نوڈلز : چھوٹے بچوں کے جھلس جانے کی بڑی وجہ


عنوان پڑھ کر شاید آپ نے یہ سوچ کر اس تحریر کو پڑھنے کا انتخاب کیا ہو کہ چھوٹے بچے نوڈلز کھانے کی وجہ سے جھلس جاتے ہیں تو آپ کو مایوسی ہوگی۔ دراصل جامہ شکاگو میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بچوں کی جانب سے خود نوڈلز پکانے کی کوشش میں ان کے جھلسنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔

یہ تحقیق طبی جریدے ”برنز“ کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ جس میں جامعہ شکاگو کے خصوصی مرکز برائے آتش زدگان میں داخل کیے جانے والے بچوں پر تحقیق کی گئی ہے۔ یہ تمام مریض سنہ 2010 سے سنہ 2020 کے درمیان داخل کیے گئے تھے اور کسی گرم مائع چیز کے جسم پر گرنے سے جھلسے تھے۔

اس تحقیق سے انکشاف ہوا کہ تمام سات سو نوے ( 790 ) مریضوں میں سے اکتیس فیصد بچے، نوڈلز پکانے کی کوشش کے دوران جھلسے تھے۔

”اس تحقیق کو شروع کرنے کی وجۂ تسمیہ یہ تھی کہ گزشتہ کچھ عرصے سے تقریباً جس بھی مریض بچے کے بارے میں ہم سے مشورہ کیا جاتا، اس کی وجہ نوڈلز پکانے کی کوشش کے دوران جھلس جانا بتائی گئی۔ چنانچہ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اس مسئلے پر تحقیق کی جائے کہ آخر بچوں کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں ایسے واقعات کیوں ہو رہے ہیں“ ۔ اس تحقیق کے مرکزی مصنف سبیسچیئن وروی جو کہ جامعہ شکاگو کے مرکز برائے آتش زدگی میں جراحی کے شعبے کے نائب معلم ہیں، نے تحقیق کا پس منظر بیان کیا۔

”اس تحقیق کے ذریعے ہم مستقبل میں بچوں کو جھلسنے سے بچانے کے اقدامات کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔“

وروی نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی یہ بالکل امید نہیں کر رہے تھے کہ نوڈلز انتہائی کم عمر بچوں میں اتنے بڑھے پیمانے پر جھلس جانے کے واقعات کی وجہ بن رہے ہوں گے۔

”ہم اس مسئلے کی شدت کو جان کر حیرت زدہ رہ گئے۔ جس نے اس امر کی بھی تصدیق کر دی کہ اس حوالے سے آگہی اور شعور پھیلا کر بچوں کو اور جھلس جانے والوں کا علاج کرنے والے مراکز پر مریضوں کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔“ انہوں نے اپنے بیان میں کہا۔

اس تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ غریب پس منظر اور سیاہ فام امریکی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچے، دیگر کے مقابلے میں زیادہ جھلس رہے تھے۔ اوسطا ان علاقوں سے نوڈلز سے جھلس جانے والے زیادہ مریض بچے آ رہے تھے کہ جو بچوں کو حاصل سہولیات کے حوالے سے غریب علاقے سمجھے جاتے ہیں۔

محقق نے اس جانب توجہ دلائی کہ فوری طور پر تیار ہونے والے نوڈلز، سستی خوراک (امریکا میں ) تصور کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ عالمی سطح پر بچوں کی خوراک کو سستا، متنوع اور وافر مقدار میں فراہم کر کے اس مسئلے کی شدت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

وہ بچے جو نوڈلز تیار کرنے کے دوران جل کر جھلس گئے تھے، کی اوسط عمر، دیگر وجوہات کے سبب جھلس جانے والے بچوں سے تھوڑی زیادہ پانچ اشاریہ چار سال، یعنی تقریباً ساڑھے پانچ سال تھی۔ محققین نے اس عمر کو ”اس عرصے کے طور پر بیان کیا ہے کہ جب بچے خود سے نوڈلز پکانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن محفوظ طریقے سے کر نہیں پاتے۔“ اور یہ بھی انکشاف ہوا کہ زیادہ تر بچوں کی نوڈلز پکانے کے دوران نگرانی کرنے والا کوئی بڑا موجود نہیں تھا۔

اپنے بیان میں وروی نے زور دے کر وضاحت کی کہ بچوں کے نوڈلز یا کسی بھی قسم کا کھانے پکانے کے دوران بڑوں کی نگرانی کرنا، انہیں جھلسنے سے بچانے کے لیے انتہائی ضروری قدم ہوتا ہے۔

”براہ راست نگرانی کا عمل ہی بچوں کو کسی قسم کے حادثے سے بچاتا ہے۔“ وروی نے زور دے کر کہا۔ ”نوڈلز کو پکانے کے لیے جو حرارت استعمال ہوتی ہے، وہ کسی فرد کو بھی دوسرے سے تیسرے درجے تک جھلسا دینے کے لیے کافی رہتی ہے۔ لیکن بچے اس کی شدت کا زیادہ شکار ہوتے ہیں کیونکہ ایک تو ان کا جسم چھوٹا ہوتا ہے اور دوسرا ان کی جلد نازک اور پتلی ہوتی ہے۔“

کیرن کوئنلن، جنھوں نے بچوں کے عمومی طور پر جھلس جانے کی وجوہات پر تحقیق کی ہے، نے سی این این کو بذریعہ برقی مراسلہ آگاہ کیا کہ وہ بھی ”یہ جان کر حیرت زدہ ہو گئیں کہ نوڈلز سے بچوں کے جھلس جانے کے کتنے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔“

کیرن کوئنلن، جو اس تحقیق میں شریک نہیں تھیں، نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ اس تحقیق میں صرف جامعہ شکاگو کے مرکز برائے آتش زدگان میں داخل ہونے والے بچوں کی معلومات حاصل کی گئی تھیں اور کہ یہ مرکز زیادہ تر شکاگو کے جنوب میں واقع غریب آبادیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا علاج کرتا ہے۔ چنانچہ اس تحقیق کے نتائج کو پورے امریکا کا احوال سمجھنا شاید مستند نہ ہو مگر یہ شکاگو اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کے رہائشیوں کی واضح تصویر پیش کرتی ہے۔

وروی کی طرح کوئنلن نے بھی بچوں کے مائیکرو ویو چولہے یا عام چولہے کو استعمال کرنے کے دوران بڑوں کی نگرانی پر زور دیا۔

”اتنی چھوٹی عمر کے بچوں کو مائیکرو ویو چولہا بغیر نگرانی کے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔“ وروی نے زور دے کر کہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تحقیق والدین کو بھی اس مسئلے کی حساسیت سے آگاہی فراہم کرے گی کہ ایسے واقعات کتنی بڑی تعداد میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ ”پورے ملک میں واقع مراکز برائے آتش زدگان اس طرح کے واقعات سے اکثر و بیشتر نمٹتے رہتے ہیں“ ۔

جبکہ کوئنلن نے ایسے مائیکرو ویو اون بنانے کی ضرورت پر زور دیا کہ جن کے دروازے چھوٹے بچے آسانی سے نہ کھول سکیں۔ کوئنلن کی تحقیق اور اس حوالے سے انتباہی مہم چلانے کے بعد امریکا کے تمام مائیکرو ویو اون بنانے والے ادارے اس بات پر متفق ہوئے کہ ایسے مائیکرو ویواون بنائے جائیں کہ جن کے دو مختلف بٹن ہوں تاکہ چھوٹے بچے انہیں آسانی سے نہ کھول سکیں۔ اس طرح کے مائیکرو ویو اون اس سال مارچ سے بازار میں پیش کر دیے گئے ہیں۔

”ہمیں اس حوالے سے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کون کون سے اقدامات اٹھا کر ہم بچوں کے جھلس جانے کے واقعات کو کم سے کم تر کر سکتے ہیں۔“ وروی نے زور دے کر کہا۔

ویسے ہمیں یاد ہے کہ ہم کوئی ساڑھے چھ یا سات سالوں کے تھے جب ہم نے پہلے پہل چائے بنانا شروع کی۔ لیکن اس سارے عمل کے دوران ہماری والدہ محترمہ پوری نگرانی اور رہنمائی کرتیں کہ اپلوں اور لکڑی کی آگ کیسے جلائی جا رہی ہے۔ پھر جب چند ماہ بعد والدہ صاحبہ بیمار ہوئیں تو ہم مٹی کے تیل کے چولہے پر چائے پکاتے تھے لیکن اس دوران بھی والدہ صاحبہ ہدایات دیتی تھیں کہ پہلے دیکھو کہ کوئی بتی نیچے تیل میں تو نہیں گری اور گرم چائے کے برتن کو احتیاط سے موٹے کپڑے سے پکڑ کر اٹھاؤ۔ اس کے ایک سال بعد سنہ 1992 میں میگی نوڈلز پہلی دفعہ پاکستان میں متعارف کرائے گئے تو ہم نے اسی وقت لیے تھے لیکن اس وقت ہمیں ان کا ذائقہ اچھا نہیں لگا تھا۔

ماخذ سی این این


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments