تاریخ اور عورت


 زیر نظر تحریر ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب “تاریخ اور عورت” کا خلاصہ ہے۔
عورتوں کی بیشتر تاریخ مردوں نے لکھی ہے جس میں عورتوں کا کردار اور عمل ہمیشہ سے مردوں کا تابع رہا ہے۔ مردوں کی لکھی ہوئی تاریخ میں عورت یا تو مظلوم ہے یا منحوس۔ قدیم تہذیبوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حجری دور میں مادرانہ نظام رائج تھا۔ عورت زمین جوتتی، اناج پیستی، روٹی پکاتی، لباس سیتی، برتن بناتی، مویشی پالتی، باغ بانی کرتی، لکڑیاں کاٹتی، بچے پیدا کرتی اور گھر کی دیکھ بھال کرتی۔ زرعی معاشرے میں عورت زرخیزی اور پیداوار کی علامت تھی، مگر ہل اور دیگر اوزار و ہتھیار کی ایجاد کے بعد فصلوں اور عام گھریلو زندگی سے عورتوں کی اجارہ داری ختم ہوکر ان کی سماجی حیثیت گھٹ گئی، مردوں کا رتبہ بڑھ گیا اور پدرانہ معاشرہ وجود میں آیا۔
پدرانہ تصور سے نجی ملکیت کا تصور ابھرا۔ نجی زمین، نجی پیدوار اور نجی بیوی کے تصور نے عورت کو گھر کی چار دیواری تک محدود کردیا اور عورتیں تمام صلاحیتیں کھو گئیں۔ پدرانہ معاشرے میں دیوتاؤں پر جانوروں اور غلاموں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی قربان کیا جاتا تھا۔ عورتوں کا اپنا وجود اور اپنی عزت نہیں ہوا کرتی تھی، بل کہ وہ مال، شے اور مردوں کی عزت و آبرو ہوا کرتی تھیں۔ عورتوں کا بہ طور تحفہ، مال غنیمت، خراج، کنیز اور لونڈی بھی تبادلہ کیا جاتا تھا۔ عورتوں کی خرید وفروخت کے زریعے قبیلوں کے باہمی تعلقات کی بحالی، جنگ وجدل کا خاتمہ اور سیاسی فوائد کا حصول بھی کیا جاتا تھا۔ بابر نے اپنی بہن خان زادہ بیگم کو شیبانی خان کے حوالے کرکے سیاسی صلح کرائی تھی اور راجپوتوں نے اپنی لڑکیاں اکبر کو رشتے میں دے کر مغل سلطنت میں مراعات حاصل کی تھیں۔ جنگ عظیم اول و ثانی اور مابعد جنگوں میں دیکھا گیا کہ فاتح افواج نے مفتوح اقوام کی عورتوں کی آبرو ریزی کو فتح اور فخر کی نگاہ سے دیکھا تھا۔
عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے میں ہر عقیدے اور ہر طبقے نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ تورات میں شوہروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ بیویوں سے غلاموں جیسا سلوک کریں اور نافرمانی کی صورت میں مردوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ بیویوں کو طلاق اور حتی کہ سزائے موت بھی دے سکتے ہیں۔ چرچ نے عورت کو کسی حد تک بے اختیار کیا۔ ماسون، اومولین، ٹالیڈو اور سینٹ آگسٹائن کی عورتوں سے یہاں تک نفرت تھی کہ ان کی بیٹیاں اور بھتیجیاں بھی ان سے دور رہتی تھیں اور ان کے گھروں میں عورتوں کا داخلہ بند تھا۔ وہ عورت کو مرد کی بگڑی ہوئی شکل قرار دیتے تھے۔ ان کو عورتوں کی آواز اور بالوں سے چڑ تھی۔ ہندو معاشرے میں ستی ایک بدنما رسم تھی جو راجہ رام موہن اور برطانویوں کی کوششوں سے ختم ہوگئی۔ راہبوں، پادریوں اور صوفیہ کرام نے شادی کرنے کے بجائے مجردانہ زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ ان کی کامیابی عورتوں سے دور رہنے میں تھی۔ وہ ادب، رقص اور موسیقی کو ناپسند کرتے تھے۔ مصری تاریخ میں بادشاہوں کے مرنے پر ان کی کنیزیں اور بیویاں بھی ان کے ساتھ دفنائی جاتی تھیں۔ سید علی ہجویری نے حوا کو آدم کے لیے پہلا فتنہ کہا ہے۔ صوفیہ کے نزدیک عورت وہ رقیب ہے جو مومنوں اور خدا کی محبت میں رکاوٹ ہے۔ امام غزالی کے نزدیک بیوی شوہر کی لونڈی ہوتی ہے۔
عورتوں کا سب سے زیادہ استحصال امرا، اشرافیہ اور حکم رانوں نے کیا ہے۔ عورت کے تمام روپ سمیت کنیز، لونڈی اور طوائف مرد نے تراشے ہیں۔ عورتوں اور گھر کا تعلق بہت پرانا ہے مگر عورتوں اور حرم کا تعلق ایرانی اور بازنطینی بادشاہوں سے شروع ہوتا ہے۔ بادشاہوں کے مرنے کے بعد حرم میں مقید عورتوں کی عمر بھر شادیاں نہیں کرائی جاتی تھیں اور ان کی عام نگرانی اور ضروریات کی فراہمی کے لیے خواجہ سراؤں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ مسلم حکم رانوں میں سب سے زیادہ عظیم الشان حرم عثمانی خلفا کا تھا۔ امیہ اور عباسی دور میں خوب صورت اور فنون لطیفہ میں ماہر کنیزوں کی بہت بڑی مانگ تھی۔ خلیفہ المتوکل کے پاس چار ہزار کنیزیں تھیں۔ خلیفہ یزید ثانی کی موت اپنی پسندیدہ کنیز کے سوگ میں واقع ہوئی تھی۔ مغلوں کے بھی شان دار حرم ہوا کرتے تھے۔ اکبر کے دودھ شریک بھائی مرزا عزیز کہا کرتے تھے کہ بیویاں چار ہونی چاہیے: ایک عراقی مصاحبت و گفت گو کے لیے، دوسری خراسانی امور خانہ داری کے لیے، تیسری ہندی ہم بستری کے لیے اور چوتھی ماوراء النہری مارپیٹ کے لیے۔ مغربیوں کے نزدیک مثالی عورت کا چہرہ انگریز عورت کا ہو، جسم جرمن کا ہو اور دل ربائی پیرس والی ہو۔ ہندستان میں طوائف کا عروج اس وقت ہوا جب عورت کو چار دیواری میں مقید اور تعلیم و تربیت سے محروم رکھا گیا۔ بنیادی طور پر طوائفوں کی بنیاد گھٹن زدہ گھریلو ماحول اور سماجی پابندیوں کی وجہ سے پڑ گئی۔
عورتوں کے لیے شادی تحفظ کی علامت ہے مگر جہیز کی لعنت نے اس سے کاروبار بنایا ہے۔ شادیاں عموماً والدین کی مرضی سے ہوتی ہیں اور رشتہ ناکامی کی صورت میں تعویذ گنڈوں کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ برصغیر میں اشرافیہ، علما، ادبا اور حتی کہ سرسید بھی عورتوں کی تعلیم کے جزوی طور پر خلاف تھے، مگر انگریزوں کی آمد نے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے نئی بحثیں چھیڑ دیں۔ مشرقی عورتوں کو ذہنی طور پر کامیاب شادی پر آمادہ کرنے کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی نے “بہشتی زیور” لکھی۔ بہشتی زیور پڑھنے کے بعد ایک مشرقی عورت صحیح معنوں میں “شریف، اطاعت گزار، نیک اور پرہیز گار” بیوی بن سکتی ہے۔ بہشتی زیور پڑھنے کے بعد ایک بیوی اپنے مکمل ہوش وحواس کے ساتھ اپنے سارے قانونی و شرعی حقوق سے بآسانی دست بردار ہوسکتی ہے۔ بیویوں کو شوہروں کے ماتحت کرنے میں بہشتی زیور بہت کارآمد آلہ ثابت ہوٸی۔ تب سے اب تک نوبیاہتا دلھنوں کو بہشتی زیور بہ طور خاص تحفے میں دی جاتی ہے۔
عورت کو اگرچہ کچلا اور دبایا گیا ہے پھر بھی اس نے شکست تسلیم نہیں کی ہے۔ وہ اب تک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور ہر شعبہ زندگی میں بھرپور شرکت رکھتی ہے۔ تاریخ میں عورت ملکہ کی حیثیت سے بھی وجود رکھتی ہے۔ رضیہ سلطانہ، چاند بی بی، الزبتھ، کیتھرین، ٹریسا وغیرہ آج تک کامیاب حکم رانوں کے نام سے زندہ و جاوید ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments