جنسی تعلیم وقت کی اہم ضرورت


جنس ہماری زندگی کی ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ مشرق میں اس پر بات کرنا بھی شجر ممنوعہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ اس کی وجوہات ہیں کہ جنھوں نے جنس کو موضوع بحث بنایا ہے یعنی اہل مغرب، تو اس بھونڈے انداز میں کہ ایک شریف انسان کو اسے پڑھ کر یا سن کر ہی ابکائی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے میں وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ مہذب اور سلجھے ہوئے انداز میں نوجوانوں کے جنسی مسائل میں ان کی رہنمائی کی جائے کہ جس کا مقصد صرف اور صرف ایجوکیشن ہو نہ کہ زنا اور فحاشی کا فروغ۔

سیکس کا نام سنتے ہی ذہن میں عجیب قسم کے گندے خیالات اور نفرت انگیز وسوسے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ یہاں جب بھی سیکس کا نام لیا گیا ہے تو محض گندے طریقے سے یا زنا کے طور پر۔ در اصل سیکس انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت ہے اسی لئے اس پر بات کرنا اور لوگوں میں اس کے بارے میں شعور پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سیکس کے بارے میں بات کرنا یہاں انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے حتیٰ کہ اگر کسی کو جنسی مسائل درپیش بھی ہوں تو وہ ڈاکٹر کے سامنے بھی کھل کر بات نہیں کرنا چاہتا۔

میرے ایک نزدیکی دوست کی شادی ہو گئی، سال پر سال گزرتے گئے لیکن اس کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہوا۔ مختلف ڈاکٹروں سے رجوع کیا، بہت سارے ٹیسٹ کرائے لیکن بے سود۔ ایک دن میں نے اسے اپنے ساتھ بٹھا یا اور پوچھنا شروع کیا کہ آخر مسئلہ ہے کیا؟ وہ بتانے سے ہچکچا رہا تھا۔ بہت سمجھانے کے بعد آخر کار اس نے سب کچھ بتا دیا۔ میں ایک اچھے ڈاکٹر کے پاس گیا اور ٹھیک وہ سب باتیں بتا دیں جو میرے دوست نے مجھ سے کہی تھیں۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ اس کا طریقہ ہی غلط ہے وہ جماع کرنے سے نا واقف ہے اور یہی ایک وجہ ہے کہ اب تک وہ بے اولاد ہے۔

پھر میں نے اپنے دوست کو اس ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا اور ڈاکٹر نے اسے سب کچھ اچھے طریقے سے سمجھا دیا۔ اب وہ ماشاء اللہ تین بچوں کا باپ ہے۔ اس قصے کو بیان کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم مسئلے کو بیان کرنا معیوب سمجھتے ہیں، کسی ڈاکٹر یا ماہر شخص سے مشورہ نہیں لیتے اور پھر جو نتیجہ آتا ہے ہم مرد صرف عورت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔

پاکستان سمیت متعدد ترقی پذیر ممالک میں بے اولادی، بانجھ پن اور جنس کے متعلق مسائل انتہائی زیادہ ہیں اور اس کی بنیادی وجہ محض یہی ایک ہے کہ یہاں ان ممالک میں سیکس ایجوکیشن یعنی جنسی تعلیم بالکل ہے ہی نہیں۔ سیکس ایجوکیشن وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے اس کے بغیر ازدواجی زندگی میں سکون نا گزیر ہے۔ جنوبی ایشیا اور خاص کر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں آئے روز بے تحاشا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے یہاں سیکس ایجوکیشن کا نہ ہونا ہے کیوں کہ اگر یہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جنسی تعلیم پر بھی اتنا زور دیا جاتا جتنا کہ عام تعلیم پر دیا جاتا ہے تو نہ چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد ہوتا اور نہ شادی شدہ لوگوں کو بچے پیدا کرنے میں مسائل ہوتے لیکن یہاں ایسی باتوں کو بے شرمی اور سب سے بڑھ کر کفر کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ہماری نا اہلی اور بہت بڑی نا سمجھی ہے کہ ہم سیکس کو حلال جبکہ اس کے بارے میں جان کاری کے علم کو حرام سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں ہر دو گھنٹے بعد کوئی نہ کوئی جنسی تشدد کا شکار ہوجاتا ہے اور اس میں کثیر تعداد نا بالغ بچوں کی ہوتی ہے۔ اس کی بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سکولوں اور درسگاہوں میں ہمیں جنسی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ اسے انتہائی معیوب سمجھا اور جانا جاتا ہے۔ جنس ہماری قدرتی پہچان ہے، ہم اپنی قدرتی پہچان کے بارے میں کیوں بات نہیں کرنا چاہتے، اس کی حفاظت کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ آج بھی اگر کسی درسی کتاب میں جنس کے حوالے سے کوئی عنوان آ جائے تو ہم اسے کاٹ دیتے ہیں تاکہ بچوں پر برا اثر نہ ہو لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ جنس کے متعلق نہ پڑھا کر ہم بچوں کو اصل میں تباہ کر دیتے ہیں۔

بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم ”سپارک“ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 3800 بچے جنسی استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر ان بچوں کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی ہو تو یہ نوبت شاید کم ہو جائے۔ والدین کی لا پرواہی، اساتذہ کا روایتی رویہ اور ہمارا نصاب اس قدر گرے ہوئے معیار کے ہیں کہ وہ جنسی تعلیم کو عریانی اور زنا کاری کی سیڑھی سمجھتے ہیں جو کہ در اصل اس کے بر عکس ہے۔ جب کوئی بچہ بلوغت کی عمر تک پہنچتا ہے تو اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہونے کے ساتھ ساتھ تجسس بھی پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جنسی تعلیم سے نا واقفیت کی وجہ سے زیادہ تر بچے غیر معیاری و اخلاقی مواد عریاں فل میں اور فحش ویڈیوز کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور جذباتی ہیجان کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اسی لئے خدارا خود اپنے بچوں پر اپنے ہاتھ سے ظلم کرنا بند کر دیں انھیں شائستہ طریقے سے سمجھائیں کہ وقت پر جنسی تعلیم دینے کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ انھیں غلط لوگوں کی صحبت سے دور رہنے کی تلقین کریں اور ان کو اپنی کڑی نگرانی میں رکھیں۔ ایک بات یاد رکھیں، سیکس ایجوکیشن سے نقصان کسی کو بھی نہیں ہو گا، لیکن فائدہ اگر ایک کو بھی ہو جائے تو بہت بڑی بات ہے۔ شاید آپ لوگوں کو واقعی اندازہ نہیں ہے کہ ریپ کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے جو والدین کی علم میں نہیں ہوتا یا پھر وہ جان کر بھی چپ رہنے کا کہتے ہیں کہ کہیں بات نکلی تو بد نامی ہوگی۔

جو لوگ یہاں بہت سادے بن کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سیکس ایجوکیشن سے ملک و معاشرے میں بے حیائی عام ہو جائے گی یا لوگ شادی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کریں گے تو ایسے لوگوں کو یہ جاننا چاہیے کہ جنسی تعلیم دینے سے انسان میں شعور و آگاہی پیدا ہو جاتی ہے، وہ اپنی حفاظت اور جنسی تعلقات سے خود کو بچاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments