میڈیا منڈی


میڈیا میں کیرئیر بنانے کا شوق کالج کے زمانے سے تھا، لیکن گھر والے میڈیکل کے شعبے میں بھیجنا چاہتے تھے۔ نہ میں میڈیا کو بطور صحافی اپنانا سکا نہ ہی ڈاکٹر بن سکا۔ میڈیکل تو بالکل بھی متاثر نہیں کرتا تھا اور نہ آج بھی کرتا ہے، تاہم میڈیا میں کسی طرح دل لگا رہا، حتی کہ ایم۔ اے ماس کمیونیکیشن میں داخلے کی بھرپور کوشش کی لیکن کچھ راستے آپ کے لئے بننے ہی نہیں ہوتے ہیں۔ خیر کسی طرح سے میڈیا سے وابستگی رہی لیکن اس کو بطور کیرئیر بنانے کا شوق آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔

ٹریننگ کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کے بھرپور استعمال نے اس شوق کو کہیں نہ کہیں زندہ رکھا لیکن میڈیا کے متعلق پھر بھی تشنگی رہی۔ کئی صحافیوں سے ملاقاتیں ہوئیں، ان کے انٹرویو کیے اور میڈیا کے کردار پر سیمینارز اور ٹریننگ کا حصہ رہا لیکن کوئی ایسی جامع اور ٹھوس چیز مسیر نہ آئی جس کے بارے میں کہا جاتا کہ یہ ایک منفرد اور مستند کام ہے۔

میڈیا منڈی نامی کتاب کا ذکر سوشل میڈیا پر ہی دیکھا لیکن پھر یہ کتاب نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ چند ماہ قبل ایکسپریس سنڈے میگزین میں نامور براڈکاسٹر موہنی حمید پر کالم کی تیاری کے دوران میڈیا منڈی کے مصنف جناب اکمل شہزاد گھمن صاحب کی یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھی تو ان سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ ہوا، فون پر بات ہوئی اور یوں اسلام آباد میں پہلی ملاقات ہو گئی۔

باتوں باتوں میں اکمل شہزاد گھمن سے معلوم ہوا کہ میرے اور ان کے اجداد کا آبائی علاقہ سیالکوٹ ہے۔ پھر یہ تعارف ایک تعلق میں بدل گیا۔ اسی دوران انہوں نے اپنی کتاب مجھے بطور تحفہ دی تو میں نے وعدہ کیا کہ میں اس کو پڑھ کہ اس پر اپنی رائے ضرور دوں گا۔ لہذا میں نے اس کتاب کو صرف دو نشستوں میں مکمل پڑھ لیا ہے اور اب اپنے تاثرات آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔

میرا ہاتھ ”میڈیا منڈی“ کا تیسرا ایڈیشن ہے جسے فکشن ہاؤس نے شائع کیا ہے۔ 303 صفحات پر مشتمل کتاب کو پڑھ کر آپ اکمل شہزاد گھمن صاحب کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ اس میں اکمل شہزاد کی محنت، تجسس اور حقائق کی تلاش کی جستجو آپ کو مصنف کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کرے گی، یہ ہی منفرد خوبی نے اس کتاب کو منفرد بنا یا ہے۔ میری نظر میں یہ کتاب موجودہ نسل کے صحافیوں، میڈیا پرسن اور بالخصوص ماس کمیونیکیشن کے طالب علموں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔

2016 میں پہلی دفعہ شائع ہونے والی اس کتاب کا اب تک تیسرا ایڈیشن ہے جو اس کی مقبولیت، افادیت اور پذیرائی کا ثبوت ہے۔ اکمل شہزاد گھمن نے اس کتاب کو ”روشن ضمیر اور باکردار صحافیوں کے نام“ منسوب کیا ہے، جو انتہائی شاندار روایت ہے۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں صحافیوں کو ایک ایسی نسل اور کلاس نے مشکل اور نامناسب حالات میں اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دیا ہے جن کی پذیرائی ضروری ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ صحافی کو صحافی ہی رہنا چاہیے اضافی نہیں بننا چاہیے۔

کتاب میں سینئر صحافیوں اور اخبار مالکان کے انٹرویوز شامل ہیں۔ بڑے اخبارات کے پس منظر اور تاریخی سفر کے علاوہ، کالم نگار اور کالم نگاری میں نمایاں کالم کاروں کا تجزیہ، اردو اور انگریزی صحافت کے امتیازی پہلو، پاکستانی زبانیں، صوبے اور پرنٹ میڈیا کے بارے میں دلچسپ اور حقائق سے بھرپور معلومات بیان کی گئی ہیں اور ان تمام پہلوؤں کو ایک خاص پس منظر کے ساتھ حوالہ جات بھی پیش کیے گئے ہیں۔ کتاب میں ڈاکٹر حسن عسکری، وسعت اللہ خان اور ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

کتاب میں انٹرویوز، حقائق اور تجزیہ کو بڑی غیر جانبداری سے پیش کیا گیا ہے بلکہ جگہ جگہ آپ کو اکمل شہزاد گھمن کی سوچ، افکار، شخصیت اور اور سچ کو سامنے لانے کی جستجو بڑی نمایاں نظر آئے گی۔ وہ اپنے سوالات کے ذریعے اپنے موضوع سے بالکل بھی ارہر ادھر نہیں ہٹے اور نہ ہی حقائق کو یک طرفہ بیان کرنے کی کوشش کی اور کہیں ایسا بھی نہیں لگا کہ انہوں نے سوال اور صورتحال کو اس جانب موڑا یا خود جج بننے کی کوشش کی ہے۔ میں تو ان کی سوال کرنے کی صلاحیت اور ٹو دی پوائنٹ گفتگو کرنے کی خوبی میں مداح ہو گیا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں

”صحافت اور سیاست کا عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ کسی بھی تجزیہ کا رکا منصب یہ ہے کہ وہ پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھتے ہوئے عصری حالات کا یوں تجزیہ کرے کہ عام آدمی کے سامنے ساری صورت حال کھل کر آ جائے تاکہ کسی بھی معاملے پر اسے اپنی رائے قائم کرنے میں مدد مل سکے۔“ (صفحہ 192 )

عارف نظامی اور مجیب الرحمن شامی صاحب کے ساتھ ان کے انٹرویو مجھے بہت پسند آئے۔ بلکہ مجیب الرحمن شامی کے انٹرویو سے پہلے ان کے یہ الفاظ بہت شاندار ہیں۔ ”شامی صاحب کے نقطہ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے، مگر ان کا شمار ان چند خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جن کو خدا نے لکھنے اور بولنے کی دونوں نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ لکھاری اچھے ہیں یا مقرر۔“ (صفحہ 98 )

اسی انٹرویو میں وہ شامی صاحب سے سوال کرتے ہیں۔ ”ایک دانش ور یا صحافی کو ذاتی سطح سے بلند نہیں ہونا چاہیے؟

جس کا جواب شامی صاحب نہ یوں دیا۔ ”ہاں آپ کہہ سکتے ہیں۔ اصولی طور پر تو آپ کی بات درست ہے۔“ (صفحہ 111 )

کتاب کا مطالعہ ایک مرتبہ شروع کرنے کے بعد آپ اس کو ختم کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھ پائیں گے۔ کتاب میں روانی، سادگی اور تجسس آپ کو پڑھنے پر متحرک کرے گا اور کتاب مکمل کرنے کے بعد آپ کو مزید پڑھانے کی بھی پیاس رہے گی، میرے خیال میں یہ ہی اکمل شہزاد گھمن صاحب کا کمال اور خوبی ہے۔ وہ اپنے نقطہ نظر کو بڑی دلیری، مگر حقائق اور غیر جانبداری سے پیش کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ یہ کتاب ان کی اس خوبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ سے کتاب پڑھیں گے تو آپ کو پاکستان میں میڈیا کے ماضی کے ساتھ ساتھ موجودہ صورت حال اور مستقبل بھی نظر آ جائے گا، شرط ہے کہ آپ اس کو اکمل شہزاد گھمن کی نظر سے دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments