فلم ریویو: دی پیانسٹ – داستان عظم و ہمت


”میری پیدائش کا سبب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا میں میرے ساز کی آوازیں گونجیں“ ( سپیل مین )

انسان تباہی اور موت کا سوداگر کب بنا یہ کہنا قدر مشکل ہے لیکن انسان قدیم کی تاریخ قتل و غارت سے بھری پڑی ہے اگر کہاں جائے کہ اقوام عالم کی تاریخ قتل کی تاریخ ہے غلط نہیں۔ جنگ عظیم دوئم شاید تاریخ انسانی کی سب سے خوفناک، تباہ کن اور خونریز لڑائی تھی، یہ جنگ ہماری تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس کی ہر سطر ایک دردناک اور ناقابل یقین انسانی المیے کے طول و عرض کو بیان کرتی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں خوشحال اور زندگی سے بھرپور شہر کھنڈرات میں بدل دیے گئے بے شمار خاندان جلاوطن ہوئے اور لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

یوں تو سنیماء کی تاریخ میں نازیوں کے جرائم اور جنگ عظیم دوئم کی ہولناکیوں پر بننے والی فلموں کی تعداد کم نہیں، لیکن پولینڈ کے موسیقار سپیل مین کی سوانح حیات پر مبنی اس المناک داستان کو جس دیوانگی کے ساتھ رومن پولانسکی نے پردہ سکرین پر پیش کیا ہے کوئی اور ہدایتکار نہیں کر سکا۔ کیونکہ سپیل مین کی طرح پولانسکی ان چند یہودیوں میں سے ہے جس نے اس جنگ کی ہولناکیوں کو دیکھا اور سہا ہے۔

پولانسکی پولش فرانسیسی یہودی خاندان میں پیدا ہوا اس کا بچپن وارسا میں دوسری جنگ عظیم کے دوران گزرا۔ زندگی کے ابتدائی دور میں ہی وہ وحشت، بربریت، خوف اور درد سے آشنا ہو گیا تھا۔ وہ محض آٹھ برس کا تھا جب ستمبر کی ایک نیم تاریک شب اس پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی۔ جرمن فوج پولینڈ کے دفاع کو عبور کرتے ہوئے اس کے شہر میں داخل ہو چکی تھی ہر سو موت کا تانڈو جاری تھا۔ دوسرے بے شمار افراد کی طرح اس کے والدین کو بھی قیدی بنا لیا گیا۔ اس کا والد کیمپ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا لیکن اس کی والدہ کو کیمپ میں قید کے دوران ہی قتل کر دیا گیا۔

پولانسکی کہتا ہے کہ
” میری ماں کی جدائی کا غم اس قدر گہرا ہے کہ اسے میری موت ہی ختم کر سکتی ہے“

پولانسکی کے شعور کے نہاں خانوں میں اس کا المناک ماضی زندہ رہا، سالوں تک وہ اس درد کو بیان کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن اس کی تشفی نہ ہوئی بقول پولانسکی ”میں ہمیشہ جانتا تھا کہ ایک دن میں اس تکلیف دہ دور اور پولینڈ کی تاریخ کے بارے میں ایک فلم بناؤں گا“ ۔ اس زمن میں جب اسٹیون اسپیلبرگ نے اسے ”شینڈر لسٹ“ بنانے کی پیشکش کی تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کہانی اس کی یادداشتوں کی عکاسی کرنے سے قاصر ہے۔

آخر کار اس کی یہ بے قراری سپیل مین کی سوانح حیات کے مطالعہ کے بعد ختم ہوئی۔ یہ کتاب پچاس کی دہائی میں ”دی ڈیتھ آف اے سٹی“ کے عنوان سے شائع ہوئی لیکن پولینڈ کی سالمیت کو اس کتاب سے خطرہ لاحق ہوا اور اس پر پابندی لگا دی گئی، نوے کی دہائی میں سپیل مین کے بیٹے نے اسے ”دی پیانسٹ“ کے عنوان سے دوبارا شائع کیا۔ یہ المناک داستان پولانسکی کی زندگی کے قریب ترین تھی، پولانسکی کے لیے اپنی زندگی کے ہولناک دور کی عکاسی کرنے کا یہ ایک اچھا موقع تھا۔

اس فلم سے پولانسکی کی والہانہ محبت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے جرمن افواج کے وارسا شہر پر قبضے کے مناظر کو عکس بند کرنے کے لئے یہودی بستی کے ایک حصے کو مکمل طور پر دوبارہ تخلیق کیا، جرمن اور پولش فوجی دستوں کی حقیقی وردیوں کی تلاش میں اس نے پورے یورپ کا سفر کیا۔ فلم کے مرکزی کردار کے انتخاب کے لیے اس نے دو ماہ تک تقریباً بائیس سو سے زائد افراد کے آڈیشن کیے لیکن پچیس سے تیس سال کے درمیان کوئی ایسا اداکار تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہوا جو اس کردار کے لئے موزوں ہو۔ آخر کار اس کی تلاش امریکی اداکار ایڈرین بروڈی پرآ کر ختم ہوئی۔ بروڈی کی اداکاری نے اس کردار کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا، کردار کو حقیقت کے قریب ترین پیش کرنے کے لئے بروڈی اپنا بیشتر وقت پولانسکی کے ساتھ گزارتا اور وارسا کی گلیوں میں گھوما کرتا تھا، اس کردار کے لیے اس نے باقاعدہ موسیقی سیکھی۔

گو فلم کے ہر پہلو پر بڑی باریک بینی سے کام کیا گیا۔ فلم کی لوکیشن، سیٹ، موسیقی، اداکاری سینماٹوگرافی اور اسکور اپنی مثال آپ ہے۔ یہ فلم پولانسکی کا مکمل اور بے مثال کام ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو سات آسکر اور دو گولڈن گلوب ایوارڈز کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ اس فلم نے پچاس سے زائد ایوارڈز جیتے اور تقریباً ستر ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئی، جو پولانسکی کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

فلم کی کہانی:

فلم کا آغاز جرمن فوج کے پولینڈ پر حملہ کرنے کے چند ہفتے بعد ہوتا ہے۔ سپیل مین وارسا کے ریڈیو سٹیشن میں پیانو بجا رہا ہے، کہ اچانک عمارت دھماکوں کی آواز سے گونج اٹھتی ہے جو رفتہ رفتہ پیانو کی دھن پر چھا جاتی ہے، لوگ بھاگ رہے ہیں لیکن سپیل مین اپنی کرسی پر بیٹھا اطمینان سے پیانو بجا رہا ہے، فلم کا یہ اوپننگ سین ہی ناظر کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولانسکی پیانو اور موسیقی کو انسانی جذبات سے انتہائی نفاست سے جوڑتا ہے اور یہ ربط فلم کے اختتام تک برقرار رہتا ہے۔

وارسا کی سڑکوں پر اب جرمن فوج کا راج تھا گورنر شہر نے حکم جاری کیا کہ یہودیوں کی شہر میں نقل و حرکت پر پابندی ہوگی وہ کوئی نوکری نہیں کر سکتے اپنے پاس ایک خاص حد سے زائد کھانا اور پیسے نہیں رکھ سکتے کسی ہوٹل، پارک، دکان حتی کہ اپنے مکان میں بھی نہیں رہ سکتے، ان کے لئے الگ یہودی بستیاں بنائی گئیں، جہاں انھیں منتقل کیا گیا۔ یہودی بستیوں میں حالات اس قدر تفتیش ناک تھے کہ خوراک، پانی اور بنیادی سہولیات بھی میسر نہ تھیں۔ لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔ ہر سو خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا لیکن ان حالات میں بھی سپیل مین پر امید دکھائی دیتا ہے۔ وہ لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

لیکن! حالات مزید کشیدہ ہوتے گئے، دوسرے یہودیوں کی طرح اس کے والدین، بہنوں اور بھائی کو وارسا کے شمال مشرقی گھیٹو میں محصور کر دیا گیا۔ یہاں پولانسکی اپنے فن کی معراج پر دکھائی دیتا ہے، سکرین پر رنگوں کا استعمال اتنی مہارت سے کیا گیا ہے کہ خوشی و مسرت کا کوئی تاثر دکھائی نہیں دیتا۔ کیمپ میں تقریباً ہر کوئی مارا گیا، ایک دوست کی مدد سے سپیل مین کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ کیں دنوں تک وہ جرمن فوجیوں سے چھپتا رہا وہ تھکا ہوا، خوفزدہ، بیمار، بھوکا اور اکیلا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ زندگی کی جنگ لڑتا رہا۔ اپنی خودنوشت میں وہ لکھتا ہے کہ

” میرے آنکھوں کے سامنے میرے اہل خانہ موت کے سفر پر روانہ ہوئے، میرے شہر کو جلا دیا گیا میرا سب کچھ مجھ سے چھین لیا گیا لیکن میں نے یہ بوجھ صرف زندہ رہنے کی امید سے برداشت کیا۔ مجھے بس جینا تھا اور کون نہیں جانتا کہ میرے جینے کا مقصد کیا ہے؟“ ۔

چند برس قبل جب اس فلم کو دیکھا تو درد اور افسردگی کے ملے جلے جذبات تھے مانوں ہر کردار پر کیے گئے مظالم میری روح کو چاک کر رہے ہوں، اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی ہر سال ایک بار اس فلم کو دیکھتا ہوں اور وہی کیفیت پھر سے طاری ہو جاتی ہے۔ میں نے اس فلم کو صرف دیکھا نہیں بلکہ جیا ہے۔ یہ فلم آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو وارسا کے کھنڈرات میں لے جاتی ہے۔ جہاں ہر سو خاک آلود، بے بس، مایوس اور افسردہ چہرے نظر آتے ہیں یہ فلم ایک جنگجو یا ہیرو کی داستان نہیں بلکہ ایک فنکار کی اس کے فن سے دیوانگی کی داستان ہے ایک سروائیور کی روداد اور انسانی جذبات، احساسات اور عظم و ہمت کا استعارہ۔

یہ فلم ہمیں احساس دلاتی ہے کہ انسانیت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ انسان نے طاقت، دولت اور اقتدار کی خاطر جنگیں لڑیں اور دنیا کو جلا کر راکھ کر دیا۔ لوگوں کو محض ان کے نظریات اور عقائد کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا۔ یوں تو دنیا کا کوئی بھی مذہب انسان کو انسان کے خلاف نہیں ابھارتا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کنعان سے قسطنطنیہ تک جسے اقتدار ملا وہ پل بھر میں مظلوم و مفلس سے صاحب جاہ و چشم بن گیا۔ آج بھی ہم محض معمولی اختلاف کی بنیاد پر کسی کی جان لینے سے نہیں ہچکچاتے، ہم حقیقت سے نظریں چرا کر خود کو جذبات کے سپرد کر دیتے ہیں۔

کارل سیگان کہتا ہے کہ

” اس چھوٹے سے سیارہ زمین کے علاوہ آپ کو پوری کائنات میں کہیں بھی انسان نہیں ملیں گے، ہم ایک نایاب اور خطرے سے دوچار نوع ہیں۔ کائناتی اعتبار سے ہم میں سے ہر کوئی بیش قیمت ہے۔ اگر آپ کسی سے اختلاف رکھتے ہیں تو اسے کم از کم زندہ رہنے کا حق ضرور دیں کیونکہ اربوں کھربوں کہکشاؤں میں بھی آپ کو اس جیسا کوئی دوسرا نہیں ملے گا“ ۔

حوالہ جات
دی پیانسٹ از وولادیسوا سپیل مین
کاسموس از کارل سیگان
دی پیانسٹ از رضا مجیدی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments