جمہوریت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے


ہمارے کرتا دھرتا حضرات 75 سال سے مقبوضہ کشمیر کو پاکستان بنانے کی جدوجہد کرتے کرتے بالآخر پاکستان کو ہی مقبوضہ کشمیر بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ کیوں کہ 25 مئی 2022 اور 8 مارچ 2023 کو تحریک انصاف کے خلاف حکومتی مشینری کے استعمال کے مناظر دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ جیسے انتہا پسند بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند باشندوں پر چڑھ دوڑی ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک کے اوپر راج کرنے والی غیر جمہوری قوتوں اور وقت کے حکمرانوں نے اپنے ناجائز تخت بادشاہت کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی کارکنوں پر ریاستی مشینری کے بے مہار گھوڑے دوڑائے ہیں جن کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن بالخصوص گزشتہ ایک سال سے لگتا ہے کہ ملک میں آئین قانون جمہوریت اور انسانی حقوق کو مکمل طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے خلاف 77 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ جن میں سے بیشتر مقدمات میں دہشتگردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ کیسز میں اضافے کی رفتار سے لگتا ہے تعداد بہت جلد 100 تک پہنچ جائے گی۔

کتنا عجیب تصور ہے کہ جو شخص گزشتہ مارچ میں ملک کا وزیر اعظم تھا، وہ حالیہ مارچ میں دہشتگردی کے مقدمات کو بھگت رہا ہے۔ ایک پارٹی ملک میں عوامی مقبولیت کی انتہا کو چھو رہی ہے۔ ماضی میں ایک دوسرے کی سخت حریف رہنے والی تمام سیاسی جماعتیں ایک ہو کر بھی انتخابی میدان میں اکیلی پی ٹی آئی کو شکست دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لہذٰا پی ٹی آئی کا گلا گھونٹنے کے لیے ہر روز آئین کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے۔

قاتلانہ حملے میں گولیوں کی بوچھاڑ، عمران خان کی مرضی کے مطابق ایف آئی آر کے اندراج سے انکار، واقعے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی راہ میں رکاوٹ، پرامن احتجاج کرنے والے سیاسی کارکنوں پر سیدھی فائرنگ تشدد اور مقدمات، عمران خان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی، ملک کے مختلف علاقوں میں ”شہریوں“ کی درخواستوں پر دہشتگردی کے 77 مقدمات سمیت وہ سب کچھ جو آج کل عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ سب کچھ اس ملک میں پہلی بار نہیں ہو رہا۔

آئین کی حکمرانی جمہوریت کی بالادستی شہری آزادی و خودمختاری اور آزاد خارجہ پالیسی کی بات کرنے والوں کے ساتھ شروع سے لے کر یہی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی طرح کے جرائم کا ارتکاب کیا تھا جس کی سزا کے طور پر انہیں اقتدار کے ایوانوں سے نکال کر جیلوں کی کال کوٹھڑیوں میں بند کرنے کے بعد سولی پر چڑھا دیا گیا۔

ماضی قریب میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما اعظم سواتی کو صرف ٹویٹ کرنے پر ملک بھر میں مقدمات درج کر کے نشان عبرت بنایا گیا، بعد ازاں ان کی پرائیویٹ ”ویڈیوز“ بھی جاری کی گئیں۔ شہباز گل کے ساتھ جو سلوک ہوا اس پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے بھی آواز آئی کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ اور وزیر داخلہ صاحب فرماتے رہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے آئین و قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔

اسی طرح فواد چوہدری، شیخ رشید، حلیم عادل شیخ سمیت پی ٹی آئی کے درجنوں رہنماؤں کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی، اسد عمر، زلفی بخاری سمیت جیل بھرو تحریک میں حصہ لینے والے سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں کو موت کی چکی میں رکھا گیا۔ 25 مئی کو جس طرح نہتے سیاسی کارکنوں پر ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال ہوا تھا اس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ گولیاں چلائی گئیں، خواتین پر آنسو گیس کے شیل برسائے گئے۔

سیاسی لوگوں کے علاوہ صحافی، اینکر پرسنز، میڈیا مالکان اور وی لاگر بھی موجودہ حکومت کے شر سے محفوظ نہیں رہے۔ شہید ارشد شریف کے خلاف دہشتگردی کے 27 مقدمات درج کر کے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اور پھر ان کی گولیوں سے چھلنی لاش وطن واپس لوٹ آئی۔ سمیع ابراہیم اور عمران ریاض خان کے خلاف مسلسل دہشتگردی کے پرچے کاٹے جا رہے ہیں۔ ایاز امیر جیسے بزرگ دانشور کو بھی اٹھا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اے آر وائی نیوز اور بول ٹی وی کو مختلف اوقات میں لائسنس معطل کر کے بند کر دیا گیا۔

شعیب شیخ کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اور سلمان اقبال بھی تاحال نشانے پر ہیں۔ میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے لیے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے استعمال کیے گئے اوچھے ہتھکنڈوں کی بڑی اندوہناک داستانیں ہیں۔ لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ چاندنی صرف چار دن کی ہے، سدا بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ان حکمرانوں کے اقتدار کو دوام حاصل نہیں ہے۔ حبیب جالب کے بقول

”تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا، اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا“

حال میں حکومت اور اس کے ہمنواؤں کا سب سے بڑا مقصد۔ عظیم یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے انتخابات کے آئینی عمل کو ٹالا جائے، چاہے اس کی قیمت کتنی ہی چکانی پڑے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے ملک میں ایک افراتفری کا ماحول بنایا گیا ہے۔ آئین کا صریح تقاضا ہے 90 دن میں انتخابات۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آ چکا ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کرائے جائیں، صدر مملکت نے 30 اپریل تاریخ بھی دے دی۔ اس کے باوجود حکومت حتی المقدور کوشش کر رہی ہے کہ فرار ہونے کا کوئی راستہ مل جائے یا کم از کم عمران خان کو ان مقدمات کے تحت سزا دلوا کر انتخابی عمل سے باہر کیا جائے بصورت دیگر انتخابات میں جھاڑو پھر جائے گا۔

انہیں یقین ہے کہ ملک کی ڈوبی ہوئی معیشت سیاسی عدم استحکام غیر علانیہ آمریت آئین شکنی کمر توڑ مہنگائی بدترین بھوک بدحالی اور بے روزگاری کا خمیازہ بدترین ناکامی کی صورت میں بھگتنا ہے۔ ملک کے 22 کروڑ عوام کو اس تباہی کا حساب دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز انتقامی کارروائیوں میں تیزی آ رہی ہے۔ لاہور زمان پارک میں عمران خان کے ایک شیدائی کارکن علی بلال عرف ضلے شاہ کو حراست میں لینے کے بعد قتل کر دیا گیا پولیس حراست میں نوجوان پر کیے جانے والے تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہے۔

ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے اور ماڈل ٹاؤن میں حاملہ خواتین پر گولیاں چلانے والے حکمرانوں سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔ یہ اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ لیکن اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا۔ طاقت کا نشہ ضرور ایک دن اتر جائے گا، پھر حکمرانوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے، شاعر کے بقول

”کتاب سادہ رہے گی کب تک کبھی تو آغاز باب ہو گا، جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی کبھی تو ان کا حساب ہو گا“

فی الوقت جمہوریت کا جنازہ نکالنے کے لیے عمران خان کے علاوہ تمام پارٹیاں ایک ہی صف میں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ آصف زرداری نے بیٹے کو وزارت خارجہ دلوانے اور سندھ میں بلاتعطل راج کرنے کے بدلے میں ذوالفقار بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کا نظریہ سستے داموں بیچ دیا ہے۔ کیوں کہ آصف زرداری کی سیاست ہمیشہ خرید و فروخت کی بنیاد پر چل رہی ہوتی ہے۔

اچنبھے کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ حالانکہ یکے بعد دیگرے چوٹ سبھی کھا چکے ہیں مگر نہ جانے کیوں اقتدار کے نشے میں دھت ہو کر حکمران وہ سب کچھ بھلا دیتے ہیں جو ماضی میں خود ان کے ساتھ ہو چکا ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو سوچنا چاہیے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، کسی بھی جمہوری معاشرے میں اس کی کوئی گنجائش ہے؟ آصف زرداری کو سوچنا چاہیے کہ اعتزاز احسن اور مصطفی نواز کھوکھر جیسے نظریاتی لوگ پیپلز پارٹی سے کنارہ کش کیوں ہو گئے ہیں؟

ملک کو گزشتہ ایک سال سے شدید سیاسی اور معاشی بحران کا سامنا ہے۔ غریب اور متوسط عوام کو پیٹ بھرنے کے لیے نوالہ نہیں مل رہا۔ اور حکومت کا فی الوقت سب سے بڑا مسئلہ عمران خان کو گرفتار کرنا ہے۔ اگرچہ اس تماشے میں سیاستدان ایک دوسرے کی تضحیک کرنے اور مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس پورے کھیل میں جمہوریت کی ہار نظر آ رہی ہے۔ تاریخ لکھے گی کہ جمہوریت کے لیے جان قربان کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کی جماعت پیپلز پارٹی، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والی نون لیگ، اور جمعیت علمائے اسلام نے اپنی اتحادی جمہوریت کی دعوے دار جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کو روند ڈالا، اور بڑی دھوم دھام سے نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد سب نے مل کر کہا ملک میں جمہوریت کی بالادستی کی جنگ ہمیشہ جاری رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments