ممبئی: جسے خوابوں کا شہر بھی کہتے ہیں


1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے

بھارت جانے سے پہلے میرا ممبئی کی ایک کیمیکل کمپنی سے رابطہ ہو گیا تھا۔ کمپنی کے مالک کشور گپتا نے ہمارے لیے مصطفی ہوٹل میں بکنگ کروا دی تھی۔ یہ ہوٹل ممبئی شہر کے مرکز میں واقع تھا اور ریلوے سٹیشن سے زیادہ دور بھی نہیں تھا۔ ہم ریلوے سٹیشن سے مصطفیٰ ہوٹل پہنچ گئے۔ مصطفی ہوٹل کے مالک ایک مسلمان میمن تھے۔ ہمیں ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور انھوں نے بھی ہمیں انتہائی محبت سے خوش آمدید کہا اور ہمارے لیے بہترین کمروں کا انتظام کر دیا۔

ممبئی میں ہمارا قیام تین دن کا تھا۔ مجھے چند کیمیکلز بنانے والوں سے ملنا تھا جبکہ باقی دونوں دوستوں نے صرف سیاحت کرنا تھی۔ ہم نے وہ تین دن بہترین انداز سے گزارے۔ اس سے پہلے کہ میں ان سرگرمیوں کا ذکر کروں جو ہم نے ممبئی میں سر انجام دیں، میں ممبئی کا ایک مختصر تعارف آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔

ممبئی کی تاریخ جاننے کے لیے میں نے درج ذیل دو کتابوں کا مطالعہ کیا۔ دونوں کتابیں نیٹ پر موجود ہیں۔

پہلی کتاب جیمز ڈگلس کی لکھی ہوئی A Book of Bombay ہے۔ یہ کتاب 1883 ء میں شائع ہوئی تھی اس کے کل صفحات 566 ہیں۔ دوسری کتاب گیان پرکاش نے Mumbai Fables کے نام سے لکھی ہے۔ یہ کتاب 2010 ء میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے کل صفحات 396 ہیں۔ میں نے جو ان دو کتابوں میں پڑھا ہے اس کی خلاصہ پیش خدمت ہے۔

بچپن سے ہم اس شہر کا نام بمبئی سنتے آئے تھے لیکن 1995 ء میں اس کا نام ممبئی رکھ دیا گیا۔ جو بولنے میں نسبتاً مشکل ہے۔ تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب پرتگیزیوں نے یہاں اپنے قدم جمائے تو انھوں نے اس شہر کو بمبئی کا نام دیا۔ پرتگیزی زبان میں ”بیم“ سمندر سے نکلنے والی ایک تنگ خلیج کو کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اسے بمبئی کہا جانے لگا۔

پرتگیزیوں کے جانے کے بعد انگریزوں نے بھی اسی نام کو برقرار رکھا۔ ممبئی اب ایک ہندو دیوی، مبما کے نام سے منسوب ہے۔ اس سے کچھ لوگوں کو اختلاف بھی ہے۔ اس علاقے کی ایک سیاسی پارٹی شیوسینا نے یہ مطالبہ کیا کہ بمبئی کا نام ہمارے غیر ملکی حکمرانوں کا دیا ہوا ہے اور اس سے غلامی کی بو آتی ہے۔ اسی چیز کو بنیاد بنا کر بمبئی کا نام ممبئی کر دیا گیا۔ جیمز ڈگلس نے اس شہر کا نام بمبے لکھا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ پہلے اس شہر کا نام بمبے تھا۔بمبئی نام بعد میں رکھا گیا ہے۔ اس طرح یہ شہر بمبے، سے بمبئی اور پھر ممبئی۔ ڈگلس مزید لکھتا ہے ) صفحہ ( 71 کہ 1880 ء میں انگریزوں نے اس شہر پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں پر موجود پارسیوں اور ہندوؤں کی کئی عبادت گاہوں کے گرا دیا۔ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ انگریز اس شہر کی تعمیر نو کرتے وقت بہت ہی سنگدلی کا ثبوت دیتے تھے۔

تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ اس علاقے میں کئی صدیاں قبل مسیح بھی آبادی موجود تھی لیکن اس کی شکل ایک شہر جیسی نہیں تھی بلکہ یہاں پر سات جزیرے تھے جن پر لوگ آباد تھے۔ وہ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ یہ ابھی تک معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں پر ہونے والی کھدائی سے بے شمار غاروں کا پتہ چلتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پتھر کے زمانے میں بھی لوگ یہاں آباد تھے۔ یہ صرف قیاس آرائیاں نہیں بلکہ ماہرین کے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں۔

تیسری صدی قبل مسیح میں یہ علاقہ موریہ سلطنت کا اہم شہر تھا۔ موریا خاندان کے اہم ترین حکمران اشوک کے دور کی نشانیاں بھی یہاں پائی جاتی ہیں۔ ممبئی شہر میں ایک علاقے کا نام اندھیری ہے۔ مجھے بھی اس علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ اب تو یہ ایک بہت ہی مصروف صنعتی اور رہائشی علاقہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پر بھی پرانے وقتوں کی غاریں پائی جاتی ہیں۔ تیرہویں صدی تک یہاں پر مختلف ہندو حکمرانوں کی حکومت رہی۔ سلاطین دلی نے 1347 ء میں اس علاقے پر قبضہ کیا لیکن یہ قبضہ صرف ساٹھ سال تک رہا۔

بعد ازاں اس علاقے پر سلاطین گجرات نے قبضہ کر لیا اور مدت تک یہ علاقہ ان کے ماتحت رہا۔ سلاطین گجرات ۔ ۔ ۔ میرے لیے ایک نیا انکشاف تھا۔ اس سے پہلے میں نے کبھی بھی سلاطین گجرات سے متعلق نہ کہیں پڑھا نہ سنا۔ اس سلطنت کے بانی ایک راجپوت تھے جو ہندو دھرم چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے۔ گجرات کے ایک وسیع علاقے پر ان کی حکمرانی تھی۔ انھوں نے سلاطین دلی کو شکست دی اور ممبئی پر قبضہ کر لیا۔

پرتگیزیوں کی آمد

یہ کتنی دلچسپ اور حیران کن بات ہے کہ ہندوستان میں آنے والے یورپین تجارت یا عیسائیت کی تبلیغ کے لیے ہی آئے لیکن مقامی لوگوں نے کسی نہ کسی طرح اپنے ذاتی مقصد کے لیے انھیں ہندوستان کی سرزمین پر قبضہ جمانے کی اجازت دی اور ان سے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی خاطر انھیں بے شمار سہولیات بھی فراہم کیں۔ جب ان کے قدم جم گئے تو انھوں نے طاقت کے زور پر باقی جگہوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ ایسا ہی مدراس اور ممبئی میں بھی ہوا۔

پرتگیزیوں کی آمد کے بارے میں جیمز ڈگلس نے (صفحہ 12 ) پر لکھا ہے کہ جب پرتگیزی 1532 ء میں اس علاقے میں آئے ہیں اس وقت یہاں پر کلپا دیوی نامی ایک گاؤں تھا۔ ان کے کہنے کے مطابق ممبئی کی ترقی کی وجہ اس کا جغرافیہ تھا۔ یہ ایک ساحل تھا جہاں یورپین لوگوں کو پہنچنے میں سہولت تھی۔ یاد رہے مغلوں کی حکومت 1526 ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس وقت ممبئی کے موجودہ علاقے میں ریاست گجرات کے قطب الدین بہادر شاہ کی حکومت تھی۔ 1534 ء میں ایک معاہدے کے تحت انھوں نے ایک وسیع علاقہ پرتگیزیوں کو دے دیا جہاں انھیں ہر طرح کی آزادی تھی لہذا انھوں نے چرچ بھی بنائے، تجارتی کوٹھیاں اور دفاعی قلعے بھی۔

ایسا کیوں کیا گیا؟

یہ کہنا کسی حد تک درست ہے کہ مغلوں نے یورپیوں کو ہندوستان میں قدم جمانے کے لیے سہولت فراہم کی۔ دوسری طرف تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 1534 ء میں گجرات کے مسلمان حکمرانوں نے مغلوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خوف سے اور اپنی ریاست کو مغلوں سے محفوظ رکھنے کے لیے غیر ملکیوں کو ہندوستان کی سرزمین دی تا کہ بوقت ضرورت وہ ریاست کی حفاظت میں ان کی مدد کرسکیں۔

چند سال بعد نہ ہی گجرات کی ریاست بچی اور نہ ہی مغلوں کی سلطنت۔ سب پر اس کا قبضہ ہو گیا جسے اپنی باہمی لڑائیوں کی وجہ سے اپنے گھر گھسنے کی دعوت دی تھی۔

یہ سب باتیں تاریخ کا حصہ ہیں جنہیں جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔

ممبئی شہر میں اب بھی بے شمار ایسے چرچز پائے جاتے ہیں جو پرتگیزیوں نے بنائے۔ اس دور میں اس شہر کو (Bombian) کہا جانے لگا۔ بعد ازاں یہ بمبئی بن گیا اور اب اسے ممبئی کہا جاتا ہے۔ یہ کہانی بھی آپ کے لیے انتہائی دلچسپ ہو گی کہ جب اس علاقے میں پرتگیزی قبضہ جمائے بیٹھے تھے تو انگریز بھی اس وقت تک جنوبی ہندوستان کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر چکے تھے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ بمبئی کو بھی اپنے قبضے میں لیں۔ کیونکہ اس وقت بمبئی تجارت کے لیے ایک بہت ہی اہم مقام تھا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے چھوٹی موٹی جنگیں بھی کیں لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ پھر ایک دلچسپ واقعہ رونما ہوا۔

اس واقعہ کا ذکر جیمز ڈگلس نے Bombay Marraiage Treaty کے نام سے اپنی کتاب A Book of Bombay میں (صفحہ 4 ) پر تفصیل سے کیا ہے کہ کس طرح برطانیہ کے بادشاہ چارلس دوئم اور پرتگیز کے بادشاہ الفونسس پنجم کے درمیان 1661 ء ایک معاہدہ کے تحت ممبئی کا علاقہ انگریزوں کے قبضہ میں آیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک انگریز شہزادے کی شادی پرتگال کے بادشاہ کی بیٹی سے ہوئی۔ پرتگیزی بادشاہ نے افریقہ کا ایک زیر قبضہ شہر اور بمبئی کا ایک وسیع علاقہ اپنی بیٹی کو بطور جہیز دے دیا۔ اس طرح یہ علاقہ انگریز بادشاہ کی ملکیت بن گیا۔ اس واقعے کے صرف سات سال بعد انگریز بادشاہ سلامت نے یہ تمام علاقے ایسٹ انڈیا کمپنی کو لیز پر دے دیے۔ یہ لیز صرف دس پونڈ سالانہ تھی۔

یہ تھی قیمت ہندوستان کی سونا اگلتی ہوئی زمین کی، جسے ایک مسلمان سلطان نے اپنی سلطنت بچانے کی غرض سے ایک غیر ملکی کودے دی۔

ہم بکے بھی تو کتنے سستے۔ یہ بکنا بند نہ ہوا۔ حتیٰ کہ کشمیر بھی انگریزوں نے بیچا۔

جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا اس وقت دلی میں عالمگیر کی حکومت تھی۔ اس نے اسے برداشت نہ کیا اور اپنے ایک جرنیل یاقوت خان کو اس علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا لیکن وہ اس علاقے کو واپس نہ لے سکا۔ یہ وہی دور ہے جب شاہجہاں نے دکن کے علاقے پر اپنے حملوں آغاز کیا اور عالمگیر نے اسے مکمل کیا لیکن وہ ممبئی پر اپنا قبضہ نہ کر سکا۔ بعد ازاں مراٹھوں نے بھی اس علاقے پر قبضہ کیا۔ بالآخر انگریزوں نے اسے مکمل طور پر اپنے قبضہ میں لے لیا۔ انھوں نے 1687 ء میں اپنا ہیڈکوارٹر سورت سے بمبئی منتقل کر لیا اور بمبئی پریذیڈنسی کی بنیاد رکھی اور پھر یہیں سے انھوں نے ہندوستان کے دیگر علاقوں پربھی چڑھائی شروع کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments