ملکی معیشت: آئی ایم ایف کی ’نا انصافی‘ اور عوام و حکومت میں بداعتمادی


یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان اس وقت معاشی لحاظ سے زیادہ پریشانی کا شکار ہے یا سیاسی بحران اور ادارہ جاتی تصادم مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ پاکستان اگر عالمی مالیاتی فنڈ سے طے شدہ معاہدہ پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کے لئے اقتصادی معاہدے پورا کرنا اور واجب الادا قرض کی اقساط ادا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک انٹرویو میں آئی ایم ایف کے رویہ کو ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’حکومت ہر قیمت پر آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ معاہدہ پورا کرے گی‘ ۔

شاید اس سیمنار میں وزیر خزانہ سے یہ سوال نہیں پوچھا گیا ہو گا کہ وہ کس قیمت کا حوالہ دے رہے ہیں؟ انرجی کی قیمتوں میں اضافے اور منی بجٹ کی صورت میں محاصل نیا بوجھ عوام پر لادنے کے بعد اب کون سی کسر باقی رہ گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے اگرچہ ایک بار پھر آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ مشکلات کا سبب سابقہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں اور وعدوں سے انحراف کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی لئے پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان بد اعتمادی کی فضا ہے جس کی وجہ سے حکومت کو اسٹاف لیول معاہدہ کے لئے مشکلات کا سامنا ہے۔ البتہ اسحاق ڈار جب ایک پبلک پلیٹ فارم سے ’ہر قیمت‘ پر معاہدہ پورا کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب آئی ایم ایف کو یہ پیغام دینا ہے کہ اب وہ خود بھی آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط سے انحراف نہیں کریں گے جو گزشتہ چند ماہ کے دوران ان کا طریقہ رہا تھا۔ یادش بخیر چند ماہ پہلے مفتاح اسماعیل کو کابینہ سے نکلوا کر وزارت خزانہ سنبھالتے ہوئے اسحاق ڈار نے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو یہ جھانسہ دیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کو شیشے میں اتار لیں گے اور فنڈز لینے کے لیے مفتاح اسماعیل کی طرح ان کی ہر بات ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔

مسلم لیگ (ن) کو اس وقت بھی عمران خان کے سیاسی دباؤ کا سامنا تھا اور یہ پریشانی لاحق تھی کہ انتخابات کی صورت میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے وہ تحریک انصاف کے دباؤ کا سامنا نہیں کرسکے گی۔ اور پنجاب کی سیادت اس کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ تاہم تین چار ماہ تک آئی ایم ایف کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ فنڈ نے اس وقت تک نواں جائزہ لینے اور اسٹاف لیول معاہدے سے انکار کر دیا جب تک حکومت پاکستان تمام طے شدہ معاشی اصلاحات نافذ نہیں کرتی۔ وزیر اعظم کی مداخلت سے ایک ماہ پہلے نواں جائزہ لینے کے لئے آئی ایم ایف کی ٹیم اسلام آباد آئی تاہم دس روز قیام کے بعد بھی یہ ٹیم کوئی معاہدہ کیے بغیر واپس چلی گئی اور کہا گیا کہ باقی معاملات ورچوئل اجلاسوں میں طے کیے جائیں گے۔ اس وقت سے اسحاق ڈار ہر ہفتے یہ نوید سناتے ہیں کہ چند روز میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جائے گا اور قرض کی نئی قسط وصول ہو جائے گی تاہم ایک ہفتہ گزرنے کے بعد انہیں ایک نیا وعدہ کرنا پڑتا ہے۔

آج سیمنار میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا اور وزیر خزانہ نے کہا کہ اگلے ہفتے تک اسٹاف لیول معاہدہ ہو جائے گا اور آئی ایم ایف سے قسط مل سکے گی تاہم اب انہوں نے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پائی جانے والی بداعتمادی کا حوالہ دے کر بالواسطہ طور سے اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ گو کہ انہوں نے سارا الزام تحریک انصاف کی حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی ہے لیکن درحقیقت آئی ایم ایف کے ساتھ پیدا ہونے والے موجودہ مسائل کی بنیاد اسحاق ڈار نے ہی رکھی تھی۔ دوسری طرف صرف حکومت پاکستان کی طرف سے بعض طے شدہ امور پر عمل درآمد ہی اس وقت آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان تنازعہ کا سبب نہیں ہے بلکہ اس میں پاک چین تعلقات، سی پیک منصوبوں میں سرمایہ کاری اور چینی قرضوں کے حوالے سے امریکی اور اس کے حلیف ممالک کے اعتراضات بھی شامل ہیں۔ یہ ایک ایسی چو مکھی ہے جس میں پاکستان کو ہر طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔ البتہ اسحاق ڈار نے بعض طے شدہ امور میں تعطل پیدا کر کے اعتماد کا اصل بحران پیدا کیا۔ اب آئی ایم ایف نہ صرف تمام اصلاحات کو نافذ کروانا چاہتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں مالی خسارہ مکمل طور سے ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ اسحاق ڈار نے اپنی تقریر میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہر قیمت ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھی اسی مطالبے کا حوالہ دیتے ہوئے، اسے آئی ایم ایف کا غیر منصفانہ طریقہ کہا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ آئی ایم ایف ایک مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسے ادائیگیوں کے مکمل توازن کا منصوبہ بنانے پر مجبور کیا جا رہا ہے حالانکہ گزشتہ سال سیلاب کی صورت میں قدرتی تباہی سے ملک شدید مشکلات کا شکار ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ 23 مالی پروگرام کیے ہیں۔ اس دوران تو ٹیکس نظام میں اصلاحات پر اتنا زور نہیں دیا گیا۔ اب ایک پروگرام کی تکمیل کے لیے معمولی معمولی کمی کو بھی نمایاں کر کے اسے درست کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا واقعی ایک ایسے وقت میں اس قسم کی مین میخ درست کہی جا سکتی ہے جب پاکستان قیامت خیز قدرتی آفت کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور ایک لاکھ کے بھگ نئے افغان پناہ گزینوں کی آمد سے پیدا ہونے والی صورت حال کا بھی سامنا ہے۔ آئی ایم ایف ایک ایسے وقت میں پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے جب ملک کو غریب ترین لوگوں کی مدد کے لئے وسائل کی شدید ضرورت ہے۔

وزیر خزانہ نے اپنے طور پر آئی ایم ایف کے تمام مطالبات پورے کر نے اور ان کے نتیجہ میں ملک کو موجودہ معاشی بھنور سے نکالنے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے ادائیگیوں میں توازن کے لیے بجٹ اصلاحات کا وعدہ بھی کیا تاہم یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے انرجی سیکٹر کو 14 ارب ڈالر سے زائد خسارے کا سامنا ہے۔ اس شعبہ میں وسیع اصلاحات کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ بوجھ ملکی معیشت کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایک نئے عزم اور جذبے سے معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔ البتہ ملک کی معاشی پالیسیاں عدم تسلسل کا شکار رہی ہیں اور مالی بدانتظامی کا دورانیہ بہت طویل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بحران سے نکلنے کے لئے ملک کے ہر شہری کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔

وزیر خزانہ کی ان باتوں کو پیش نظر رکھا جائے اور آئی ایم ایف کے مطالبات کو دیکھا جائے تو ملکی معیشت کی تصویر کے نقوش دریافت کیے جا سکتے ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومت ریاستی اخراجات اور مالی ذمہ داریوں کا بوجھ عوام کے تمام طبقات پر یکساں طور سے تقسیم کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کابینہ کے مصارف کم کرنے کے لئے چند اصلاحات کا اعلان ضرور کیا تھا۔ آج وزیر خزانہ نے اسے درست سمت میں ایک اہم قدم کے طور پر پیش بھی کیا ہے لیکن سکڑتی ہوئی قومی پیداوار، آمدنی میں کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ کی صورت حال میں یہ اقدامات اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔ پاکستان اب بھی پی آئی اے، اسٹیل مل اور ریلوے جیسے سرکاری اداروں کی اصلاح کے لئے کوئی اقدام نہیں کر سکا۔ یہ تینوں ادارے قومی خزانے پر بھاری بوجھ بنے ہوئے ہیں حالانکہ انہیں قومی آمدنی میں اضافہ کا سبب ہونا چاہیے۔ ان اداروں میں ملازم ہزاروں لوگوں کے روزگار کے نام پر ریاست پاکستان مسلسل یہ سفید ہاتھی پال رہی ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ آئی ایم ایف نے بھی اشارہ کیا ہے کہ حکومت محاصل میں اضافہ کے لئے اشرافیہ کی سہولتیں کم کرنے اور امیر طبقہ کو قومی اخراجات کا زیادہ بوجھ برداشت کرنے پر مجبور نہیں کر سکی۔

اس ناکامی کی ایک چھوٹی سی مثال حکومت کی حج پالیسی ہے۔ اس سال پاکستان سے 180000 کے لگ بھگ زائرین فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے جائیں گے۔ وزارت حج کے اعلان کے مطابق فی حاجی مصارف کا اندازہ کم از کم بارہ لاکھ روپے ہے۔ گویا 216 ارب روپے زرمبادلہ کی صورت میں اس مذہبی فریضہ کی ادائیگی پر صرف ہوں گے۔ ڈالروں میں دیکھا جائے تو یہ رقم ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی اس امداد کے مساوی ہے جو آئی ایم ایف سے موجودہ پروگرام مکمل ہونے کی صورت میں پاکستان کو دستیاب ہوں گے۔ ایک ایک ڈالر کے لئے ایڑیاں رگڑنے پر مجبور حکومت اپنے عوام کو یہ بتانے سے قاصر ہے کہ وہ ایک یا دو سال تک اتنی بڑی تعداد میں زائرین کو حج یا عمرہ پر جانے کی اجازت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک دوسری طرح کی بد اعتمادی ہے جو حکومت اور عوام کے درمیان موجود ہے۔ حکومت عوام کا بھروسا جیتنے کے لیے تمام حقائق سامنے لانے کی بجائے نت نئے حیلے بہانوں سے ’انشا اللہ‘ جیسے الفاظ کے ساتھ مسائل کا ادراک کرنے سے انکار کرتی ہے۔

پاکستان کے موجودہ بحران کا سب سے بڑا سبب یہ حقیقت بھی ہے کہ اس کے عرب دوست ممالک اور چین نے بھی آئی ایم ایف کے پروگرام کی تکمیل کو پاکستانی معیشت کے لئے ہیلتھ سرٹیفکیٹ کی حیثیت دے رکھی ہے۔ یعنی یہ دوست ممالک بھی اسی صورت میں دست تعاون دراز کریں گے جب آئی ایم ایف مالی پروگرام کی تکمیل کا اعلان کرے گا۔ اسی اعلان کے بعد بعض دیگر عالمی اداروں سے بھی فنڈز دستیاب ہو سکیں گے۔ تاہم پاکستان کو جس شدید مالی بحران کا سامنا ہے، اس سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام مکمل کرنا ہی کافی نہیں ہو گا بلکہ شاید مزید امدادی پیکیج کی درخواست کرنا پڑے۔ علاقائی سیاسی و تزویراتی صورت حال میں مالی تعاون کے سارے راستے عالمی اداروں اور اہم ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی لیے وزیر خارجہ نے آئی ایم ایف کے رویہ کو ناجائز کہا ہے تاکہ ان ممالک تک پاکستان کی ناراضی پہنچائی جا سکے۔

مالی امداد کے لئے مناسب سفارت کاری اور چابکدستی کے علاوہ ملک کا معاشی بحران ختم کرنے کے لئے عوام اور حکومت کے درمیان موجودہ عدم اعتماد کو بھی ختم کرنا ہو گا۔ معاشرے کے سب طبقات کو ہوشمندی سے اس مشکل سے نکلنے کے لئے اپنی ذمہ داری پورا کرنا ہوگی۔ لیکن سب سے بھاری ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ عوام پر مالی بوجھ منتقل کرنے کی بجائے خوشحال اور مالدار طبقات کو بھی شراکت داری پر مجبور کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments