داستان میرٹ کے قاتلوں کی


یوں تو محاورے کسی بھی معاشرے کے چلن، طرز زندگی اور دہائیوں بلکہ صدیوں کے تاریخی سفر کا نچوڑ، اور اس کے نتیجے میں حاصل شدہ دانش کا پرتو ہوتے ہیں۔ مگر اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا والا محاورہ ہمارے بہت ہی پیارے دوست اور ایک عظیم مجاہد عبد البصیر تاج ور کے سلسلے میں کچھ بے معنی سا ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں مجاہد سے مراد جہاد بالکلاشنکوف والا کرائے کا مجاہد نہیں بلک ہمارا مجاہد نا انصافیوں اور میرٹ کی پامالیوں کے خلاف مرد آہن کی طرح ڈٹ جانے والا اور جہد مسلسل کا علم بردار ایک حقیقی مجاہد ہے۔

تاج ور جیسے ہیرے انسان کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا گویا سورج کو چراغ دکھلانے کے مترادف ہے۔ تاجور سے ہماری پہلی ملاقات سال بھر پہلے دودھنیال، نیلم ویلی میں ایک مشاعرے میں ہوئی تھی وہ ملاقات گو بہت مختصر رہی، مگر ہمارے دل پر ان مٹ نقوش ثبت کر گئی۔ ہماری دوسری ملاقات دو ماہ بعد ہی مئی 2022 میں سکردو میں ایک کل پاکستان مشاعرے کے لئے کیے گئے ایک سفر میں ہوئی، جب وہ ہمارے ہم سفر ٹھہرے۔ پانچ دنوں کے اس سفر میں تاج ور کی شخصیت کے جو پہلو ہم پر کھلے، ان کا اظہار ہم نے اپنے منظوم سفرنامہ سکردو میں ان الفاظ میں کیا تھا۔

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا۔ ذکر تاج ور ’
تھام کے اب جگر ذرا بیٹھو
اور سکوں سے ادھر ذرا بیٹھو
کیا کہوں اور شروع کہاں سے کروں
ایک ہی بات ہے جہاں سے کروں
کس کا ذکر جمیل ہونے لگا
دریا کوزے میں کیا سمونے لگا؟
تیسرا تھا جو تھا ہم سفر اپنا
غیر تھا، ہو گیا مگر اپنا
شخص اک باکمال ہو جیسے
کسی گدڑی میں لعل ہو جیسے
ایک شاعر بھی ہے ادیب بھی ہے
اعلی اقدار کا نقیب بھی ہے
بحر سنگلاخ اس کا خاصہ ہے
لکھنوی رنگ اچھا خاصا ہے
بھیس شاعر میں اک خطیب ہے وہ
صاحب طرز اک ادیب ہے وہ
بے بدل دوست بے گماں ہے وہ
دوستوں کا عزیز جاں ہے وہ
اس میں رہتی ہے بے گماں، بے کل
روح اقبال و حضرت بیدل
حافظہ بھی غضب کا پایا ہے
جو بھی شاعر کہو، سنایا ہے
ہے سلام اس کو اس جنوں کے لئے
جی رہا ہے وہ دوسروں کے لئے
خدمت خلق ہی وتیرہ ہے
نیلم انگوٹھی تو وہ ہیرا ہے
الجھے اذہان کا طبیب ہے وہ
عالمی امن کا نقیب ہے وہ
فکری الجھاوٴ کو سنوارتا ہے
آپ کی سوچ کو نکھارتا ہے
قرض دھرتی کا بھی اتارتا ہے
خاکی کو ظلم پر لتاڑتا ہے
بھاری قیمت ”انعام“ ہے اس کا
سرخ فہرست میں ہے نام اس کا
تاجور اس کا نام نامی ہے
’خاص ہے پر مزاج عامی ہے

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ارباب ذوق، اہل علم و شعر و سخن، اور ادبی و سیاسی حلقوں میں تاج ور ایک بڑا اور محترم نام ہے۔ اردو، انگریزی، فارسی اور عربی زبانوں پر یکساں دسترس کا حامل، کئی انگریزی اور اردو کتابوں کا مصنف، جن میں انگریزی میں صوفی ازم پر ایک کتاب کے علاوہ انگلش گرامر پر لکھی گئی کتب بھی شامل ہیں۔ اقبال کے خیالات کا ناقد مگر اس کی قادرالکلامی کا کھلے دل سے معترف و مداح، کلام اقبال کا حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ بیدل، غالب، اور دیگر کلاسیکی شعرا کا اکثر کلام ازبر کیے ہوئے، ایک ہر فن مولا قسم کا انسان جس سے آپ دنیا جہان کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کر سکتے ہیں۔ کشمیر میں ادبی اور شعری محافل اور دیگر سیاسی و سماجی موضوعات پر پروگرامز کے انعقاد کے پیچھے زیادہ تر ہاتھ تاج ور کا ہی ہوتا ہے۔ تاج ور پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیز میں درس و تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ رہا ہے۔

مندرجہ بالا خوبیاں تو شاید آپ کو اور بھی کچھ لوگوں میں مل جائیں گی مگر تاج ور میں چند ایسی خاص باتیں اور بھی ہیں جو اسے باقی سب میں ممتاز کرتی ہیں۔ تاج ور ایک نہایت بہادر انسان ہے اور یہ اسی کا اعزاز ہے کہ اس نے کشمیر میں نمبر ون کے مقامی آبادیوں پر مظالم پر نہایت توانا اور پر اثر آواز ایسے بلند کی کہ اس کی گونج بین الاقوامی میڈیا تک پہنچی۔ اس کے علاوہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ اٹھ مقام نیلم ویلی سے عین شہری آبادی کے بیچوں بیچ سے پاکستانی فوج کا توپ خانہ ہٹوانے کا سہرا بھی تاج ور کے سر ہی ہے۔ اگرچہ اس کی بہت بھاری قیمت تاج ور کو چکانا پڑی اور اب تک چکا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل توپ خانے کے شہری آبادی کے عین درمیان میں ہونے کی وجہ سے دو بار اٹھ مقام کا شہر ہندوستانی افواج کی شدید گولہ باری کا شکار ہو کر آدھے سے زیادہ تباہ ہوا۔

فقط یہی نہیں، تاج ور ایک حساس انسان بھی ہے جس کا دل معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں پر دکھتا ہے، جو نہ صرف معاشرے کے مسائل پر رنجیدہ رہتا ہے بل کہ ان کے حل کے لئے ہر ممکن عمل پیرا بھی رہتا ہے۔ جو نوجوانوں کی فکری راہ نمائی کرتے ہوئے انہیں تنقیدی انداز فکر سے آشنا کرتا ہے، جو ذہین مگر مالی مسائل کے شکار طلبا کی مدد کے لئے صاحب حیثیت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتا، اور ان مستحق طلبا کی عزت نفس محفوظ رکھنے کے لئے ان کی مدد ایسے خاموشی سے کرتا ہے کہ خود مدد دینے والے کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی مدد سے کس کے علم کا دیا روشن ہو رہا ہے۔

ایک طرف تو یہ سب مگر دوسری طرف جب یہی تاج ور آزاد کشمیر پبلک سروس کمیشن میں اسسٹنٹ کمشنر، اور اردو اور انگریزی کے لیکچررز کی پوزیشن کے لئے مقابلے کے امتحان میں شامل ہوتا ہے تو اسے انگریزی اور اردو کے پرچوں میں ہی فیل کر دیا جاتا ہے۔ ذرا سوچئے تو، اردو اور انگریزی میں مشکل ترین موضوعات پر کئی کتابوں کا مصنف، اردو اور انگریزی کے پرچے میں ہی فیل کر دیا جائے، اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے۔ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے۔

مگر تاج ور اس پر ہمت نہیں ہارتا اور پبلک سروس کمیشن کے نتائج کو چیلنج کر دیتا ہے۔ انصاف کے حصول کے لئے ہر دروازہ کھٹکھٹاتا ہے مگر انصاف نہیں ملتا۔ انصاف کے حصول کی اس جنگ میں تاج ور تن تنہا محاذ پر ڈٹا رہتا ہے۔ کچھ دوستوں کی مدد بہرحال پس پردہ شامل حال رہتی ہے مگر فرنٹ لائن پر وہ فرد واحد ہے جو یہ جنگ لڑتا ہے۔ یہاں تک کہ عدالت عظمیٰ تاج ور کے پرچوں میں ٹیمپرنگ اور اس پورے عمل کے دوران کمیشن کی بد عنوانی ثابت ہونے پر پورے کمیشن کو ہی تحلیل کرنے کا فیصلہ کر دیتی ہے۔

اگرچہ تاج ور کو نوکری بھر بھی نہ ملتی کیوں کہ بعد ازاں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نام اپنے علاقے کے لوگوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں سرخ فہرست میں شامل ہو چکا ہے اور اس وجہ سے اس پر سرکاری نوکری کے دروازے غیر علانیہ طور پر بند کیے جا چکے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ کشمیر میں ایک تاریخ رقم کر گیا جہاں ایک تنہا شخص نے بدعنوانی کے ایک نہایت مربوط اور مضبوط سسٹم سے ٹکر لی اور اسے گرا کے ہی دم لیا۔

تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے۔ اب کی بار تاج ور نے ڈسٹرک ایجوکیشن آفیسرز کی پوزیشن کے لئے پھر پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں شرکت کی اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ تاج ور کو پھر سے پیپرز میں ٹیمپرنگ کر کے فیل کر دیا گیا۔ یہ لوگ اس شخص کو فیل کر رہے ہیں جس کے علمی، ادبی، اور فنی قد کاٹھ کے برابر تو کیا اس کے نصف برابر بھی آزاد کشمیر کی پوری بیوروکریسی میں ایک شخص بھی ملنا محال ہے۔ میرٹ کی پامالی کی اتنی بری مثال شاید ہی کہیں اور ملے۔

مگر وہ تاج ور ہی کیا جو نا انصافی اور ظلم پر خاموش ہو کر بیٹھ جائے۔ سو ایک بار پھر سے میدان سجا ہے۔ تاج ور نے پھر سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت نے تمام ریکارڈ دیکھنے اور پیپرز میں ٹیمپرنگ ثابت ہونے کے بعد پبلک سروس کمیشن کو اس حوالے سے مزید کام کرنے سے فی الحال روک دیا ہے۔ ایک بار پھر تاج ور کی قانونی اور اخلاقی فتح اور اس کے اصولی موقف کی تائید ہوئی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کیا چال چلتی ہے اور تاج ور کو کیسے اس دوڑ سے باہر رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔

اس معاملے کا ایک اور افسوس ناک پہلو، جس کی طرف شاید کم ہی لوگوں کی نظر گئی ہو، یہ ہے کہ پبلک سروس کمیشن کی ان بدمعاشیوں سے نہ صرف تاجور کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے بل کہ تمام دوسرے امیدواران جو ان سب باتوں سے بے خبر ان پوزیشنز کے لئے دن رات تیاری کرتے رہے، اور جن کے انٹرویوز بھی بہت اچھے ہوئے، ان پر بھی بہت برا اثر پڑے گا، کورٹ کے حکم پر یہ پراسیس روک دیے جانے کے بعد اب ان میں جو مایوسی پھیلے گی، ان کی شمع امید کی جلتی ہوئی کرن جب بجھے گی تو ان کی اس کیفیت کا ذمہ دار کون ہو گا؟

اس کی جواب دہی کون کرے گا؟ پتہ نہیں کورٹ میں یہ بات زیر بحث آتی بھی ہے کہ نہیں مگر سچ بات ہے کہ ان امیدواران کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی جنہوں نے ان امتحانات اور انٹرویوز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس کی بنیاد پر کچھ خواب بن لئے، وہ خواب ٹوٹیں گے تو ان کی کرچیاں ان امیدواروں کی آنکھوں میں ایک عرصہ تک چبھتی اور پبلک سروس کمیشن کی جان کو روتی رہیں گی۔ ہمارے خیال میں تمام عمل کو روک دینے کی بجائے مستحسن قدم یہ ہو گا کہ عدالت یہ حکم جاری کر دے کہ تمام پرچے دوبارہ سے چیک کیے جائیں اور اس عمل کی نگرانی براہ راست عدالت عظمیٰ خود کرے۔ پرچے چیک ہونے کے بعد شارٹ لسٹ ہونے والے امیدواران کے انٹرویوز دوبارہ لئے جائیں اور اس عمل کو بھی عدالت خود مانیٹر کرے۔ اور اس طرح میرٹ پر ٹاپ آنے والے امیدواروں کو ملازمت دے دی جائے۔ سارا عمل روک سکریپ کر دینے سے یہ پراسیس جو غالباً 2018 سے پینڈنگ چلا آ رہا تھا ایک بار پھر بہت پیچھے چلا جائے گا۔

آخر میں ہم ان تمام اصحاب کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اس لڑائی میں تاج ور کی اخلاقی و عملی مدد کی، سب بہت مبارک اور دلی شکریے کے مستحق ہیں، خاص طور پر جناب حضور امام کاظمی جو تاج ور کے قانونی محاذ پر معاون ہیں۔

تاج ور۔ ڈٹے رہو۔ تم آزاد کشمیر میں میرٹ کی پامالی کے شکار مایوس نوجوان کے لئے ایک روشنی کا مینارہ ہو، اندھیری سرنگ میں روشنی کی ایک کرن ہو۔ نثار ہمدانی کے اس شعر کی زندہ و جاوید تفسیر:

زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے نثار
ایک لمحے کو جو رکتا ہے وہ مر جاتا ہے

ہو سکتا ہے اس بار کورٹ کی جانب سے کوئی ایسا اچھا اور تاریخی فیصلہ آ جائے جس کے بعد میرٹ کے بیہمانہ قتل کے تمام راہیں مسدود ہو جائیں۔ اس سفر میں، اس مشن میں ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہر طرح سے، دامے، درمے، قدمے، سخنے۔ دیکھ لو آواز دے کر، ساتھ اپنے پاؤ گے۔

مظفر حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مظفر حسین بخاری

ایم ایچ بخاری ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک ملٹی لیٹرل ترقیاتی ادارے سے منسلک ہیں۔ کوہ نوردی اور تصویر کشی ان کا جنون ہے۔ مظہر کے تخلص سے شعر کہتے ہیں۔

muzzafar-hussain-bukhari has 19 posts and counting.See all posts by muzzafar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments