میرا جسم میری مرضی


یاد رکھو، حبس زدہ معاشرے میں جو چیخ بلند ہوگی وہ فلک شگاف ہوگی۔
بچی جو مردود مردوں کے ہاتھوں ریپ ہوئی، یا کبھی نہ کبھی ہوگی اور کچرے کے ڈھیر پر پھینک دی جائے گی کہ تحفظ کی ضمانت نہ ریاست دیتی ہے اور نہ سماج، وہ بچی یہ بھی نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی؟

مجنون کزن کی دل لگی اور عاشقانہ رشتہ ٹھکرانے پر جو لڑکی تیزاب سے جھلسا دی جائے، وہ جھلسا چہرہ کندھے پر دھرے یہ بھی نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی؟

ہر دن طلاق دے کر، ہر رات حرام ہو چکا شوہر بستر میں اپنی مطلقہ کو ریپ کرے، وہ لڑکی زمانے کے خوف سے چپ رہے۔ طلاقیں لیتی رہے اور زنا کا شکار ہوتی رہے، مگر یہ نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی؟

شوہر جانور بن کر اس کا جسم غیر فطری طریقے سے استعمال کر کے اذیت دیتا رہے، غیر فطری طریقے سے سیکس کروائے، لڑکی کے حلق میں نطفہ انڈیلے، بدنصیب لڑکی وہ قے بھی نگل جائے اور آہ بھی نہ بھرے! میرا جسم میری مرضی تو بالکل ہی نہ کہے؟

کئی اذیت ناک زنانہ بیماریوں سے گزرتی لڑکی شوہر اور سسرال کی فرمائش پر، جان ہتھیلی پر دھرے، بنا توقف بچے پیدا کرتی چلی جائے اور خونم خون لاش کی صورت شوہر کی شہوت کا شکار ہوتی رہے، بچہ دانی میں کینسر جیسا موذی مرض پالتی رہے مگر شوہر کا نطفہ اس میں انڈیلتی رہے۔ یہ نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی؟

بے غیرت شوہر، سسر، دیور، بھائی، چچا زاد، ماموں زاد، باپ، چچا، ماموں، شکاری بن کر لڑکی کا شکار کھیلتے رہیں! قتل کر دیں! جلا دیں! گردن سے دبوچ کر اپنی مرضی کے آدمی کے بستر میں جھونک دیں، جھوٹے جعلی نکاح کے جال میں پھنسا دیں، برادری اور قبیلے کے لین دین میں استعمال کریں، قتل کے تاوان میں دے دیں، مگر بدنصیب یہ نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی؟

راہ چلتا مردود، بھوکا مرد، اس کی ٹانگوں کے بیچ ہاتھ مار جائے، چھاتیاں نوچ لے، مگر لڑکی چپ رہے۔ ہرگز نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی!

بات بے بات فٹ بال کی طرح شوہر کی ٹھوکروں میں لڑھکا کرے، پٹتی رہے مگر نہ فریاد کناں ہو، نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی؟

گھر میں کولھو کے بیل کی طرح گھومتی رہے، ہانپتی رہے، چولہے کی دھونکنی میں سانسیں بھرتی رہے، یہاں تک کہ بوڑھی ہو گرے اور کونے میں ڈھیری بنی پڑی رہے، مگر زندگی میں ایک سانس بھر بھی نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی؟

تعلیمی درس گاہوں میں کامیابی کے چند نمبر حاصل کرنے کے لیے جنسی مریض اساتذہ کے گندے ہاتھوں میں لڑکی بے بس ہو رہے، دفتروں میں افسروں اور ہم پیشہ مردوں کے میلے ہاتھوں کو سہتی رہے مگر نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی؟

یہاں تک کہ مدرسوں، مسجدوں اور گھروں میں بچیوں اور بچوں کے ایک ہاتھ میں کلامِ اللہ اور دوسرے میں اپنا شہوانی عضو دے کر معصوموں کو شکار کیا جائے، خدا کے گھر میں ان کا ریپ کیا جائے، پھر خود کو تو یہ کہہ کر بری الذمہ ٹھہرایا جائے کہ شیطان کے بہکاوے میں آ گیا تھا، دستار اور جبہ والے بھی جس کی مذمت نہ کریں، مگر لڑکی یا بچہ، جب بڑے ہوں تو یہ نہ کہیں کہ میرا جسم میری مرضی!

لڑکی تو صبر کرے۔ صبر کرنا اس کا کام ہے۔ صبر کے پھل کا انتظار کرے۔ گونگی بہری بنی رہے۔ خود پر ہوا ہر مکروہ ظلم چھپا دے۔ اس ظلم کا کرب اپنے ساتھ قبر میں لے جائے۔ سمجھے کہ وہ قبر میں پڑی لاش ہے! قبر میں بھی تو ریپ ہوتی ہے نا! قبر میں تو میرا جسم میری مرضی نہیں کہتی!

تو اب بھی نہ کہے!
ابھی بھی قبر میں پڑی لاش بنی رہے!
مگر کیوں نہ کہے؟
آخر کیوں نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی؟
اپنے جسم کی حفاظت نہ کرے؟ اپنی مرضی کی زندگی نہ گزارے؟ اپنے جسم کے ناجائز استعمال پر مزاحمت نہ کرے؟

عورت کا جسم کیا اتنا بڑا جرم ہے کہ وہ اپنے جسم کے بچاؤ میں آواز بلند کرے تو سماج کی غیرت کا مسئلہ بن جائے!

کبھی اپنی بچی کو تحفظ کی چھاؤں میں بٹھا کر پوچھیے تو سہی کہ وہ انسانی جنگل سے کس طرح گزر رہی ہے؟ اپنے ہی گھر کی چار دیواری میں، خون کے رشتوں کے درمیان اس کا جسم محفوظ ہے بھی کہ نہیں؟

کبھی شادی کا میلہ لگا کر بیاہی گئی اپنی بچی سے پوچھ کر تو دیکھیے کہ وہ شوہر کے بستر میں کس کس اذیت سے گزرتی ہے؟

جہاں سماج میں لفظ ”جسم“ پر مرد کی رال ٹپک پڑتی ہو، جہاں ماں باپ بیٹیوں کو تحفظ نہ دے سکتے ہوں، جہاں بھائی بہنوں کے جسم کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرتے ہوں کہ یہ جسم کس کے بستر کی زینت بنے گا ورنہ قتل کر دیا جائے گا، جہاں عورت کی زندگی داؤ پر لگا کر پے در پے بچے پیدا کرنے کو مذہبی رنگ دیا جائے وہاں عورت لفظ ”میرا جسم“ بھی نہ کہے؟

کیونکہ لفظ ”میرا جسم“ سے آپ کو شہوانی خیال آتا ہے؟
مگر اب وہ خود اپنی محافظ کیوں نہ بنے؟
کیوں نہ کہے کہ میرا جسم میری مرضی؟

اٹھ لڑکی!
اٹھ کھڑی ہو
بلند آواز کہہ، میرا جسم میری مرضی
اور بلند آواز
اور بلند آواز

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah