ہماری قومی سلامتی اور افغانوں کا داخلی انتشار


افغانستان میں برسرپیکار عسکری گروپوں کے مابین خوں ریز تصادم کی لہریں نوے کی دہائی کی مہیب خانہ جنگیوں کی مانند ایک بار پھر داخلی انتشار کے شعلوں میں ڈھل کے ہماری مغربی بارڈر سے ملحقہ صوبوں کو متاثر کرنے لگیں، جس کی بازگشت ہمیں بارڈر ایریا میں بسنے والوں کی جذباتی پکار میں سنائی دیتی ہیں، شاعر یاسر وزیرستانی نے ٹویٹ کی گئی اپنی رزمیہ پشتو نظم میں حالات کی صورت گری کرتے ہوئے لکھا ”جنگ بالائی گاؤں (افغانستان) سے اتر کر زیریں (پاکستانی) منطقوں کی طرف بڑھ رہی ہے، اے دوست چلو تشکیل کے لئے چلیں، مفتی نور ولی میدان کارزار میں ہیں کیونکہ حاجی گل بہادر کے گاؤں میں جنگ جاری ہے“ ۔

گویا مغربی سرحدات کے اطراف رہنے والے شہریوں کو اپنے سروں پہ جس خونی تصادم کے بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں، اس کے ڈانڈے گزشتہ سال 8 اگست کی شب افغان ضلع پکتیکا کے گاؤں بیربل کے نزدیک روڈ کنارے نصب آئی ای ڈی دھماکہ میں جماعت الاحرار کے امیر خالد خراسانی کی تین ساتھیوں سمیت ہلاکت اور 9 اگست کی صبح صوبہ کنڑ میں اسی گروپ کے مرکزی رہنما مولانا عبید باجوڑی المعروف ملا عقابی کی پراسرار ٹارگٹ کلنگ سے جا ملتے ہیں، جس نے ٹی ٹی پی کے متعدد دھڑوں کے مابین ایسی کشیدگی کو مہمیز دی جس کے اثرات خیبرپختونخوا میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز پہ حملوں کی شکل میں رونما ہوتے دکھائی دیے، عمر خالد خراسانی کے ساتھ مارے جانے والوں میں حافظ دولت اور مفتی حسن جیسے انتہائی اہم کمانڈر بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یہ حملہ طالبان گروپوں کے درمیان پہلی بڑی دراڑ تھی جس کے ہولناک اثرات روز افزوں ہیں۔

عمر خالد خراسانی کی ناگہانی موت کے بعد حفظ ماتقدم کی خاطر ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی نے اپنی نقل و حمل کو محدود اور عام لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بند کر کے سیکیورٹی مزید سخت کر لی۔ اسی طرح جمعرات کے روز خوست کے معروف ریسٹورنٹ میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ میں حاجی گل بہادر گروپ کے چار اہم کمانڈروں سمیت سولہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت بھی عسکری گروپوں کے داخلی تنازعات کا شاخسانہ نظر آتی ہے، افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق تازہ حملہ میں ہلاک ہونے والوں میں کمانڈر طوفان شیرانی مداخل، عبدالمنان، عالم خان اور کمانڈر کیجر کے نام بتائے گئے تاہم واقعہ کے فوری بعد طالبان مقتدرہ نے تحقیقات کے لئے پورے علاقہ کو سیل کر کے حقائق تک عالمی میڈیا کی رسائی ناممکن بنا دی، اسی لئے دھماکہ کے 48 گھنٹوں بعد اس واقعہ بارے سوشل میڈیا کی متفرق معلومات کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہوا، چنانچہ اس مہلک حملہ میں ہلاکتوں کی تعداد اور مارے جانے والوں کی اصل شناخت بارے کسی غیرجانبدار ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

مقامی ذرائع کے مطابق یہ ریسٹورنٹ حاجی گل بہادر گروپ کے سینیئر کمانڈروں کا مضبوط ٹھکانہ تھا جہاں مفتی صدیق نور اور کمانڈر خوشحالی جیسے نمایاں رہنما بیٹھتے ہیں، فی الحال کسی گروپ نے خوست حملہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ دوسری جانب ٹی ٹی پی مفتی نور ولی محسود گروپ اور جماعت الاحرار کے درمیان بڑھتی کشیدگی جنوبی افغانستان کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے، شاید اسی گمبھیرتا سے نکلنے کی خاطر کئی افغان رہنما، ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے ) کو افغان طالبان کے تنظیمی نیٹ ورک میں ضم کرنے جیسی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، ذرائع کے مطابق انضمام کے حامی ٹی ٹی پی مفتی نور ولی گروپ کو طالبان خیبرپختون خوا اور بی ایل اے کو طالبان بلوچستان کے ناموں سے منظم کرنے کی تجویز دیتے ہیں، اسی فارمولہ پہ طالبان دھڑوں کے مابین مشاورت جاری ہے، ایسی مہمل تجاویز کا ظاہری مقصد خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں بھی امارت اسلامی کا قیام بتایا گیا، جس کی وضاحت ہمیں ابھی حال ہی میں بارکھان میں سردار عبدالرحمن کھیتران کی قید میں محبوس فیملی کے قتل ہونے والے تین افراد کے معاملہ پہ ٹی ٹی پی کے مفتی نور ولی کی طرف سے بلوچ عوام کے نام لکھے گئے کھلے خط میں ملتی ہے جس میں انہوں نے بلوچ عوام کو سماجی انصاف کے حصول اور ظالمانہ سرداری نظام سے نجات کے لئے ٹی ٹی پی کا ساتھ دینے کی ترغیب دی تھی۔

مغربی بارڈر پہ بڑھتے ہوئے مسائل اور افغان طالبان کے سایہ میں خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں تشدد اور علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دینے والے عسکری گروپوں کی سرگرمیاں ہماری قومی سلامتی کے لئے جو نت نئے چلینجز ابھار رہی ہیں، انہی مسائل کے پرامن حل کی خاطر حال ہی میں ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں اعلی سطحی وفد نے کابل میں افغان طالبان کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادرز سمیت چار مختلف دھڑوں سے الگ الگ ملاقاتوں میں جن دوطرفہ مسائل پہ بات چیت کی ان میں طورخم جیسی مصروف ترین سرحدی گزر گاہ کی بندش کے بعد دونوں ممالک کے مابین پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے جیسا حساس ایشو سرفہرست تھا۔

وزیر دفاع کے ہمراہ وفد میں دیگر اعلیٰ حکام کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم بھی شریک تھے۔ ملا برادر کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ”حکام نے اقتصادی تعاون، علاقائی رابطے، تجارت اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال کے علاوہ اقتصادی معاملات کو سیاسی اور سیکورٹی تنازعات کے اثر سے بچانے کے طریقہ کار پہ تبادلہ خیال کیا، بیان میں مزید کہا گیا کہ، امارت اسلامیہ افغانستان، پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کی خواہشمند ہے کیونکہ دونوں ممالک کا مشترکہ مفاد اسی میں ہے“ ۔

واضح رہے، اس دورہ سے چار روز قبل افغان حکام نے پاکستان پر وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے طورخم بارڈر کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لئے بند کر دیا تھا، جس کی فوری وجہ پاکستان کی طرف سے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر سرحدی کنٹرول سخت کرنا بنی، اسی اقدام کے بعد پیر کے روز سرحد پر تعینات دونوں ممالک کی سیکورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ایک پاکستانی سپاہی زخمی ہو گیا تھا۔ وزارت خارجہ کے ذرائع نے غیرملکی میڈیا کو بتایا کہ انہیں افغان ہم منصبوں کی طرف سے یہ نہیں بتایا گیا کہ سرحدی پوائنٹ، مسافروں اور دونوں پڑوسیوں کے درمیان تجارت کے لئے سب سے مصروف ٹرانزٹ روٹ کیوں بند کیا گیا۔

تاہم حالیہ دورہ کے نتیجہ میں دونوں اطراف کی سرحدی گزرگاہوں کو بند نہ کرنے کا اعلیٰ سطحی سمجھوتہ طے پا گیا۔ قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کابل میں منعقد اجلاسوں میں ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستان میں پرتشدد کارروائیوں کا ایشو بھی اٹھایا گیا، پاکستانی حکام نے کہا، دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث گروپ افغان سرزمین سے ان کے ملک میں حملے کرتے ہیں، سفارتی سطح پہ طالبان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے پاکستانی وفد کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں تعاون دینے کی پیشکش کی، جسے وفد نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں سے بات چیت نہیں ہو سکتی۔

پاکستان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ جوڈیشری اور مقتدرہ میں بھی ٹی ٹی پی سے مذاکرات و معاہدات کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ پاکستانی وفد نے قندھاری گروپ کے سرخیل ملا محمد یعقوب اور حقانی گروپ کے ملا انس حقانی کے علاوہ وزیرخارجہ امیر متقی سے الگ الگ ملاقاتیں کر کے ان سے عالمی برادری کے تحفظات، خارجہ تعلقات کی نزاکتوں، علاقائی اقتصادی مفادات کے تقاضوں اور دہشتگردی کے تدارک بارے دوحہ معاہدہ پہ عملدرآمد بارے قابل عمل تجاویز پہ تبادلہ خیال کیا۔

ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو کچلنے کے پاکستانی مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جن گروپوں نے امریکہ کے خلاف ہمارے مزاحمت جہاد کی عملی حمایت کی تھی، امارات اسلامی انہیں خود سے الگ نہیں کر سکتی، افغان طالبان نے کہا کہ انہوں نے خود ان تمام افغانوں کو معاف کر دیا جو طالبان کے خلاف امریکی جارحیت میں شامل یا غیرملکی حملہ آوروں کی عملی حمایت کرتے رہے، اس لئے وہ پاکستانیوں سے بھی ٹی ٹی پی والوں کے لئے عام معافی کی درخواست کرتے ہیں، پاکستانی وفد کو بتایا گیا کہ افغانستان میں سرکاری حکام کے سوا کسی بھی شخص یا گروپ کو مسلح نقل و حمل اور کالے شیشوں والی گاڑیاں میں سفر کرنے کی اجازت نہیں، کسی صورت افغان سرزمین پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ پاکستانی وفد نے افغان طالبان سے مطالبہ کیا کہ کالعدم تنظیموں کی طرف سے افغانیوں کی ریکروٹمنٹ اور خاص کر دہشتگرد گروپوں کی جانب سے بھرتی کیے گئے پاکستانی کو یہاں افغانستان میں پناہ دینے جیسی قباحتوں کو روکا جائے۔

افغانستان میں صورت حال دن بدن پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، بظاہر یہی لگتا کہ افغان طالبان عالمی برادری خاص کر جنوبی ایشیا کی طاقتور ریاستوں کی حمایت کے بغیر مملکت کو سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ پاکستان کے علاوہ روس، چین اور ایران نے بھی طالبان گورنمنٹ سے افغانستان میں داعش جیسی خونخوار تنظیموں کی سرگرمیوں کو کچلنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے عالمی سطح پہ افغانستان کی اقتصادی مشکلات کے ازالہ کے لئے پاکستان کو اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لانے کی درخواست کے علاوہ داعش کو کچلنے کے لئے اسٹریٹیجک تعاون دینے کی درخواست بھی کی ہے لیکن پاکستانی وفد نے یہ کہہ کر داعش کے خلاف آپریشنز میں تعاون سے معذرت کرلی کہ انہیں خود ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے مسلح گروہوں سے نمٹنے کی مشکل درپیش ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments