بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے دس سال۔ کامیاب یا ناکام؟


چینی قومی سیاسی مشاورتی کانفرنس کی 14 ویں قومی کمیٹی کے پہلے اجلاس کے ترجمان گو ویمین نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بی آر آئی کی تعمیر نے شریک ممالک کے لئے موثر سرمایہ کاری اور زیادہ معیاری اثاثے فراہم کیے ہیں۔ گو کے مطابق رواں سال فروری کے وسط تک چین نے 151 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے اور بیلٹ اینڈ روڈ کے ساتھ منسلک ممالک کے ساتھ اس کی سالانہ تجارتی قدر 2013 سے 2022 تک تقریباً دوگنی ہو گئی تھی۔

سال 2023 بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو کے دس سال مکمل ہونے کا سال ہے۔ یہ وہ منصوبہ ہے جسے اب دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ چین کا یہ منصوبہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے تاریخی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ عام طور پر دو ممالک کے درمیان کوئی بڑا منصوبہ تشکیل پاتا ہے تو اس منصوبے سے بھی ان ممالک کے پڑوسیوں اور ارد گرد کے ممالک کو معاشی اور معاشرتی فائدہ پہنچتا ہے لیکن اگر منصوبہ دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو ہو اور اس کا حجم اتنا بڑا ہو کہ وہ دنیا کو ایک سڑک کے ذریعے ملانے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

اس منصوبے کے آغاز ہی سے اس کے مکمل ہونے اور نہ ہونے اور عملی ہونے نہ ہونے کی بحث چلی آ رہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ منصوبہ ممالک نہیں بلکہ براعظموں کے مل جانے کا منصوبہ ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی طاقتیں کبھی ایسے وسائل پیدا ہونے کے حق میں نہیں رہتی جس سے ممالک ان کی مالی اور اقتصادی قید سے آزاد ہونے کا تصور بھی کر سکیں۔

اس منصوبے کا ایک حصہ پاک چین راہ داری بھی ہے جس کے تحت پاکستان میں کئی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور کافی منصوبے اپنے تکمیلی مراحل میں ہیں۔ کئی ماہر معاشیات پاک چین راہ داری کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اس خطے میں ایک ٹیسٹ کیس بھی کہتے ہیں جس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ استعماری طاقتوں اور مفادات کے سمندر میں دوستی اور تعاون کی یہ ناؤ اگر کامیابی سے تیر جاتی ہے تو اس سفر سے باقی مسافروں کا حوصلہ بھی بڑھ جائے گا اور راستہ اور سمت بھی طے ہو جائے گی۔

کچھ عرصہ قبل چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ایک کھلا اور جامع پلیٹ فارم ہے اور بیجنگ اور اسلام آباد مشترکہ ترقی کے حصول کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو کے فلیگ شپ منصوبے کی تعمیر میں شرکت کے لیے تمام ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کا خیرمقدم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ممالک اور تنظیمیں بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کے ثمرات کو بانٹنے کے لئے مناسب طریقوں سے سی پیک میں شامل ہوسکتے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کچھ عرصے قبل ترکی کے دورے کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوان کے ہمراہ استنبول میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تعمیر میں شرکت کی دعوت دی اور کہا کہ اگر ترکی اس فلیگ شپ منصوبے میں شامل ہونے کے خیال کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو وہ چینی قیادت کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

واضح رہے کہ سی پیک 2013 میں شروع کیا گیا تھا جس میں گوادر پورٹ، توانائی، انفراسٹرکچر اور صنعتوں میں تعاون پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں سائنس اور ٹیکنالوجی، زراعت، لوگوں کے ذریعہ معاش اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعتوں کے شعبوں میں اپنے تعاون کو بڑھایا ہے۔

جیسا کہ آغاز میں بات ہوئی کہ چین 2023 میں چین اپنے فلیگ شپ بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو (بی آر آئی) کی دسویں سالگرہ منا رہا ہے جو دنیا بھر میں سڑکوں، بندرگاہوں اور دیگر اہم بنیادی ڈھانچے کی فنڈنگ کے لیے اربوں ڈالر کا منصوبہ ہے تو اس حوالے سے عالمی معیشت پر چین کی بین الاقوامی مالیات کی اہمیت اور رجحانات پر غور کرنا ضروری ہے۔

بی آر آئی کی سب سے بڑی کامیابی ریاستی اور کاروباری اداروں کو باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے ایک مربوط اور اجازت یافتہ ماحول فراہم کرنا تھا۔

بی آر آئی کی حکمت عملی بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔ مثال کے طور پر، 2021 تک، چین نے 140 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں (ایم او یو) پر دستخط کیے ہیں، جن میں سے 46 افریقہ میں، 37 ایشیا میں، 27 یورپ میں، 11 شمالی امریکہ میں، 11 بحر الکاہل میں اور 8 لاطینی امریکہ میں ہیں۔ مزید یہ کہ 2012 میں، چین کی بیرون ملک براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) 82 بلین ڈالر تھی، لیکن 2020 میں، یہ 154 بلین ڈالر تھی، جسے دنیا کے نمبر ایک غیر ملکی سرمایہ کار کے طور پر درجہ بندی میں شامل کیا گیا تھا۔ بی آر آئی ممالک میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ بھی متاثر کن رہا ہے۔

اس کے علاوہ، چین نے بی آر آئی کے رہنما خطوط کو واضح اور مضبوط کیا ہے جو مستقبل میں بی آر آئی منصوبوں کے نفاذ کو شکل دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سیاسی قیادت نے بی آر آئی پر زور دیا ہے کہ وہ ویژن سے عمل کی طرف بڑھے، اور مستقبل کے بی آر آئی منصوبوں کو ”سبز اور پائیدار ترقی“ کے مطابق بنائے۔ ریاست نے آگے بڑھنے کے لئے بی آر آئی کے لئے تین مشنز کی بھی وضاحت کی ہے :

ترقی کو فروغ دینا: اس مشن میں چین کے ترقیاتی تجربے کا اشتراک کرنا، دیگر قومی معیشتوں کے ساتھ منسلک ہونا اور عالمی ترقی کے لئے طویل مدتی بنیاد کو بڑھانا شامل ہے۔

دوبارہ گلوبلائزیشن: اس مشن میں سمندری اور زمینی گلوبلائزیشن کو دوبارہ متوازن کرنا۔ زیادہ جامع اور منصفانہ عالمی معیشت کی تعمیر نو؛

نئی علاقائیت: روایتی اقتصادی یونینوں اور زونز کے برعکس اقتصادی راہداریاں اور بیلٹس۔

جوں جوں بی آر آئی دس سال کی عمر کے قریب پہنچا، گھریلو ترجیحات کے ساتھ اس کا انضمام زیادہ منظم ہو گیا ہے۔ راہداریوں میں زمین پر مبنی بی آر آئی سنکیانگ کی ترقی اور مغربی چین کی گلوبلائزیشن سے مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ سمندر پر مبنی بی آر آئی کا ہانگ کانگ کے ارد گرد گریٹر بے حکمت عملی اور مشرقی چین کی سمندری توسیع کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ مزید برآں، چین کے سرکاری ملکیت کے ادارے (ایس او ایز) گرین اکانومی، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، تعمیراتی صنعتوں اور ریلوے میں اپنی سرمایہ کاری اور آپریشنز کو بڑھا رہے ہیں۔

مجموعی طور پر اس منصوبے کے پہلے دس سال خاصی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس رائے پر تنقید کرنے والے مغربی طاقت اور اثر و رسوخ کے نکتے پر اپنی رائے کو زیادہ وزن دیتے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ بحث اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب آپ اس منصوبے کا آغاز کرنے والے ملک، چین کی گزشتہ دس سالوں میں کی جانے والی ترقی اور عالمی منظر نامے میں اور حیثیت میں اضافہ دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments