حکمرانی سے محکومی کی طرف سفر


تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندوستان جغرافیائی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے بری طرح تقسیم اور نہایت پس ماندہ تھا۔ اُس کی ہزاروں سالہ تاریخ میں صرف چندر گپت موریا اور اَشوک دو اَیسے حکمران گزرے ہیں جن کے زیرِانتظام پورا ہندوستان رہا، مگر یہ عہد فقط نوے برسوں پر محیط تھا۔ باہر سے آریہ آئے جنہوں نے قدیم ہندوستانی باشندوں کو جانوروں کی طرح جنوب کی طرف دھکیل دیا اور پورے معاشرے کو ذات پات میں تقسیم کر ڈالا۔ اونچی ذات کے لوگ نظامِ حکومت چلاتے، زراعت و تجارت کے پیداواری ذرائع پر قابض رہتے اور دفاعی اُمور سرانجام دیتے۔ نچلی ذات سے وابستہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد اَچھوت کہلاتی اور غلاموں کی سی زندگی بسر کرتی تھی۔ برہمنوں کو سب سے اونچی ذات کا رتبہ حاصل تھا، اِس لیے وہی سیاہ و سفید کے مالک اور تقدس کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے۔ ذات پات کی کڑی تقسیم نے معاشرے کو ہم آہنگی اور حریتِ فکر سے محروم کر دیا تھا۔ برہمنوں نے اِس امر کا خاص اہتمام کر رکھا تھا کہ ہندوستان میں ہندومت کے سوا اَور کوئی مذہب جڑیں نہ پکڑ سکے، چنانچہ بدھ مت اور جین مت کے بانی کوئی بڑا سیاسی انقلاب نہیں لا سکے اور اُن کے پیروکاروں کو آخرکار ہندوستان سے نکل کر مشرقی ملکوں میں بسیرا کرنا پڑا۔

اِس امر کے شواہد موجود ہیں کہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہی میں جزیرہ نما عرب سے مسلم تاجر ہندوستان آنے لگے تھے۔ صدیوں سے عرب ملاح ہندوستان کے مغربی ساحل کی بندرگاہوں سے پوری طرح واقف تھے اور اُنہی علاقوں میں مستقل طور پر آباد بھی ہو گئے تھے۔ مدراس کے مختلف راجاؤں نے اُن کی بہت حوصلہ افزائی کی تھی کہ اُن کی خوشحالی کا دار و مدار مسلمانوں کی بحری تجارت پر تھا۔ وہ اَپنی رعایا کے نوجوانوں کو اِسلام قبول کرنے اور بحری تجارت کے گُر سیکھنے کی ترغیب دیتے۔ مالابار کے ساحل پر آج بھی اُن عرب تاجروں اور اُن سے متاثر ہو کر اِسلام قبول کرنے والوں کی اولادیں آباد ہیں۔ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی آمد محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے شروع ہوئی۔ وہ ایک مسلم خاتون کی دہائی دینے پر اُس کی مدد کو پہنچے تھے جسے راجہ داہر کے علاقے میں ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ حملہ 712 ء میں ہوا اَور سندھ ”باب الاسلام“ کہلایا۔ اِس کے بعد 1192 ء میں شہاب الدین غوری دہلی فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 1206 ء میں قطب الدین ایبک نے ”سلاطینِ دہلی“ کی سلطنت قائم کی۔

سلاطینِ دہلی کے بعد ظہیر الدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد 1526 ء میں رکھی جو 1857 ء تک قائم رہی۔ اُن سات صدیوں میں ہندوستان کی کایا پلٹ ہو چکی تھی۔ مسلمانوں نے اِس منتشر خطے کو ایک مستحکم برِصغیر میں تبدیل کر دیا تھا۔ شہنشاہ جلال الدین اکبر نے تو ہندوستان کے علاوہ اَفغانستان پر بھی حکومت کی۔ اِس طرح یہ خطہ ایک سپرپاور کی حیثیت اختیار کر گیا۔ مغل بادشاہ شہاب الدین شاہجہاں کے زمانے میں ہندوستان کی شان و شوکت کا یہ عالم تھا کہ یورپ کے حکمران اور عوام ہندوستانی مصنوعات کے استعمال پر ایک گونہ فخر محسوس کرتے تھے اور دُنیا کے بڑے بڑے حکمران اِس کی طرف رشک بھری نظروں سے دیکھتے اور اِسے ”سونے کی چڑیا“ کے الفاظ سے پکارتے تھے۔ برِصغیر کی دولت اور جاہ و جلال کو دیکھ کر بڑے بڑے مغربی ممالک میں اِس پر قبضہ کرنے کی آرزو اَنگڑائیاں لینے لگی تھی۔ ایک صدی اُن کے درمیان مسابقت کی جنگ جاری رہی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی 1757 ء کی جنگِ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئی اور 1857 ء میں اُس نے پورے ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔

مسلمانوں نے ہندوستان کو صرف جغرافیائی وحدت ہی نہیں دی تھی، بلکہ ایک جدید طرزِ حکومت بھی روشناس کرایا۔ شیرشاہ سُوری نے سڑکوں اور سراؤں کا جال بچھا دیا تھا۔ اُن کے دورِ حکومت میں ایک جاذبِ نظر فنِ تعمیر ایجاد ہوا۔ عالیشان مسجدیں، قلعے اور وَسیع و عریض باغات کی جلو میں کشادہ بستیاں تعمیر ہوئیں۔ کھلے اور ہوادار مکانات کا رواج چل نکلا۔ علم و حکمت کے مراکز قائم ہوئے۔ فارسی، اُردو زبانوں کو فروغ ملا اور ایک باوقار تہذیب پروان چڑھتی رہی۔ مسلمان حکمران پورے اختیارات کے مالک ہونے کے باوجود رعایا کے ساتھ اچھا سلوک روا رَکھتے، اُنہیں انصاف اور بنیادی حقوق فراہم کرتے اور مذہب کی بنیاد پر حکومتی معاملات میں کسی قسم کی تفریق سے کام نہ لیتے۔ عدالتیں قائم تھیں جن میں مقدمات کے فیصلے جلد ہوتے۔ زرعی زمینوں کی پیمائش اور مالیہ وصول کرنے کا نظام پہلی بار مسلمانوں ہی نے متعارف کرایا تھا جو آج بھی بھارت اور پاکستان میں رائج ہے۔ بعض حکمران اِس قدر وَسیع الظرف تھے کہ اُنہوں نے ہندو رَاجپوتوں میں شادیاں بھی کر لی تھیں۔

سلاطینِ دہلی بالعموم اسلامی شعائر کے پابند رہے، مگر مغل بادشاہوں نے محی الدین اورنگزیب عالمگیر کے سوا اِسلام کی اشاعت میں بہت کم دلچسپی لی۔ مغربی طاقتوں کی جو تجارتی کمپنیاں حکمرانوں کی بے بصیرتی کے باعث قائم ہو گئی تھیں، وہ معاشرے میں شدید بگاڑ پیدا کرنے کا ذریعہ بن رہی تھیں اور اُنہوں نے فوجی سرگرمیاں بھی شروع کر دی تھیں۔ اِس بگڑتی ہوئی صورتِ حال میں مرہٹوں اور سکھوں نے بڑی طاقت حاصل کر لی تھی۔ اُنہی دنوں 1739 ء میں ایران سے نادر شاہ نے دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ مرہٹے اِس قدر طاقت ور ہو گئے تھے کہ اُس وقت کے بلند پایہ اسلامی مفکر اور عملی فراست کے حامل جناب شاہ وَلی اللّٰہؒ نے افغانستان کے حاکم احمد شاہ اَبدالی کو خط لکھا کہ ہندوستان میں اسلام کو فنا ہونے سے بچانے کے لیے مرہٹوں کی طاقت ختم کرنا لازمی ہے۔ وہ لشکرِ جرار کے ساتھ حملہ آور ہوا اَور اُس نے 1761 ء کی پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کا پوری طرح قلع قمع کیا۔ صوبہ سرحد اور پنجاب میں سکھوں کی فوجی طاقت کے آگے بند باندھنے کے لیے ’تحریکِ مجاہدین‘ نے مسلمانوں کو غیرمعمولی نظم کے ساتھ جاں فروشی کے لیے تیار کیا، مگر سکھوں کو درپردہ اَنگریزوں کی حمایت حاصل ہونے کے سبب تحریک اپنے فوری مقصد میں کامیاب نہ ہو سکی اور اُس کے قائدین سیّد احمد بریلویؒ اور شاہ اِسمٰعیلؒ 1831 ء میں بالاکوٹ کے مقام پر شہید ہوئے۔ (جاری ہے )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments