طلاق ایک سہولت یا ذہنی اذیت کا اوزار؟


میں قسم کھا کر کہتا ہوں اس عورت کو طلاق دے دوں گا، میری زندگی عذاب کر کے رکھ دی ہے اس عورت نے۔ منہ سے جھاگ اڑاتا، وہ پڑھا لکھا سرکاری افسر جہالت کی انتہا پر تھا۔ بیوی ششدر سی اس کو تک رہی تھی اور اپنا ناکردہ گناہ تلاش کر رہی تھی جس کی پاداش میں جیتے جی اس کے حصے میں دوزخ کی اذیت آئی تھی۔

آپ کو یہی ملی تھی میرے لئے؟ کوئی اور گھر نہیں ملا تھا آپ کو؟ ماں کو دیکھ کر وہ مزید شیر ہوا۔

وہ حیران نظروں سے کمرے کے کھلے دروازے سے آنے والی خاتون کو دیکھ رہی تھی۔ عزت نفس کی دھجیاں اس نے اپنی گیلی آنکھوں سے ہر طرف اڑتے دیکھیں۔ ماں نے کچھ دیر خاموشی سے یہ ”تماشا“ دیکھا اور بکتی جھکتی باہر نکل گئی کہ یہ تو روز کا معمول تھا۔

ازدواجی زندگی کے نو سال گزارنے کے بعد بھی وہ نا تو اس شخص کو سمجھ پائی اور نا ہی اپنی نادیدہ غلطیوں کو ڈھونڈ پائی کہ جن کا بہانہ بنا کر ہر بار وہ اس کو ذہنی اذیت دیتا۔ چار بچوں کی ماں ہو کر بھی اس کی عزت ”دو کوڑی“ جتنی ہی تھی۔ نو سالوں میں کم ازکم نو سو بار وہ ”طلاق“ کی دھمکی سن چکی تھی۔

تم بیوی ہو میری، میری بات کو بیٹھ کر سنا کرو، سب کام چھوڑ کر پوری توجہ کے ساتھ۔ نئے دن میں نئے الفاظ کے ساتھ اپنی بات دہراتا وہ ایک ”جنگلی سانڈ“ دکھائی دے رہا تھا۔ گھر کی صفائی میں الجھی وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش میں تھی کہ اب نجانے کیا قصور سر زد ہوا۔ جالے اتارنے والا برش سائیڈ پر رکھ کر وہ ساتھ آ بیٹھی۔ کاش کوئی ایسا برش بھی ہوتا جو پدر شاہی دماغ کے جالے صاف کرتا۔ اس نے سوچا اور خاموشی سے اس ”مجازی خدا“ کی طرف دیکھا جو خود کو حقیقی خدا سمجھ بیٹھا تھا اور یہی خاموشی طوفان برپا کر گئی۔

جواب دو میری بات کا، تمھیں سمجھ نہیں آتا؟ وہ غرایا۔ کیا جواب چاہیے آپ کو؟ طلاق دینی ہے؟ ابھی دے دیں۔ یہ روز روز کی دھمکی کیوں دیتے ہیں آپ؟ ایک بار دے کر قصہ تمام کیوں نہیں کر دیتے؟ میں مزید اس اذیت کو برداشت نہیں کر سکتی۔ بیوی بنا کر لائے تھے، لونڈی نہیں۔ آج اس کی برداشت کا پیمانہ چھلک گیا۔ آگے جو ہوا وہ پدر شاہی سماج کا عام رواج ہے۔

کہتے ہیں پانی سو ڈگری کے بعد ابلتا ہے، بیوی بھی ”تھرڈ ڈگری“ کے بعد چٹختی ہے۔ آپ جس لڑکی کو ساری دنیا کے سامنے ”عزت“ بنا کر لاتے ہیں کیا اس کو ذرا سی عزت نہیں دے سکتے؟ بات بات پہ گالم گلوچ، مار کٹائی، اور طلاق کی دھمکی چہ معنی؟ جس مذہب نے آپ کے ہاتھ میں طلاق کا ”ہتھیار“ تھمایا ہے وہی مذہب عورت کے لئے بھی ”خلع“ کی سہولت دیتا ہے۔ آپ نے اس سہولت کو اپنا حق سمجھ کر ”ذہنی اذیت“ کا اوزار بنا دیا ہے۔

بیوی آپ کی اولاد پیدا بھی کرے اس کو پالے بھی سہی، اس کے لئے اپنی نیند کی قربانی دے اور بدلے میں آپ اس کو کیا دیتے ہیں؟ اس کی تعلیم کا طعنہ، اس کے والدین اور بہن بھائیوں کی بے عزتی۔ بات بے بات طلاق کی دھمکی؟ طلاق ہی تو ہے ایک بیوی کو کتنی بار دیں گے؟ میری بیوی میری ملکیت سمجھنے والو، جس دن آپ کا کھانا گرم کرنے والی کا دماغ گرم ہوا اس دن آپ کے لئے یہ زمین جہنم بن جائے گی۔ طلاق ”حلال“ کاموں میں سب سے نا پسندیدہ کام ہے۔ یہ ان لوگوں کے لئے سہولت ہے جن کا گزارہ کسی طور بھی ممکن نہیں۔ اسے ایک سہولت ہی رہنے دیں ذہنی اذیت کا ہتھیار نا سمجھیں۔ جس دن وار خالی گیا اس دن گھر بھی خالی ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments