قوم شاید جماعت کی لائق نہیں


آج ایک بحث چلی جو چلتے چلتے دور تک چلی گئی۔ چھوٹے موٹے دانشوروں کے دلچسپ تبصروں نے اس عوامی بحث کو ایک لمحے کے لئے بھی سرد نہیں ہونے دیا۔ ویسے بھی سیاسی بحثوں میں ہم سارے شیر ہیں۔ سیاسی بحث کے دوران ویلے لوگ ایسے ایسے فلسفے جھاڑتے ہیں کہ رومی، یونانی، افریقی عربی اور انگریزی فلاسفر سر پکڑ کے بیٹھ جاتے ہیں۔

مہنگائی اور خراب معاشی صورتحال کے باعث اب کسی میں یہ دم خم نہیں رہا کہ وہ موجودہ اتحادی حکومت ( مہنگائی سرکار) میں شامل کسی بھی جماعت کا پہلے کی طرح دفاع کرسکے کیونکہ مہنگائی کے جھٹکوں اور ٹیکسز کے ٹیکوں نے تیرہ جماعتوں کے حامیوں کی بھی کمر توڑ کر رکھی دی۔ اگرچہ حکومتی اقدامات پر نادم متوالوں اور جیالوں کے دلوں میں اب بھی میاں دے نعرے وجنے نے۔ دلا تیر بجا لگے دشمناں تے۔ جیسے پارٹی گانوں سے اندر سے گُد گُدی ہو رہی ہے۔ تاہم مہنگائی کا حوالہ آتے ہی ان کے ماتھوں سے پسینے چھوٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔

کریں تو کیا کریں کے مصداق یہ عام حامی یا سوشل میڈیا حامی مہنگائی کے تباہ کن طوفان میں مشکل سے اپنا اپنا چولہا جلائے رکھنے میں مصروف ہیں۔ بحث کی باری آتی ہے تو یہ پچھلی صف میں کھسک جاتے ہیں۔ اعداد و شمار سامنے آتے ہیں تو یہ اپنی غمگین نگاہیں نئی نویلی دلہن کی طرح نیچے جھکا دیتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ البتہ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو اب بھی میاں صاحب کو قوم کا مسیحا قرار دیتے ہیں۔ بعض آصف زرداری کے بیٹے بلاول زرداری کو تاریک راہوں میں روشنی سمجھتے ہیں۔ بعض مولانا اور ان فرزند کو قوم کے دکھوں کا مداوا سمجھتے ہیں۔ باقی سیاسی عداوت میں بڑبڑاتے رہتے ہیں۔

بات تبدیلی راگ پر بھی ہوئی۔ شرکائے بحث کپتان کے معاملے پر تقسیم نظر آئے۔ کچھ کا کہنا تھا۔ بس کرو۔ رہنے دو۔ نہیں ہو گا ان سے۔ قوم نے پانچ سال کے لئے چنا ساڑھے تین سال میں ہی واپس آ گئے۔ قوم کو خواب دکھانے والے اقتدار میں آ کر بھنگ پیکر خود سوئے رہے۔ کسی نے کہا پاپولر لیڈر ہے ایک موقع اور دو۔ دوسرا بولا۔ اس پاپولر کا کیا کرنا جس کی وزیراعظم ہاؤس تک اپنی مرضی نہ چل سکی۔ ایک دیوانے نے سوال اٹھایا۔ کیا وہ ان حلقوں میں بھی پاپولر ہے جہاں قوم کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں۔

ہال کے کونے میں بیٹھے ایک سیانے (جو کافی دیر سے خاموش گرماگرم بحث سے لطف اندوز ہو رہا تھا ) نے آواز دی۔ اور پوچھا۔ پھر حل کیا۔

مذاق مذاق میں سب یک زبان بولے۔ جماعت اسلامی۔ اس پر ہال میں قہقہے بھی گونجے۔
سوالی نے پھر پوچھا۔ بی سیریس۔ قوم کے مستقبل کی بات ہو رہی ہے۔
جس پر ایک نے سیانے کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا چپ کر۔ بڑا آیا فلاسفر۔

خیر وہ تو چپ ہو گیا۔ لیکن ایک اور نوجوان نے حسب توفیق بحث میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ایک اہم اور اختتامی جملہ بولا۔ شاید پاکستانی عوام، جماعت اسلامی کے لائق نہیں ہیں۔ بحث اسی جملے پر ختم ہوئی۔

سنہ 2014 میں عام انتخابات سے چند روز پہلے راولپنڈی کے علاقہ صادق آباد میں جماعت اسلامی کے امیدوار برائے پنجاب اسمبلی رضا شاہ کی کارنر میٹنگ تھی۔ اس دوران میں نے خاصے دور دور اور تھوڑے ناراض ناراض بیٹھے لوگوں سے جماعت اسلامی اور جماعت کے امیدوار سے متعلق کئی سوالات پوچھے۔ تو اس دوران لوگوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ رضا شاہ باقیوں سے بہتر اور عوام کے ہمدرد ہیں۔ ان پر کرپشن کا کوئی الزام بھی نہیں۔ لیکن ووٹ شیر یا تیر کو ہی دیں گے۔ میں نے گفتگو کا تسلسل ٹوٹنے نہ دیا اور اگلا سوال یہ پوچھا۔ جماعت پر کرپشن، غیرجمہوری طرز عمل یا موروثیت کا الزام نہیں پھر بھی آپ کو جماعت کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ لوگوں سے جواب ملا بس، ہمارے تھانہ، کورٹ اور کچہری کے معاملات بھی ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ لوگ زیادہ اسلام اسلام کرتے ہیں۔

اب الیکشن جلد یا بدیر ہونے والے ہیں۔ دیکھتے ہیں عوام ووٹ کا درست استعمال کرتے ہیں یا اپنے لیے ایک بار پھر عذاب کا انتخاب کرتے ہیں۔ عوام نے اس بار ضمیر کے مطابق ووٹ نہ ڈالا تو پانچ سال بعد پھر ہم ووٹ کے صحیح چناؤ پر لکھتے ہوں گے۔ ملک کے مسائل جوں کے توں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments