نقاد حضرات سے معذرت
میرا ایک قریبی دوست جو ہمارے ساتھ دیرینہ تعلق ہونے کے باوجود بھی ادبی شوق کا حامل ہے وہ ادب میں تحقیق و تنقید کا سخت ناقد ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ادبی تخلیق سے شغف رکھنے والے کسی شریف آدمی کو اگر ادبی تحقیق کا کام سونپ دیا جائے تو یہ قریب قریب ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی نیورو فزیشن کو گائنی کی ذمہ داریاں دے دیں۔ اس مماثلت میں، اس کے بقول، نیورو فزیشن پھر بھی تھوڑے فائدے میں رہتا ہے۔
کیونکہ قوانین قدرت اور فطری معاملات کی کچھ نہ کچھ آگاہی تو پھر بھی سبھی کو ہوتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ محقق اور نقاد حضرات دراصل گھر سے ادیب اور شاعر بننے نکلتے ہیں لیکن جب وہ ادب میں جگہ نہیں بنا پاتے تو تحقیق و تنقید کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اس کے بقول اس شعبے کا انتخاب وہ ناقدری زمانہ کے بعد ردعمل کے طور پر کرتے ہیں۔ گویا وہ اس راستے کا انتخاب طبعاً نہیں بلکہ انتقاماً کرتے ہیں اور پھر وہ تمام عمر لاشعوری طور پہ ادیبوں اور شاعروں سے انتقام لیتے رہتے ہیں۔
اسی دوست کا کہنا ہے کہ عام طور پہ کوئی انسان اس وقت تک نقاد بنتا ہی نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنے آپ کو پوری تسلی نہیں دے لیتا کہ وہ اب ایک ادیب یا شاعر نہیں بن سکتا۔ چنانچہ جب وہ تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود تخلیق کار نہیں بن سکتا تو پھر وہ خود ایک نقاد کا روپ دھار لیتا ہے۔ وہ تنقید کی کھڑکی کھول لیتا ہے اور وہاں سے وہ تخلیق کاروں پر تاک تاک کر پتھر پھینکتا رہتا ہے۔ خشک تنقیدی ادب کا مسلسل مطالعہ اس کی طبیعت پہ اپنے اثرات دکھاتا ہے۔ ایسے یک رخی مطالعے کی کثرت سے طبیعت میں عجیب رعونت در آتی ہے اور وہ اردو ادب کے حوالے سے کسی قدر خبط عظمت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے بقول نقاد حضرات اختصار گوئی اور اختصار نویسی سے اکثر محروم ہوتے ہیں۔ سادہ سی بات کو بڑے ثقیل اور بھاری بھرکم الفاظ میں بیان کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ چنانچہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر انتہائی ثقیل الفاظ اور دقیق زبان بولتے ہیں اور پھر حاضرین محفل کو داد طلب نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔
ہمارا یہی دوست کہتا ہے کہ جس نقاد کو تخلیقی صلاحیت ودیعت نہیں کی گئی وہ تنقید کا حق ادا کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ تخلیق کی خداداد صلاحیت سے محروم حضرات کے لیے تنقید نگاری بھی چیزے دیگر ہوتی ہے۔ چنانچہ جو تخلیقی عمل سے نابلد ہوں اور اس کا ذاتی تجربہ نہ رکھتے ہوں وہ پھر عمر بھر فطری اور اصلی ادیب شعراء پر منفی تنقید کے ساتھ ان کی چھابڑیوں میں ہاتھ مارکر اپنی مرضی کی چیزیں برآمد کرتے رہتے ہیں۔
ہمیں اپنے اس عاقبت نا اندیش دوست سے سردست کوئی اتفاق نہیں۔ ہاں البتہ ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ ادبی تحقیق ایک بڑی مزیدار سی چیز ہے بشرطیکہ یہ خود نہ کرنی پڑے۔ دوران تعلیم جب بھی تنقید کو بطور ایک مضمون پڑھا اک عذاب لگا۔ ایک دو بار اچھے صاحب دانش اور فہم و فراست کے حامل باکمال اساتذہ میسر آئے اور تنقید کی کلاس کا ماحول بھی قدرے خوشگوار رہا۔ انہوں نے اپنے لاجواب انداز سے حق تدریس ادا کر دیا اور بظاہر خشک سے موضوعات کو اپنے کمال اسلوب سے ہمارے لیے سہل، خوشگوار اور دلچسپ بنا دیا۔ ان اکا دکا مثالوں کے علاوہ عام طور پہ تنقید پڑھانے والے اساتذہ کرام اس بورنگ مضمون کو مزید بورنگ اور کٹھن ہی بناتے رہے ہیں۔
ہمارے ایک محلے دار پروفیسر صاحب کا تعلق اسی شعبے یعنی تنقید و تحقیق سے ہے۔ موصوف سرتاپا محقق ہیں۔ وہ ہر ملنے والے کا جائزہ بھی کسی کتاب کی طرح ہی لیتے ہیں۔ عجیب و غریب مزاج پایا ہے۔ زندگی میں شاید ہی کبھی مسکرائے ہوں۔ آپ ان سے واقف نہیں ہیں اور آپ انہیں راستے میں کہیں سلام بلاتے ہیں تو وہ آپ کو ٹک ٹک دیکھتے رہیں گے لیکن جواب نہیں دیں گے۔ آپ پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ آپ سمجھیں گے کہ شاید ثقل سماعت کا مسئلہ ہے۔ آپ تھوڑا اونچی آواز میں سلام بلائیں گے تو وہ آپ سے زیادہ اونچی آواز سے آپ سے مخاطب ہو کر پوچھیں گے، ”برخوردار کتنی بار سلام بلاؤ گے، پہلے بھی سن لیا تھا“۔ ان کا یہ معاملہ تو خیر ان ناواقف لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کا ان سے تعارف نہیں ہے لیکن اگر آپ واقف بھی ہیں تو بھی ان کا طرزعمل یہی رہتا ہے۔
پروفیسر صاحب کے ساتھ ایک عرصے سے یاد اللہ ہے۔ آج تک کسی تخلیق کار کی تو کیا کسی بھی انسان کی تعریف ان سے نہیں سنی۔ انہیں کوئی انسان پسند ہے اور نہ ہی کوئی کتاب۔ ایک دفعہ عرض کیا، ”قبلہ! آپ کا استاد غالب ؔ کے بارے میں کیا خیال ہے؟“ ۔ فرمانے لگے، ”قدرے بہتر شاعر ہیں۔ لیکن ان کے کئی شعر وزن میں نہیں ہیں۔ قوی گمان ہے کہ مرزا کو علم عروض پر مطلوبہ دسترس حاصل نہیں تھی۔“ میں نے ایک مرتبہ کہا کہ جناب آپ کو کوئی شاعر خود بھی پسند ہے۔
اس پہ انہوں نے دو تین نام لیے۔ یہ بالکل غیر معروف سے نام تھے۔ ادب کا ایک طالب علم ہونے اور شاعری سے ایک درجہ شغف ہونے کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ میں نے یہ نام زندگی میں پہلی بار سنے تھے۔ بڑی حیرت ہوئی۔ یعنی پروفیسر صاحب شاعری میں پسندیدگی کے حوالے سے میر، ؔ غالب، ؔ اقبال اور فیضؔ وغیرہ کسی کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ پروفیسر صاحب اپنے شعبے کے حوالے سے نمائندہ اور اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ تنقیدی ادب کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جو موصوف کی نظر سے نہ گزری ہو۔
تخلیقی ادب کا مطالعہ البتہ دوسری بات ہے۔ پروفیسر صاحب نے یقیناً اس کا مطالعہ بھی کیا ہو گا لیکن کم از کم ان کی گفتگو سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ وہ کہتے رہتے ہیں کہ میں نے بہت وسیع مطالعہ کر رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بات درست ہو لیکن حرام ہے جو اس قدر وسیع مطالعے نے ان کی شخصیت کا کچھ بگاڑا ہو۔ میرا خیال ہے کہ وہ کتاب کو پڑھتے ہی صرف اس نظر سے ہیں کہ مصنف کم بخت نے غلطی کہاں کہاں کی ہے۔ اوپر متذکرہ دوست اور اس کی رائے سے ہمیں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن وہ نقاد حضرات کا جو نقشہ کھینچتا ہے اس پہ یہ پروفیسر صاحب بالکل فٹ آتے ہیں۔ پھر ہمیں باکمال محقق اور نقاد مشفق خواجہ کا وہ شاندار جملہ یاد آتا ہے کہ ہم نے آج تک کسی محقق کے چہرے پہ مسکراہٹ اور ہاتھوں میں کوئی معقول کتاب نہیں دیکھی۔ میں جب بھی یہ جملہ پڑھتا یا سنتا ہوں قبلہ پروفیسر صاحب کا چہرہ میرے سامنے گھوم جاتا ہے۔
- نقاد حضرات سے معذرت - 13/03/2023
- غالب اور بادہ شبانہ کی سرمستیاں - 17/02/2023
- کوئی مفلسی سی مفلسی ہے - 05/01/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).