ملازمت پیشہ خاتون کا سفر۔


کل آرٹس کونسل کی چوتھی ویمن کانفرنس میں ورکنگ ویمن یا ملازمت پیشہ خواتین کے بارے میں ایک سیشن کنڈکٹ کرنے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر رہی تھی کہ خیال آیا کہ یہ 2023 ہے اور میں نے اپنی پہلی ملازمت روزنامہ مساوات کراچی میں 1973 میں شروع کی تھی یعنی مجھے ملازمت پیشہ خاتون بنے پچاس سال ہو گئے۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ دو چار برس کی بات نہیں۔ پھر سوچا کہ گوگل پر جا کے کچھ سرچ بھی کر لوں کہ ورکنگ ویمن کی تعریف کیا کی گئی ہے، کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا۔

تو کچھ زیادہ نہیں ملا سوائے اس کے کہ باہر نکل کے معاوضے پر کام کرنے والی عورت کو ورکنگ ویمن کہا جاتا ہے۔ اسی تعریف کا نتیجہ ہے کہ ہاؤس وائف یا ہوم میکر کے کاموں کو کام ہی نہیں سمجھا جاتا۔ ارے بھئی گھر میں بیٹھی عورت کماتی نہیں تو بچاتی تو ہے۔ یعنی اگر وہ گھر کے سارے کام نہ کرے اور آپ ایک ملازم سے وہ سارے کام کرائیں تو ظاہر ہے آپ کو اسے تنخواہ دینی پڑے گی۔ تو ہمارا مطالبہ تو یہی رہا ہے کہ عورت کے ان کاموں کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جائے۔

دوسرے جب ہم ورکنگ ویمن کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں عام طور پر شہری عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ اور ہم دیہات میں زراعت کے شعبے میں کام کرنے والی عورتوں کو بھول جاتے ہیں۔ اب کہیں جا کے سندھ میں زرعی عورتوں کے بارے میں قانون بنا ہے اور انہیں افرادی قوت میں شامل کیا گیا ہے ۔ قانون تو بن گیا ہے لیکن عملدرآمد نہیں ہوا۔ اسی طرح گھر میں بیٹھ کر دوسروں کے لئے کام کرنے والی عورتوں ہوم بیسڈ ورکرز کا بھی پہلے کوئی ذکر نہیں کرتا تھا۔ اب ان کے لئے بھی پالیسی اور قانون بن چکے ہیں مگر دیگر قوانین کی طرح ان پر بھی عمل درآمد نہیں ہو پا رہا۔ اگر اس پدرسری معاشرے میں ایک ملازمت پیشہ عورت کے سفر کا جائزہ لیا جائے تو گھر سے نکلنے سے پہلے ہی اسے کتنے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے تو والدین اور اگر بڑے بھائی ہیں تو ان کو منانا۔ گھر والوں کی اجازت مل جائے تو باہر کے مسائل کا سامنا کرنا۔ پہلا مسئلہ تو ٹرانسپورٹ کا ہے۔ کوئی بھی حکومت ابھی تک پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں بنا سکی۔

گھر سے نکلتے ہی ہر جگہ جس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ ہے جنسی ہراسانی یا ہراسانی۔ سڑک پر، بسوں میں، دفتروں، کارخانوں اور اداروں میں بھوکی نظریں، ذو معنی جملے، چھونے کی کوشش، اسکینڈلز بنانے کی کوششیں اور اس سب کے ساتھ عورت دہری تہری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے آگے بڑھتی رہتی ہے۔ جنسی ہراسانی کی روک تھام کے لئے ایک بہت اچھا قانون بن چکا ہے لیکن ابھی بھی محنت کش خواتین کی اکثریت اس سے آگاہ نہیں۔ سارے اداروں میں اس پر عملدرآمد بھی نہیں ہوتا۔ اور اس قانون کے تحت بنائے جانے والے محتسب اعلی کے اداروں تک بھی ہر عورت کی رسائی نہیں۔

حالیہ برسوں میں ہوم بیسڈ ورکرز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز ایک ابھرتی ہوئی افرادی قوت کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہم لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے کرتے اور دھرنے دیتے دیکھ رہے ہیں۔ جن کے نتیجے میں ان کی تنخواہوں میں تو خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن کوئی سروس اسٹرکچر ابھی تک نہیں بنا۔ اور حکومت ہر نئی مہم کی ذمہ داری بھی ان پر ڈال دیتی ہے۔ پاکستان میں 1994 میں نیشنل ہیلتھ پروگرام شروع ہوا تھا۔

فرحت پروین کی تحقیق کے مطابق پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ہماری اس سماجی حقیقت کے پیش نظر یہ پروگرام شروع کیا تھا کہ خواتین کی اکثریت گھروں میں بند رہتی ہے اور بنیادی طبی سہولتیں ان کے دروازے تک پہنچائی جانی چاہئیں۔ لیکن پھر اس کا دائرہ وسیع کر کے پاپولیشن ویلفیئر، بچوں کو ٹیکے لگانے، متعدی امراض سے بچانے، قدرت آفات، پولیو، ڈینگی اور کرونا تک پھیلا دیا گیا۔ اس کے ساتھ انہیں مردم شماری، خانہ شماری سروے، انتخابات کے دن کی ڈیوٹی بھی سونپی گئی۔

سندھ کے ہیلتھ سیکریٹری نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز سندھ کی آبادی کے صرف 45 فی صد حصے کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس لئے نئی بھرتیوں کی ضرورت ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی رہنما بشری ارائیں ہیں اور یونین رجسٹر کروانے کے مرحلے سے گزر رہیں ہیں جس کے لئے مزدور رہنما کرامت علی اور فرحت پروین ان کی سہولت کاری کر رہے ہیں۔ پاکستان کی اسی فی صد آبادی غیر رسمی شعبے میں کام کرتی ہے اور اس میں اکثریت عورتوں اور بچیوں کی ہے۔

سندھ میں ہوم بیسڈ ورکرز کا قانون بننے سے برسوں پہلے قومی سطح پر ان کی یونین ہوم بیسڈ ویمن ورکرز فیڈریشن بن چکی تھی۔ اس کی جنرل سیکریٹری زہرہ خان ہیں۔ 2015 اور 2016 میں فیڈریشن نے چوڑیوں کی صنعت میں کام کرنے والی عورتوں کے لئے کم از کم اجرت طے کروائی۔ یونین رجسٹر ہونے کے بعد اب یہ چوڑیوں اور گارمنٹس صنعت میں کام کرنے والی ہزاروں عورتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments