سپاٹیفائے سے شہرت کمانے والے پاکستانی فنکار جن پر ’ٹیلنٹ دیکھ کر پیسہ لگایا گیا‘


پاکستان میں دو سال پہلے لانچ ہونے والی گلوبل آڈیو سٹریمنگ سروس سپاٹیفائے کا دعویٰ ہے کہ پچھلے سال ملک میں سٹریمنگ پر ستر فیصد لوگوں نے ہپ ہاپ گانے سُنے۔ اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ زیادہ تر نوجوان نسل سٹریمنگ سروسز کا استعمال کر رہی ہے۔

ہپ ہاپ میوزک پاکستان میں نسبتاً نیا ہے اور بیشتر نوجوان فنکار موسیقی کی اس صنف میں پنجہ آزمائی کررہے ہیں جن میں سب سے مقبول گروپ ’ینگ سٹنرز‘ کا ہے جن کے گانے سٹریمنگ سروسز کے ٹاپ چارٹس پر مسلسل چھائے رہے اور اب بھی چھائے ہوئے ہیں۔

نوجوان فنکار تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کے کام کو شائقین تک پہنچانے میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم یوٹیوب سمیت سٹریمنگ سروسز کا بڑا ہاتھ ہے۔ نوجوان پاکستانی آرٹسٹ طحہٰ جی پچھلے چھ برسوں سے میوزک بنا رہے ہیں لیکن حال ہی میں اُنھیں اور اُن کے کام کو ایک پہچان ملنا شروع ہوئی ہے۔

اُن کے خیال میں اس کی وجہ پاکستان میں دو سال پہلے لانچ کیا جانے والا گلوبل سٹریمنگ پلیٹ فارم سپاٹیفائے ہے۔

’میں سپاٹیفائے کے آنے سے پہلے سے گانے نکال رہا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب سپاٹیفائے آیا ہے تو کتنا فرق پڑا ہے۔ میری پوری سٹریمز پر اور سننے والوں پر۔‘

سپاٹیفائے اپنے ریڈار پروگرام کے ذریعے نوجوان اور ابھرتے ہوئے موسیقاروں کو اپنا نام بنانے میں مدد دے رہا ہے۔طحہٰ جی رواں سال کے لیے ریڈار آرٹسٹ ہیں جبکہ پچھلے سال نوجوان موسیقار حسن رحیم کو پہلا ریڈار آرٹسٹ منتخب کیا گیا تھا۔

’جین ژی (Gen Z) میوزک بزنس سمجھنے میں دلچسپی رکھتا ہے‘

ماضی میں دنیا بھر کی طرح پاکستانی فنکار آڈیو کیسٹیں، منی ڈسکس اور سی ڈیز کے ذریعے اپنا میوزک مارکیٹ میں لاتے تھے۔ گلوبلائزیشن کے ساتھ ساتھ جب عام لوگوں تک انٹرنیٹ کی رسائی بڑھی تو اِنھی فنکاروں نے ایک مشکل دور بھی دیکھا کہ لوگ ان کا کام خرید کر سننے کے بجائے ڈاؤن لوڈ کرنے لگے۔

اسی منظر نامے میں ایک وقت سٹریمنگ ویب سائٹس کا آیا لیکن وہاں بھی میوزک مفت تھا اور اُس سے موسیقار کو کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔

سپاٹیفائے کے آرٹسٹ اینڈ لیبل پارٹنرشپ منیجر خان ایف ایم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئِے کہا کہ ’پاکستان میں پائیریسی ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے آرٹسٹوں نے میوزک بنانا ہی چھوڑ دیا۔

’ایک پینٹر یا کسی اور فنکار کی طرح ایک موسیقار کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے گانے ریلیز کرے، اُن کو پیش کرے اور اُن سے پیسہ بنائے۔‘

انھوں نے پاپ بینڈز جنون، وائٹل سائنز اور سٹرنگز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’اِن سب نے اپنا کیریئر لائیو شوز کر کے بنایا۔ لیکن جب آپ کی عمر بڑھ جاتی ہے تو ظاہر ہے شوز کم ہوتے ہیں تو پھر دنیا بھر میں آرٹسٹ میوزک بزنس کے ذریعے سروائیو کرتے ہیں۔‘

میوزک انڈسٹری سے جڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ بہت ہی کم موسیقاروں کو اپنے گانوں کے کاپی رائٹس کا علم ہوتا ہے پھر چاہے وہ شہروں سے ہوں یا دور دراز علاقوں سے آنے والے لوک اور فوک موسیقار۔

لیکن اب سپاٹیفائے، ٹائیڈل یا آئی ٹیونز جیسے آڈیو سٹریمنگ پلیٹ فارمز موجود ہیں جنھوں نے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں میوزک انڈسٹری کی شکل کو یکسر بدل دیا ہے۔

پاکستانی فلم ’کملی‘ کی موسیقی ترتیب دینے والے موسیقار، پروڈیوسر اور سانگ رائٹر سعد سلطان بتاتے ہیں کہ ’اب پاکستان میں آڈیو سٹریمنگ پلیٹ فارمز کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کافی عرصہ سے کوئی باقاعدہ ریکارڈز لیبلز نہیں ہیں۔

’تو عموماً نئے آرٹسٹ کو بالکل پتا ہی نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے؟ گانا ریلیز کس طرح کرنا ہے، اگر انھوں نے گانا بنا لیا ہے تو اُس کا کیا مستقبل ہے اور اُس کو لوگوں تک کیسے پہنچایا جاسکے۔‘

خان ایف ایم کے مطابق سپاٹیفائے موسیقاروں کو بھی آگاہی دے رہا ہے کہ وہ اپنے گانوں کے حقوق رجسٹر کروائیں جس کے بعد وہ باآسانی مختلف پلیٹ فارمز پہ اُنھیں شوکیس کرکے مالی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے بقول نوجوان نسل یا عرف عام میں مشہور ’جین ژی‘ کے موسیقار اس جانب کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔

’سپاٹیفائے بات کرتا ہے میوزک بزنس کی جس کے ساتھ ہی آمدنی اور رائلٹیز کی بات ہوتی ہے۔ جین ژی کے آرٹسٹ اس بارے میں زیادہ آگاہی رکھتے ہیں کہ اُن کے گانے کے حقوق کس کے پاس ہیں یا ہونے چاہییں۔‘

طحہٰ

طحہٰ جی کہتے ہیں کہ ’سپاٹیفائے کو ضرورت نہیں ہے ہم پہ پیسے لگانے کی لیکن وہ لگا رہے ہیں کیونکہ اُن کو ٹیلنٹ دِکھائی دے رہا ہے‘

سٹریمنگ سروسز: ’پاکستانی میوزک کا مستقبل کافی روشن ہے‘

پاکستان میں جہاں ایک طرف گلوبل میوزک سٹریمنگ مقبول ہوتی جا رہی ہے وہیں پاکستانی میوزک کی پہنچ عالمی سطح پہ بڑھی ہے۔ اِس نئی پہچان کی تازہ مثالیں عروج آفتاب جیسے فنکار ہیں جنھوں نے پاکستان کے لیے ملک کا پہلا گریمی ایوارڈ جیتا یا پھر نوجوان آرٹسٹ شے گِل ہیں جن کا گانا ’پسوڑی‘ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں وائرل ہوگیا۔

پاکستان کے میوزک سین کے لیے ویسے تو سٹریمنگ سروسز ابھی بہت نئی ہیں لیکن اُن کی مقبولیت میں ایک واضح اپ ورڈ ٹرینڈ دیکھا جا رہا ہے۔ اِن سٹریمنگ سروسز کی وجہ سے ہی پاکستانی آرٹسٹس ٹائمز سکوائر اور مارول کی فلمز میں دیکھے اور سُنے گئے۔

طحہٰ جی بتاتے ہیں کہ ’کافی آرٹسٹ ایسے ہوتے ہیں جو سوشل میڈیا سے ہی آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن میرے کیس میں سپاٹیفائے پاکستان میں آنے تک میرے سٹریمز بہت کم تھے۔ پھر فرق پڑا۔ اب صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ انڈیا، برطانیہ اور امریکہ میں بھی میرے فالوورز ہیں۔ اب میرا میوزک دنیا بھر میں ہر جگہ سنا جاسکتا ہے۔‘

ماضی میں پاکستان ایک ایسی مارکیٹ رہی ہے جہاں مفت تفریح کا رجحان تھا، پھر چاہے وہ ڈاؤن لوڈ کر کے گانا سُننا ہو یا کانسرٹ کے مفت ٹکٹوں کا حصول۔

لیکن اب یہ تاثر ختم ہو رہا ہے۔ لوگ ڈیجیٹل پلیٹ فارم یوٹیوب پر یا پھر آڈیو پلیٹ فارم سپاٹیفائے کو سبسکرائب کر کے میوزک سُن رہے ہیں۔ اِن دونوں ہی چیزوں سے آرٹسٹ کو براہِ راست مالی طور پر فائدہ ہو رہا ہے۔

طحہٰ جی کہتے ہیں کہ ’سپاٹیفائے کو ضرورت نہیں ہے ہم پہ پیسے لگانے کی لیکن وہ لگا رہے ہیں کیونکہ اُن کو ٹیلنٹ دِکھائی دے رہا ہے۔ اُن کو دِکھائی دے رہا ہے کہ یہ لوگ کتنا آگے جاسکتے ہیں۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں۔‘

سعد سُلطان نے کہا کہ ’زیادہ تر آرٹسٹ اِن پلیٹ فارمز پہ اپنے نئے میوزک کو ریلیز کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ یہ بنیادی طور پر صرف میوزک اور آڈیو پر مبنی پلیٹ فارمز ہیں جس کی وجہ سے اُنھیں ویڈیو بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور گانا خود بُخود لوگوں تک پہنچ سکتا ہے جو کہ پہلے ممکن نہیں تھا۔‘

پاکستانی آرٹسٹ سجاد علی سٹریمنگ سروس کی مقبولیت کو ایک خوش آئند تبدیلی قرار دیتے ہیں اور پُرامید ہیں کہ مستقبل کافی روشن ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ اب وہ دور ہے کہ کوئی گلہ کرے کہ ہمیں چانس نہیں ملتا۔ اب اگر آپ کو کچھ آتا ہے تو کرکے دِکھائیں۔ جگہیں اور ایوینیوز آپ کے پاس ہیں۔ خاص طور پر ڈیجیل پلیٹ فارمز پر۔

’میرا بہت سارا کام بلکہ تقریباً سارا کا سارا کام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر موجود ہے۔ میرا کام سپاٹیفائے پہ ہے، آئی ٹیونس پہ ہے اور دوسرے جو ڈیجیٹل سٹورز پر ہے۔ میں تو کافی پُرامید ہوں اور آگے مجھے فیوچر بھی کافی برائٹ لگتا ہے۔‘

سستی انٹرنیٹ سروسز اور مارکیٹ میں دستیاب دیگر مفت سٹریمنگ کے چیلنجز کے باوجود دنیا بھر میں آڈیو میوزک سننے کے انداز میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر پاکستان میں بھی دیکھا جارہا ہے۔

اس شفٹ اور بوم کی وجہ سے ملک میں موسیقی کے لیے ماحول دن بدن بہتر اور سازگار ہوتا جارہا ہے۔ ورنہ پہلے لوگ پٹاری اور ساؤنڈ کلاؤڈ جیسی سروسز پر گانے سننے کو ترجیح دیتے تھے جو فنکاروں کو اتنا معاوضہ نہیں دیتے۔

ایسا نہیں ہے کہ اب اِن سروسز پہ لوگ موسیقی نہیں سُن رہے لیکن اب لوگ خصوصا نوجوان ایسے سٹریمنگ پلیٹ فارمز کا بھی رُخ کررہے ہیں جہاں سبسکرائب کرکے میوزک سُنا جاسکتا ہے۔

اس بدلتی صورتحال کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں ایک ٹھوس میوزک انڈسٹری وجود میں آسکے گی اور میوزک پائیریسی کا مکمل خاتمہ ممکن ہوسکےگا۔

اس سے ایسی ڈسٹری بیوشن فرموں، آرٹسٹ مینجمنٹ کمپنیوں اور پروموشن انٹرپرائزز کے قیام کی حوصلہ افزائی ہو گی جو فنکاروں کو سپورٹ کرتے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments