکہ کے پس منظر میں سترہویں اور اٹھارہویں صدی کی یورپین روشن خیالی کی تحریک پر بھی اس سارے عمل نے چند سخت سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ مذہبی رواداری اور نسلی امتیاز سے بالاتر بنیادوں پر قائم مضبوط معاشرے کو بھی سوشل میڈیا پر اظہار و خیال کی آزادی اور دلائل کو منفی رخ پر استعمال کر کے کس قدر آسانی سے سیاسی و سماجی پولرائزیشن کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔

جب 1839 میں ابراہیم لنکن امریکہ میں انصاف کی بالادستی اور اظہار میں دلائل کی آزادی کو اپنے لایسم ایڑیس کا حصہ بنا رہے تھے تو ٹھیک اسی وقت رائٹ ونگ پارٹیز، اینٹی کیتھولک اور اور اینٹی امیگرنٹ سلوگنز کو شدت سے استعمال کر رہی تھی، اس وقت بھی امریکہ میں عوام الناس کی ایک بڑی تعداد گلوبلائیزیشن اور ٹیکنالوجی کو ورکنگ کلاس کے لیے معاشی پسماندگی کا سبب بتانے میں جتی ہوئی تھی۔ اس دور میں بھی فلپ روتھ اور رچرڈ ہوفسٹرڈ جیسے رائٹرز نے اس طرز سیاست کو ’انڈیجینیس امریکن برسرک‘ اور ’پیرانائڑ اسٹائل‘ کا نام دیا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس اسٹائل یا طرز سیاست کی جڑیں ہمیشہ ہی کاؤنٹر انداز میں حقائق اور دلائل کے خلاف سیاسی زمین میں دبی رہی اور ’زرا نم ہو یہ مٹی تو بہت زرخیز ہے ساقی‘ کی طرح فیس بک اور ٹویٹر کے دور میں بہت ہی آسانی سے سیاسی فضا میں پھیلتی چلی گئی ہیں۔

فیک نیوز کے طریقہ واردات میں حقائق اور اعداد و شمار کو نظر انداز کرنے کے لیے انسانی نفسیات کی ’نی جرک ٹیکنیک‘ استعمال کی جاتی ہے اور پھر لائک مائینڈ ٹرابیز میں ’کنفرمیشن بائی آس‘ کے ذریعے سے فیک نیوز سلوگن اور نعروں کی شکل میں پھیلا دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے جذباتی نعروں، پرسنیلٹی کرشمہ اور پولرائزیشن کے ماحول میں دلائل اور حقائق کا وجود یوں بھی باقی نہیں بچتا ہے اس لیے فیک نیوز کا پھیلاؤ اس قدر شدید اور تیز رفتار ہوتا ہے کہ سوسائٹی راتوں رات انتہا پسندانہ دھڑوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔

اندازہ لگائیں کہ 2016 میں پیو سروے کے مطابق 45 فیصد امریکی عوام ریپبلک کو اور 41 فیصد ڈیموکریٹ کو امریکہ کے لیے سخت خطرناک تصور کرچکے تھے اور آج کل چائنیز طرز کی مطلق العنانیت کے خاطر پاکستان کا کم و بیش پورا معاشرہ ہی دو انتہائی رائے والے سیاسی دھڑوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے جس کے تحت پاکستان کی ایک سیاسی جماعت فرشتوں کی جماعت اور بقیہ تمام سیاسی جماعتیں نرے شیطانوں پر مشتمل ہے اور دلچسپ بات یہی ہے کہ اس سارے پروپیگنڈے میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جس کے پاس بھی سوائے سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی فیک اعداد و شمار، گالی گلوچ، نعروں، بیہودہ وڈیو کلپس اور پروپیگنڈے کے سوا کچھ اور دستیاب ہو، یعنی ٹروتھ یا سچائی سراسر حامیوں کی موضوعی فہم یا سمجھ پر دھری ہوئی ہے اور ٹروتھ کی معروضہ سچائی سے کسی بھی شخص کو کوئی سروکار نہیں۔

پوسٹ ٹروتھ دور کی ایک بڑی وجہ پوسٹ ماڈرن ازم کی وہ تھیوری بھی ہے جس کے مطابق حقیقت سراسر ایک موضوعی مظہر ہے یعنی بلیک اور وائیٹ، مرد اور عورت، پڑھے لکھے اور غیر تعلیم یافتہ، مڈل اور لوئر کلاس کے مسائل قطعی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس لیے ان کی سچائیاں بھی ان کے لحاظ سے قطعی مختلف ہیں۔ 1951 میں حنا ہارڈنٹ نے ”اوریجن آف ٹوٹیلی ٹیرین ازم“ کے پس منظر میں لکھا تھا کہ اگر سوسائٹی میں مطلق العنانیت پھیلانا مقصود ہو تو فیکٹ اور فکشن کا فرق پوری قوت سے ختم کر کے اسے مخالف دھڑوں میں توڑ دینا ضروری ہے، اب سوال یہی ہے کہ پاکستان جیسا ملک جو پہلے ہی لسانی، مذہبی، نسلی، صوبائی اور معاشی بوجھ سے تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے، مجرمانہ مطلق العنانیت کے خاطر اس بہیمانہ تقسیم سے کس قدر بچ پائے گا؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments